عدالتوں کی جانب سے حدود سے تجاوز کا الزام مسترد - التمش کبیر - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-07-19

عدالتوں کی جانب سے حدود سے تجاوز کا الزام مسترد - التمش کبیر

compensation to acid attack victim SC
ممبئی ڈانس بارس سے متعلق مقدمہ کے تناظر میں سپریم کورٹ پر حد سے تجاوز کے الزام کو مسترد کرتے ہوئے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف انڈیا جسٹس التمش کبیر نے آج کہاکہ یہ عدلیہ کا فرض ہے کہ وہ عوام کے دستوری حق کا تحفظ کرے۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ اور عاملہ کے مابین کسی طرح کا ٹکراؤ نہیں ہے اور عدالتوں کی جانب سے حدود سے تجاوز نہیں کیا جارہا ہے۔ عدالتوں کا فرض یہ ہے کہ وہ عاملہ کو یاد دہانی کروائے کہ اس کا کام کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس طرح کے الزامات پر ردعمل سادہ سا ہے۔ جب ہم اپنا کام کررہے ہیں تو مقننہ کو اپنا کام کرنا ہے اور عاملہ کی جانب سے اپنا کام کیا جارہا ہے۔ تاہم وہ بات وہ کہنا چاہتے ہیں کہ عوام کے دستوری حقوق کا تحفظ کرنا عدالتوں کا کام ہے اور عاملہ کو بھی اس میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ اگر عوام کے دستوری حقوق متاثر ہوتے ہیں تو یہ عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کا تحفظ یقینی بنائے۔ جسٹس التمش کبیر نے چیف جسٹس آف انڈیا کے عہدہ پر آخری دن خدمات انجام دینے کے بعد عدالت سے واپس ہوتے ہوئے صحافیوں سے یہ بات کہی۔ ان سے سوال کیا گیا تھا کہ ممبئی میں ڈانس بارس پر امتناع سے متعلق حکمنامہ کو منسوخ کرنے پر جو تنقیدیں کی جارہی ہیں ان پر ان کا ردعمل کیا ہے۔ دو دن قبل ہی سپریم کورٹ نے ممبئی ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو برقرار رکھا تھا جس میں ریاستی حکومت کی جانب سے ڈانس بارس کو بند کرنے کے اعلامیہ کو کالعدم قرار دیا گیا تھا۔ جسٹس التمش کبیر نے کہاکہ عدلیہ اور جمہوریت کے دیگر ستونوں کے مابین کسی طرح کے اختلافات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ دوسرے کے حقوق اور اختیارات میں مداخلت کرنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ اگر کوئی ادارہ اپنا کام نہیں کررہا ہے تو عدالتوں کی حیثیت سے میں ہمیں یہ اختیار حاصل ہے کہ ہم ان سے ان کا کام کرنے کو کہیں۔ کسی اور کے کام میں مداخلت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ سوال کچھ لوگوں کی جانب سے اپنے کام نہ کرنے کا ہے۔ عدالتیں اس بات کو یقینی بنارہی ہیں کہ یہ لوگ اپنا کام پورا کریں۔ انہوں نے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کہاکہ کچھ اداروں کی جانب سے اپنا کام نہ کرنے کی وجہہ سے ہی عدالتوں کو مداخلت کرنی پڑرہی ہے۔ انہوں نے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کیا کہ مقننہ بھی مناسب انداز میں کام نہیں کررہا ہے اور یہ ایک انتہائی متنازعہ مسئلہ ہے۔

سپریم کورٹ نے خواتین پر ایسیڈ حملوں کو روکنے کیلئے آج حکومت کی ہدایت دی کہ وہ اس جرم کو ناقابل ضمانت جرم قرار دے اور متاثرہ کیلئے معاوضہ کو بڑھاکر 3لاکھ روپئے کردے۔ جسٹس آر ایم لودھا کی قیادت میں بنچ نے ریاستوں اور مرکزی زیر انتظام علاقوں کو ایسیڈ کی فروخت کیلئے قواعد تیار کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے یہ مشورہ دیا۔ عدالت نے کہاکہ ایسیڈ کی خریدی کیلئے شناختی کارڈ پیش کرنے کو لازمی قرار دیا جائے۔ کسی بھی صورت میں 18 سال سے کم عمر کے شخص کو ایسیڈ فروخت نہ کیا جائے۔ بنچ 2006ء میں داخل کی گئی مفاد عامہ کی ایک درخواست کی سماعت کررہی تھی۔ اس نے ایسیڈ کی فروخت اور متاثرین کے لئے عبوری احکامات جاری کئے ہیں۔ 17 ریاستوں اور 7 مرکزی زیر انتظام علاقوں کو ایسیڈ متاثرین کو دی جانے والی معاوضہ کی رقم کو ناکافی قرار دیتے ہوئے اس میں اضافہ کا مشورہ دیا۔ عدالت نے کہاکہ ریاستی حکومتیں متاثرین کے علاج اور ان کی بازآبادکاری کے اخراجات برداشت کریں گی۔ ڈویژن بنچ نے تیزاب حملے کو غیر ضمانتی جرم قرار دئیے جانے کا بھی حکم سنایا۔ عدالت نے اپنی رہنما ہدایات میں کہا ہے کہ نابالغ بچوں کو تیزاب فروخت نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ تیزاب خریدنے والوں کو شناختی کارڈبھی دیکھا جانا چاہئے۔ عدالت نے دکانداروں کو تیزاب کے خریداروں کے بارے میں مکمل تفصیلات محفوظ رکھنے کی بھی ہدایت دی۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں دکاندار کے خلاف 50ہزار روپئے کا جرمانہ لگایا جاسکتا ہے اور اس کا لائسنس بھی منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ عدالت نے کہا ہے کہ لیباریٹریوں میں استعمال کیلئے بڑے پیمانے پر تیزاب خریدنے والے میڈیکل اور دیگر تعلیمی اداروں کو خریداری سے قبل علاقہ کے سب ڈویژنل مجسٹریٹ سے اجازت لینی ہوگی۔

Pay Rs 3 lakh compensation to each acid attack victim, SC tells state govts

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں