مسلم تحفظات - سپریم کورٹ کو قائل کرانے کی حکومتی کوشش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-03

مسلم تحفظات - سپریم کورٹ کو قائل کرانے کی حکومتی کوشش

مرکزی حکومت اقلیتوں کو ذیلی کوٹہ کے تحت 4.5فیصد تحفظات فراہم کرنے مسئلہ پر سپریم کورٹ کو قائم کرانے کی کوشش کررہی ہے کہ یہ تحفظات مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ان کی پسماندگی کی بنیاد پر دئیے جارہے ہیں۔ وزیرخارجہ سلمان خورشید نے جئے پور میں ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے دستوری بنچ سے اس مسئلہ کو رجوع کیا گیا ہے، جہاں حکومت اپنا یہ موقف پیش کررہی ہے کہ مسلم تحفظات پسماندگی کی بنیاد پر ہیں نہ کہ مذہب کی بنیاد پر ۔ مذہب کی بنیاد پر تحفظات کا کوئی قانونی جواز نہیں ہے، لیکن مذہب ہی کی بنیاد پر کابینہ کی تشکیل اور سلیکٹ کمیٹی میں مختلف طبقات کو نمائندگی دی جاتی ہے۔ مشمولاتی عمل کی بنیاد ہی مذہب قرار دی گئی ہے۔ تو اس پر دو رائے کیوں ہے۔ سلمان خورشید نے اس سمینار میں موجود وزیر اقلیتی امور کے رحمن خان کو مشورہ دیا کہ وہ سپریم کورٹ میں یہ نقطہ پیش کریں۔ سلمان خورشد "سچر کے بعد سات سال" کے زیر عنوان سمینار سے خطاب کررہے تھے۔ انہوں نے کہاکہ کسی مخصوص ذات پات کی بنیاد پر تحفظات نہیں دئیے جاسکتے، لیکن اگر کسی ذات سے تعلق رکھنے والے تمام باشندے پسماندہ ہوں تو پھر انہیں تحفظات کیوں نہیں دئیے جاسکتے۔ اسی طرح اگر کسی مذہب سے تعلق رکھنے والا طبقہ پسماندہ ہوتو انہیں ان کی پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات کیوں کر نہیں دئیے جانے چاہئیں۔ مرکزی وزیر خارجہ نے مزید وضاحت کی کہ مساوی مساوات کمیشن کے قیام کا مقصد ہی یہی ہے کہ تمام طبقات کو مساوی نمائندگی دی جائے۔ سلمان خورشید نے واضح کیا کہ تحفظات ان لوگوں کو نہیں دئیے جائیں گے جو اس کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اس سلسلہ میں اقلیتوں میں بھی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ اسی دوران اقلیتی تعلیم کی نگران کار اسٹینڈنگ کمیٹی نے 90 اقلیتی غلبہ والے اضلاع میں مرکز اور ریاستوں کے تعانو سے ڈگری کالج قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔ ہر ایک ضلع میں اعلیٰ تعلیم کا ایک ماڈل کالج قائم ہوگا، جہاں سائنس، کامرس اور دیگر مضامین کے کورسس شروع کئے جائیں گے۔ وزارت فروغ انسانی وسائل کو پیش کردہ اسٹینڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک میں اقلیتی تعلیم کی صحیح صورتحال سے واقفیت حاصل کرنے کیلئے موثر ڈیٹا سسٹم کی اشد ضرورت ہے۔ اسکولوں میں اقلیتی طلبہ کے داخلوں سے متعلق صحیح معلومات فراہم نہیں ہیں۔ مسلم اقلیتی طلبہ کے اسکولوں میں داخلہ کی شرح صرف 8.7فیصد بتائی گئی ہے، جب کہ غیر مسلم طلبہ کا تناسب 16.8 فیصد ہے۔ رپورٹ میں اقلیتی تعلیم کیلئے معیار کو ترجیح دینے کی سفارش کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ معیاری تعلیم فراہم کرنے کیلئے اساتذہ کو انعام و اکرام سے نواز جانا چاہئے۔ دینی مدارس میں مدرسین کی تنخواہ میں 6ہزار روپئے سے 8ہزار روپئے تک اضافہ کیا جائے اور پوسٹ گریجویٹ اساتذہ کی تنخواہ میں 12ہزار سے 15روپئے تک اضافہ کیا جائے۔ دینی مدارس کے طلبہ اگر عصری تعلیم حاصل کرتے ہیں تو انہیں ترغیب کے طورپر ایک ہزار روپئے کی رقم دی جائے اور ان کے امتحان کی فیس معاف کی جائے۔ اقلیتی طالبات کو تعلیم کی ترغیب دینے کیلئے کمیٹی نے ایسے اضلاع میں جہاں اقلیتوں کی آبادی 10فیصد سے زائد ہو کستور با گاندھی بالیکا ودیالیہ قائم کرنے کی وکالت کی ہے۔

Govt to try to convince SC on minority sub-quota

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں