بغیر شادی جنسی تعلقات جائز - مدراس ہائیکورٹ فیصلے پر دانشوروں کا ردعمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-22

بغیر شادی جنسی تعلقات جائز - مدراس ہائیکورٹ فیصلے پر دانشوروں کا ردعمل

مدراس ہائی کورٹ کے ذریعے شادی کئے بغیر دو بالغ لڑکا لڑکی کے ایک ساتھ رہنے اور جنسی تعلقات قائم کرنے کو درست قرار دیتے ہوئے اسے شادی تسلیم کرنے اور ان کے رشتہ کو میاں بیوی کا رشتہ تسلیم کئے جانے کے فیصلہ پر ملک بھر میں ایک بحث چھڑ گئی ہے اور یہ مانا جارہا ہے کہ اگر ایسا کرنے کی چھوٹ دے دی گئی تو معاشرہ جنسی بے راہ روی کا شکار ہوجائے گا اور شادی جیسا مقدس رشتہ بے معنی ہوکر رہ جائے گا۔ روزنامہ راشٹرایہ سہارا نے اس سلسلہ میں مسلم دانشوروں سے بات چیت کی کہ وہ اس فیصلہ کو کس نظر سے دیکھتے ہیں ۔ ان کی رائے قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات کے چیرمین جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے کہاکہ اس فیصلے سے متفق نہیں ہوں۔ ہر مذہب میں شادی جیسے ادارے کو منظوری دی گئی ہے۔ اسلام میں شای ایک سول کانٹریکٹ ہے جبکہ دوسرے مذاہب میں بھی یہ ایک مقدس فریضہ ہے۔ شادی کے بغیر ساتھ رہنے والے مرد اور عورت کو شوہر اور بیوی کیسے تسلیم کیا جاسکتا ہے۔ ہندو مذہب میں بھی شادی کے وقت 7پھیرے ہوتے ہیں۔ اس دوران 3وچن شوہر دیتا ہے اور 4 وچن بیوی دیتی ہے۔ یہ ایک مقدس فریضہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ ممبئی میں "لونگ پارٹنر شپ" قانون بنایا گیا ہے جس میں ساتھ رہنے والی عورت کو کچھ حقوق دئیے گئے ہیں۔ مدراس ہائی کورٹ کا فیصلہ ہندوستانی معاشرہ کے مزاج کے مطابق نہیں ہے۔ معروف ماہر تعلیم اور دہلی یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر عبدالحق نے کہاکہ معاشرہ کو کرپٹ کرنے کیلئے اس سے برا فیصلہ نہیں ہوسکتا۔ انہوں نے کہاکہ شادی کا دارہ مذہبی تقدس کے علاوہ معاشرہ کی پاکیزگی کو برقرار رکھنے کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ اگر صرف ساتھ رہ کر جنسی تعلقات قائم کرلینے کو ہی شادی قبول کرلیا جائے گا تو اس سے معاشرہ میں یقینی طور سے بگاڑ پیدا ہوگا۔ اس سے بہت سے نئے مسائل بھی جنم لیں گے کیونکہ یہ حق ملکیت اور حق وراثت کو بھی متاثر کرے گا۔ اس کے علاوہ خاندانوں میں جو انتشار پیدا ہوگا وہ الگ۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اسلامک اسٹیڈیز کے سربراہ پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ جو مذبہی طریقے ہیں ان کے بغیر جنسی اختلاط یا رشتہ کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔ ہائی کورٹ کے معزز ججوں نے فیصلہ دیتے وقت کس بات کو پیش نظر رکھا یہ تو وہ جانیں لیکن یہ فیصلہ سماج میں جنسی انارکی پیدا کرنے کا سبب بنے گا۔ ہمیں سماج کو نہ صرف جنسی انارکی اور بے راہ روی سے بچانا ہے، بلکہ رشتوں کے باہمی تقدس کو بھی ہرحالت میں بحال رکھنا ہے۔ اس لئے اسلامی شریعت کے مطابق یہ فیصلہ قطعی درست نہیں ہے۔ شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے صدر پروفیسر توقیر احمد خان نے کہاکہ ہم ہندوستانی ہیں اور ہماری مشرقی روایات میں لڑکے اور لڑکی کے ذریعہ ایک دوسرے کو قبول کئے جانے کو ہی شادی مانا جاتا ہے۔ ممکن ہے عدالت نے یہ فیصلہ اسی بات کے پیش نظر لیا ہو جہاں تک بات مذہب کی ہے اس سلسلے میں علماء اور مفتی حضرات ہی صحیح رائے دے سکتے ہیں۔ عدالت کے فیصلے پر مزید رائے زنی مناسب نہیں ہوگی۔ عدلیہ کااحترام تو کرنا ہی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں شعبہ اردو کے سابق صدر پروفیسر خالد محمود نے کہاکہ آج کل شادی کئے بغیر ساتھ رہنے کا ایک فیشن چل رہا ہے۔ اب تو عدالت بھی اسے لیگل قرار دے رہی ہے لیکن اس فیصلہ سے شادی کے بغیر رہتے ہوئے جنسی تعلقات قائم کرنے کے معاملوں میں کمی آئے گی کیونکہ ایسے جوڑے جو اس طرح سے رہنا پسند کتے ہیں وہ اصل میں موج مستی کرنے اور ذمہ داری سے دامن بچانے کی کوشش کرتے ہیں اب جبکہ عدالت نے ساتھ رہنے کو ہی شادی تسلیم کرلیا جانا منظور کرلیا تو اب ایسا کرنے والے سوچیں گے اور اس طرح سے تعلقات بنانے سے گریز کریں گے۔

(سلیم صدیقی سے گفتگو پر مبنی)

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں