India to let government officials access private phone calls and emails
ہندوستان نے بھی اب ایک وسیع تر نگرانں کار نظام کو قطعیت دی ہے جس کے ذریعہ سکیورٹی ایجنسیاں اور انکم ٹیکس محکمہ کے عہدیداران بھی عوام کے ای میلس اور فون کالس کی تفصیلات حاصل کرسکتے ہیں اور اس کیلئے انہیں عدالتوں کی اجازت حاصل کرنی بھی ضروری نہیں ہوگی۔ ذرائع نے یہ بات بتائی۔ سنٹرل مانٹیرنگ سسٹم کا 2011 میں اعلان کیا گیا تھا تاہم اس پر کوئی عوامی مباحث نہیں ہوسکے تھے اور حکومت نے بھی اس تعلق سے زیادہ کچھ معلومات فراہم نہیں کی ہیں کہ یہ سسٹم کس طرح سے کام کرے گا اور یہ وضاحت بھی نہیں کی گئی ہے کہ اس کے ذریعہ عوام کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ معلوم ہوا ہے کہ جاریہ سال اپریل سے ہی حکومت نے ایک کے بعد ایک ریاست میں اس سنٹرل مانٹیرنگ سسٹم پر عمل آوری کا آغاز کردیا ہے۔ سرکاری عہدیداروں نے بتایاکہ اس سسٹم کے تحت ہندوستان بھر میں تقریباً 900 ملین لینڈ لائین اور موبائیل فون صارفین اور 120 ملین انٹرنیٹ استعمال کنندگان کا ڈاٹا حاصل کیا جاسکے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ اس سسٹم کے نتیجہ میں قومی سلامتی کے تحفظ میں مدد مل سکتی ہے۔ ایک سینئر عہدیدار کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس سسٹم کی مخالفت ہو لیکن قومی سلامتی سب سے اہمیت کی حامل ہے اوراسی کو ذہن میں رکھتے ہوئے یہ سسٹم تیار کیا گیا ہے جس پر عمل آوری کا خاموشی سے آغاز بھی ہورہا ہے۔ وزارت مواصلات کی ایک ترجمان نے تاہم سوالات کے جواب دینے سے گریز کیا ہے۔ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر اس سسٹم کی تشہیر کردی گئی تو پھر اس کو موثر نہیں رکھا جاسکتا اسی لئے اس تعلق سے رازداری برتی جارہی ہے۔ وزارت ٹیلی مواصلات کے ایک اور سینئر عہدیدار نے کہاکہ ملک کی سلامتی اہمیت کی حامل ہے اور تقریباً تمام ممالک میں اس طرح کے نگران کار نظام موجود ہے۔ انہوں نے اس نگران کارنظام کی مدافعت کی اور کہاکہ اس کے نتیجہ میں دہشت گرد گرفتار کئے جارہے ہیں، جرائم کی روک تھام میں مدد ملی ہے۔ اس کیلئے آپ کو نگرانی کی ضرورت ہے۔ اس کے ذریعہ آپ خود کو اور اپنے ملک کو بچاسکتے ہیں۔ اس پراجکٹ میں شامل ایک عہدیدار نے شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر یہ بات بتائی۔ کہا گیا ہے کہ اس نظام کے نتیجہ میں حکومت اب صارفین کے فون کالس سن سکتی ہے، انہیں ٹیپ کیا جاسکتاہے، ای میلس پڑھے جاسکتے ہیں، ایس ایم ایس پڑھے جاسکتے ہیں، ٹوئیٹر اور فیس بک پر پوسٹس کا جائزہ لیا جاسکتا ہے اور گوگل سرچ کی سرگرمیوں کو بھی نظر میں رکھا جاسکتا ہے۔ کہا گیا ہے کہ 2012 میں ہندوستان نے صارف کے تعلق سے معلومات حاصل کرنے کی گوگل کو جملہ 4,750 درخواستیں روانہ کی تھیں۔ یہ درخواستیں امریکہ کے بعد سب سے زیادہ تھیں۔ سکیورٹی ایجنسیوں کو اب اس سارے کام اور نگرانی کیلئے عدالت سے اجازت حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ اب حکومت کواس کیلئے انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سرویس پروائیڈرس پر بھی تفصیلات اور ڈاٹا کے حصول کیلئے انحصار کرنا نہیں پڑے گا۔ سرکاری عہدیداروں نے کہاکہ خانگی ٹیلی مواصلات فرمس کے احاطوں میں سرکاری ڈاٹا سرورس نصب کئے جارہے ہیں جو فون کالس کو سن اور ٹیپ کرسکتے ہیں۔ اس سے حکومت کو اپنی مرضی سے اور ٹیلی کام کمپنی کو اطلاع دئیے بغیر فون کالس کی سماعت کرنے کا موقع حاصل رہے گا اور وہ ٹیپ بھی کرسکتے ہیں۔ کہا گیا ہے کہ قومی سطح پر وزارت داخلہ کے عہدیداروں اور ریاستی سطح پر ان کے نامزد کردہ عہدیداروں کو کسی مخصوص فون نمبر یا ای میل نگرانی اور حصول ڈاٹا کی درخواست کو منظوری کا اختیار ہوگا۔ کہا گیا ہے کہ کسی کا بھی فون سننے یا ٹیپ کرنے یا ای میل تک رسائی حاصل کرنے سے قبل معتمد داخلہ کو انٹلی جنس سے کوئی اطلاع ملنی ضروری ہوگی۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں