دہلی یونیورسٹی - اردو کورسز اور اردو اساتذہ کے وجود پر سوالیہ نشان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-25

دہلی یونیورسٹی - اردو کورسز اور اردو اساتذہ کے وجود پر سوالیہ نشان

دہلی یونیورسٹی کیلئے حال ہی میں متعارف کرائے گئے نئے 4سالہ انڈر گریجویٹ کورسز پر تنازعات طویل ہوتے جارہے ہیں۔ نئے کورس کے بارے میں پہلے ہی سے اندیشے ظاہر کئے جارہے تھے، مگر یونیورسٹی میں اردوکی تعلیم پر چار سالہ کورس کے اثرات کے تعلق سے جو نئی بات سامنے ائی ہے اس سے یہ صاف ہوگیا ہے کہ دہلی یونیورسٹی میں اردو اور اردو ٹیچر دونوں خطرے میں ہیں۔ چار سالہ کورس پر شعبہ اردو سے وابستہ کچھ پروفیسروں نے اپنے جائزہ اور مطالعہ کے بعد یہ واضح کردیا ہے کہ ڈی یو کے چارسالہ انڈر گریجویٹ کورس کے بہانے دیگر اقلیتی زبانوں کے ساتھ ساتھ اردو کو نشانہ بنانے کی سازش کی جارہی ہے یعنی اب دہلی یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے وجود کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔ دیال سنگھ کالج کے شعبہ اردو کے ڈاکٹر مولا بخش نے چار سالہ کورس کے شعبہ اردو پر منفی اثرات کے تعلق سے تفصیلی بات چیت کرتے ہوئے بتایاکہ ڈی یو کے چار سالہ کورس کے تعلق سے جس طرح کے اندیشے جنم لے رہے تھے اب وہ یقینی ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چار سالہ کورس کو یہ کہہ کر متعارف کرایا گیا کہ اس سے طلبہ وطالبات بین العلومی تعلیم حاصل کریں گے اور اس سے ان کی صلاحیت میں ہمہ جہتی پیدا ہوگی، مگر اس کے منفی اثرات یہ پڑیں گے کہ جو اقلیتی زبانیں ہیں، ان کی بقاء اب دہلی یونیورسٹی میں خطرے میں پڑ گئی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دراصل اس معاملہ کو اس طرح سمجھنا چاہئے کہ چار سالہ کورس سمسٹر سسٹم پر مبنی ہیں جو ڈی سی ون اور ڈی سی ٹو کے حساب سے جانا جائے گا۔ اس کے حساب جن کالجس میں بی اے آنرس (اردو) ہورہا ہے وہ ڈی سی ون میں تبدیل ہوجائے گا اور طالب علم یا طالبہ اس حساب سے تعلیم حاصل کریں گی، مگر جن کالجس میں آنرس کا شعبہ نہیں ہے وہاں کیا ہوگا؟ انہوں نے کہاکہ اس کورس میں انڈین لینگویجس کی تعلیم کاانتظام کیا گیاہے، مگر اس کے نمبرات نہیں جوڑے جائیں گے جن سے خود ہندوستانی زبانوں کی تعلیم سے دلچسپی ختم ہوتی جائے گی۔ ظاہرہے اس کا سیدھا اثر اردو زبان کی تعلیم پر پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ جو اقلیتی زبانیں ہیں ان کے فروغ اور بقاء کیلئے بغیر کسی مفاد کے آئینی طورپر حکومت پابند عہد ہے۔ یعنی ایسی زبانوں کو باقی رکھا جانا ہے بغیر اس مقصد کے کہ اس سے نوکری ملتی ہے یا نہیں مگر دہلی یونیورسٹی نے جو روش اپنائی ہے وہ بالکل اس کے برخلاف ہے۔ انہوں نے کہاکہ ابھی حال ہی میں ڈی یو کے ڈین اے جے کھورانہ نے ایک عجیب و غریب خط لکھا ہے جس میں زبانوں کی تعلیم کے لحاظ سے دوہرا رویہ ظاہر کیا گیا ہے۔ ذاکر حسین دلی کالج کے شعبہ اردو کے پروفیسر عبدالعزیز نے ڈی یو کے چار سالہ کورس کو تخصصات کیلئے موت قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اردو شعبہ کے پروفیسر کی حیثیت سے میں پورے اعتماد سے کہنا چاہوں گکہ اس کورس کے نفاذ کے بعد اردو ادب، اردو ریسرچ، اردو زبان کی بقاء اور سلیس اردو کی تعلیم کا رواج قصہ پارینہ بن جائے گا۔ انہوں نے مزید کہاکہ جب کورسز بنائے جارہے تھے تو اس وقت یہ کہا گیا کہ نصاب ہلکا بنایا جائے، اتنا ہلکا کہ 9؍ویں جماعت کا طالب علم آسانی سے پڑھ سکے۔ انہوں نے کہاکہ چار سالہ کورس میں پہلے 3سال ہر طرح کی تعلیم حاصل کرے گا پھر چوتھے سال اسے تخصص کرانے بٹھادیا جائے تو سوال یہ ہے کہ جب اس کے اندر اردو کے فہم کی صلاحیت ہی نہیں آئی تو اردو پر ریسرچ کرنے کی صلاحیت کہاں سے آئے گی۔ اردو ادب کی تفہیم کیسے ہوگی؟ دہلی یونیورسٹی کے اردو کے پروفیسر ابن کنول نے رابطہ کرنے پر بتایاکہ ’میں نے اس کی اسٹڈی نہیں کی ہے چونکہ میں پوسٹ گریجویشن ڈپارٹمنٹ سے وابستہ ہوں اس لئے میں چار سالہ انڈر گرایجویٹ کے بارے میں کچھ زیادہ نہیں کہہ سکتا لیکن جس طرح کی صورتحال ہے وہ یقیناً خطرہ ہی نظر آرہا ہے۔ انہوں نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اس سے مقبل میں ایم اے اردو پر خطرہ کی تلوار لٹک سکتی ہے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں