UP Cabinet accepts Nimesh Commission report
حکومت آترپردیش نے آج نمیش کمیشن کی ایک رپورٹ کو قبول کرلیا ہے جس نے 2مسلم نوجوانوں کو جنہیں 2007ء میں دہشت گردی کے الزامات سے عملاً بردی کردیا ہے۔ بی جے پی اور کانگریس نے اس فیصلے پر تنقید کی ہے اور سماج وادی پارٹی پر مسلمانوں کو ووٹ بینک کے طورپر استعمال کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ چیف منسٹر اکھلیش سنگھ یادو نے کابینہ کے اجلاس میں اس سفارش کو قبول کئے جانے کے بعد اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ نکیش کمیشن کی رپورٹ کو کارروائی رپورٹ کے ساتھ اترپردیش اسمبلی کے مانسون سیشن میں پیش کیا جائے گا۔ سی پی آئی لیڈر اتل کمار انجان نے ادعا کیا کہ اپنی 237 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں نمیش کمیشن نے خصوصی ٹاسک فورس کی جانب سے طارق قاسمی اور خالد مجاہد کی گرفتاری کے ادعا کو "مشبہ" قرار دیا ہے۔ مسٹر انجان نے پی ٹی آئی سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ حقائق کی بنیاد پر خود ساختہ ملزمین طارق قاسمی اور خالد مجاہد کی قابل اعتراض مواد کے ساتھ 22 دسمبر 2007ء کو گرفتاری مشتبہ لگتی ہے کیونکہ گواہوں کے بیانات پر پوری طرح یقین نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہاکہ اس رپورٹ میں اسپیشل ٹاسک فورس کے کام کاج پر سوالیہ نشان لگایا گیاہے اور اس کی غلط کاریوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ کو قبول کرلینے پر ریاستی حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے بی جے پی ترجمان وجئے بہادر پاٹھک نے کہاکہ حکومت حالات کو میرٹ کی اساس پر نہیں دیکھ رہی ہے بلکہ صرف ووٹ بینک کی سیاست پر نظر رکھتے ہوئے کام کررہی ہے۔ آج کا اقدام خوشامدانہ پالیسی کی ایک اور مثال ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ رپورٹ حکومت کو گذشتہ سال اگست میں پیش کی گئی تھی لیکن اس نے اسی وقت کوئی کارروائی نہیں کی بلکہ اس نے یہ فیصلہ خالد مجاہد کے خاندان کے دباؤ میں کیا ہے۔ کانگریس نے اس رپورٹ کو اترپردیش کابینہ کی جانب سے قبول کئے جانے کو سیاسی ڈرامہ قرا ردیا ہے۔ پارٹی ترجمان دویجیندر ترپاٹھی نے کہاکہ اگر حکومت کے ارادے صاف ہوتے تو وہ اس رپورٹ کو منظر عام پر لانے 10ماہ تک انتظار نہیں کرتی۔ انہوں نے کہاکہ رپورٹ کے ذریعہ یہ ثابت ہوچکا ہے کہ دو نوجوانوں کو غلط طورپر گرفتار کیا گیا تھا جبکہ سماج وادی پارٹی حکومت نے بے قصور نوجوانوں کو رہا کرنے کا وعدہ کرنے کے باوجود کارروائی کرنے میں 10ماہ کا وقت لگادیاہے۔ انہوں نے ایس پی اور بی ایس پی دونوں پر مسلمانوں کو وٹ بینک کی طرح استعمال کرنے کا الزام عائد کیا۔ اسپیشل ٹاسک فورس نے ادعا کیا تھا کہ اس نے قاسمی اور خالد مجاہد کو 2007ء دسمبر میں بارہ بنکی سے دھماکو مادوں کے ساتھ گرفتار کیا ہے۔ مسلمانوں کی جانب سے احتجاج کے بعد اس وقت کی مایاوتی حکومت نے بے قصور نوجوانوں کی گرفتاری کے الزامات کی تحقیقات کیلئے نمیش کمیشن قائم کیا تھا۔ سماج وادی پارٹی نے 2012ء کے اسمبلی انتخابات میں اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا تھا کہ اگر اسے اقتدار سونپا گیا تو مسلمانوں کے خلاف جتنے بھی جھوٹے مقدمات درج کئے گئے ہیں ان سے دستبرداری اختیار کرلی جائے گی۔ مسٹر اتل انجان نے اس رپورٹ کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہاکہ قاسمی نے اپنے حلفنامہ میں کہا تھا کہ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری سازش میں اس وقت کے ڈی جی پی وکرم سنگھ، ایڈیشنل ڈی جی لا اینڈ آرڈر برج لال، سیتا پور کے ایس پی امیتابھ یش کے ملوث ہیں تاہم نمیش کمیشن نے کسی بھی عہدیدار کی سرزنش نہیں کی ہے۔ قاسمی نے اپنے حلف نامہ میں کہا تھا کہ 12؍دسمبر 2007ء کو 9تا10افراد نے اعظم گڑھ ضلع سے ان کا اغوا کیا تھا اور انہیں لکھنو لایا گیا۔ یہاں ان پر تھرڈ ڈگری استعمال کی گئی اور کچھ بیانات قبول کرنے پر مجبور کیا گیا اور سادہ کاغذات پر دستخط کئے گئے۔ خالد مجاہد کا 28 مئی کو فیض آباد عدالت سے لکھنو لاتے ہوئے راستہ میں قتل کردیا گیا تھا۔ انہوں نے بھی اپنے حلفنامہ میں الزام عائد کیا تھا کہ انہیں 16دسمبر کو جونپورسے گرفتار کیا گیا تھا جب وہ مارکٹ سے واپس آرہے تھے۔ انہوں نے کہا تھا کہ ان سے بھی غیر انسانی سلوک کیا گیاتھا۔ بعد میں اسپشیل ٹاسک فورس نے ادعا کیا تھا کہ دونوں کو بارہ بنکی ریلوے اسٹیشن کے قریب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ حالانکہ پولیس کا ادعا ہے کہ خالد مجاہد بیماری کی وجہہ سے چل بسے ہیں لیکن ان کے افراد خاندان کا الزام ہے کہ چونکہ خالد مجاہد کی رہائی سے کئی سینئر عہدیداروں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑسکتا تھا اس لئے ان کا قتل کردیاگیا۔ خالد مجاہد کے افراد خاندان نے 42پولیس عہدیداروں کے خلاف مقدمہ بھی درج کروایا ہے جن میں سابق ڈی جی پی بھی شامل ہیں۔ ریاستی حکومت پہلے ہی یہ معاملہ سی بی آئی کے سپرد کرچکی ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں