اصل تعلیمی دھارے میں پرائیویٹ کوچنگ کی نقب زنی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-29

اصل تعلیمی دھارے میں پرائیویٹ کوچنگ کی نقب زنی

عالمی معیشت میں آگے رہنے کی خواہش اور اسکول و کالجوں میں تعلیم کے گرتے معیار کی وجہہ سے بڑے شہروں میں پرائمری اسکول کے 87فیصد اور ہائی اسکول کے 95فیصد تک طلباء پرائیویٹ ٹیوشن پڑھ رہے ہیں۔ ایسوچیم کے ایک سروے سے یہ انکشاف ہوا ہے۔ سال 2006ء سے 2013 کے درمیان پرائمری اسکول کے ٹیوشن پر انحصار کرنے والوں کی تعداد میں 100فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ دوسری طرف ثانوی تعلیم کیلئے پرائیوٹ ٹیوشن لینے والوں کی تعداد 2006 سے 2013 کے درمیان 92فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پچھلے 6،7سال کے دوران پرائمری سطح کے ٹیوشن میں ثانوی سطح سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ ایسوسی ایٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری آف انڈیا (ایسوچم) نے حال ہی میں ہندوستان کے پرائیوٹ کوچنگ سنٹرز کے کاروبار کے حالیہ سروے سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ ہندوستان میں پرائیوٹ ٹیوشن اربوں روپے کی صنعت بن چکی ہے اور جس میں پچھلے 5سال کے دوران 35فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فی الحال ہندوستان میں پرائیوٹ کوچنگ کا کاروبار 23.7 ارب ڈالر کا ہے اور 2015ء تک یہ 40 ارب ڈالر کو چھولے گا۔ اس سروے کیلئے 12شہروں میں مارچ سے مئی کے دوران 5ہزار طلباء اور والدین سے سوال پوچھے گئے۔ دہلی اور نواح، ممبئی، کولکتہ، بنگلور، چینئی، حیدرآباد، لکھنؤ، احمدآباد، جے پور اور چندی گڑھ کے سروے سے مزید انکشاف ہوتا ہے کہ متوسط طبقہ کے والدین کی اکثریت آمدنی کا ایک تہائی اپنے بچوں کے پرائیوٹ ٹیوشن پر خرچ کررہے ہیں تاکہ امتحان میں وہ اچھے نمبر لاسکیں اور پیشہ وارانہ کورسوں کیلئے مقابلہ جاتی داخلہ کی تیاری کرسکیں۔ ایسوچیم کے سکریٹری جنرل مسٹر ڈی ایس راوت نے کہاکہ اس اضافہ کی وجہ محض یہ نہیں ہے کہ والدین کی آمدنی بڑھی ہے اور وہ پرائیوٹ ٹیوشن کرانے کے متحمل ہوگئے ہیں بلکہ یہ ہے کہ پرائیوٹ ٹیوشن آشد ضروری ہے۔ بچوں پر ساتھی طلباء کا دباؤ رہتا ہے اور اسی طرح والدین پر بھی ایک دوسرے کو دیکھ کر وہ اس راستہ پر چل رہے ہیں۔ والدین کی اکثریت اپنے بچوں کو اسکول میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ ابتدائی اور ثانوی سطح کی تعلیم کیلئے پرائیوٹ ٹیوشن پر انحصار کرنے میں 86فیصد سے زیادہ والدین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بچوں کو پڑھانے کا وقت نہیں ہوتا یا اس کے پاس ہر موضوع پڑھانے کی قابلیت نہیں ہوتی یا بچے ان سے ان سے پڑھتے نہیں ہیں۔ اس لئے انہیں ٹیوشن پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ اس سے انہیں بہت سہولت ہوجاتی ہے کیونکہ یہ ذمہ داری ان پر سے منتقل ہوجاتی ہے۔ ملازمت پیشہ والدین کہتے ہیں کہ وہ آدھا دن اور کئی بار پورا دن گھر سے باہر گذارتے ہیں اس لئے وہ بچوں کی پڑھائی پر دھیان نہیں دے پاتے۔ 85فیصد والدین نے یہی بات کہی۔ اس وقت دہلی اور نواحی علاقوں میں پانچ لاکھ سے زیادہ پرائیوٹ ٹیوٹر سرگرم ہیں۔ چونکہ بہترین کالجوں میں داخلہ مشکل ہوتا جارہا ہے اس میں مقابلہ بہت زیادہ ہے ایسے میں پرائیوٹ ٹیوشن کی مانگ مسلسل بڑھ رہی ہے۔ سروے سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ نامور اسکول اور کالجوں کے کئی بہترین ٹیچروں نے اپنی ملازمت چھوڑ کر پرائیوٹ ٹیوشن دینا شروع کردی ہے۔ اس کی وجہہ یہ ہے کہ اچھے ٹیوٹر کی ماہانہ آمدنی اسکولی ٹیچروں کی سالانہ تنخواہ کے مساوی ہے۔ سروے سے یہ بات بھی اجاگر ہوئی ہے کہ پرائیوٹ ٹیوٹر اگر ایک بچہ کو پڑھاتے ہیں تو ایک ہزار سے 4ہزار روپے فی گھنٹہ لیتا ہے جبکہ گروپ میں پڑھانے پر ایک ہزار سے 6ہزار ماہانہ چارج کرتا ہے۔ ایک اندازہ ہے کہ فی صد والدین پرائمری کلاس میں پڑھنے والے اپنے ہر بچہ پر ایک ہزار سے 3ہزار روپئے خرچ کرتے ہیں جبکہ سکینڈری( ثانوی) سطح کے بچے پر ماہانہ ٹیوشن پر ہزار اور زیادہ خرچ آتاہے۔ تقریباً فی صد ٹیوٹر کہتے ہیں کہ سرکاری اسکول کے نظام کی خامیوں اور کمیوں کو دور کرنے کیلئے والدین نجی طور سے بچہ کو تعلیم دلوانا چاہتے ہیں جبکہ فی صد سے ان کا بزنس بڑھا ہے۔ جووالدین چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پڑھائی میں آگے بڑھیں ان کیلئے یہ حل عام ہے ملک میں ہر جگہ ٹیوشن سنٹروں کی جو باڑھ آئی ہے اس کی وجہہ یہ تصور ہے کہ ملک کا تعلیمی نظام خامیوں سے پر ہے۔ زیادہ سے زیادہ والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ضرورت کے وقت پرائیوٹ ٹیوشن بچہ میں قابلیت پیدا کرتے ہیں انہیں آگے بڑھاتے ہیں کیونکہ اسکولی ٹیچروں کو بہت کلاسوں کو پڑھانا ہوتا ہے، وہ ہر بچہ پر انفرادی توجہ نہیں دے سکتے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ایسا نہیں صرف پڑھائی میں پھسڈی بچے ہی ٹیوشن لیتے ہیں بلکہ ذہین اور قابل بچے بھی ان شہروں میں پڑھتے ہیں تاکہ 96سے لے کر 99 فیصد نمبر پاسکیں کیونکہ بہترین کالجوں میں اتنے ہی نمبروں پر داخلہ مل سکتا ہے۔ تعلیمی نظام روزبروز زیادہ مسابقتی ہوگیا ہے اور سارا زور علم حاصل کرنے پر نہیں بلکہ امتحان اچھے نمبروں سے پاس کرنے پر ہے۔ اب چھوٹے شہروں میں بھی پرائیوٹ ٹیوشن کا رجحان بہت زیادہ بڑھتا جارہا ہے۔ وہاں کے لوگ اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ ٹیوشن پر خرچ کررہے ہیں۔ بڑے شہروں میں پرائیوٹ ٹیوشن اور کوچنگ کلاسسز بڑا نفع بخش کاروبار ثابت ہوا ہے جس میں نقصان کا کوئی اندیشہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے بھی بڑے شہروں کی ہر گلی کوچے میں جابجا ٹیوشن سنٹر نظر آتے ہیں۔ پرائیوٹ ٹیوشن سے کم آمدنی والے کنبوں کے بچوں کو بہت نقصان ہورہا ہے کیونکہ اس سے صرف انہیں فائدہ ہوتا ہے جو پیسہ خرچ کرنے کے اہل ہیں۔ غریبوں کیلئے اسکول کا خرچ ہی اٹھانا مشکل ہوتا ہے ٹیوشن کا دوہرا خرچ کیسے اٹھائیں۔ مسٹر راوت نے کہاکہ ہر بچہ کی اچھی تعلیم تک رسائی ہونی چاہئے یہ ان کا حق ہے۔ پڑھائی تک رسائی اس بنیاد پر نہیں ہونی چاہئے کہ وہ اس کا خرچ اٹھانے کے لائق ہیں یا نہیں۔

Private coaching penetrates in mainstream education system

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں