اکیسویں صدی کے سماجی و معاشی چیلنجز - سورت قومی کانفرنس - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-02

اکیسویں صدی کے سماجی و معاشی چیلنجز - سورت قومی کانفرنس

ہندوستان کی مجموعی ترقی میں جب تک مسلمانوں کو مساوی شراکت دار بنایا نہیں جاتا اور انہیں مشمولیاتی ترقی میں شامل نہیں کیا جاتا اس وقت تک ہندوستان کا سوپر پاور بننے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوسکتا۔ "اختیار و امتیاز کیلئے جدوجہد" نامی تنظیم کے سربراہ حضرت مولانا محمد فضل الرحیم مجددی نے قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ "21ویں صدی کے سماجی و معاشی چینلجس" کے زیر عنوان کانفرنس کا اہتمام سورت میں کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں مرکزی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے بھی شرکت کی۔ مولانا مجددی نے جو منصوبہ بندی کمیشن اسٹیرنگ کمیٹی کے رکن ہیں کہاکہ 20 ویں صدی میں روٹی، کپڑا اور مکان ہندوستان کی بنیادی ضروریات تھیں، 21ویں صدی میں ضروریات کی نوعیت تبدیل ہوگئی ہے۔ آج کے دور میں پکا مکان، برقی، پینے کا پانی اور دیگر سہولتوں کے ساتھ، بہتر تعلیم، صحت اور معاشی شراکت داری بنیادی ضروریات میں شامل ہیں۔ گجرات میں مسلمانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ 50فیصد مسلمان پسماندگی کے دلدل میں پھنس گئے ہیں۔ ان کی اکثریت خط غربت کے نیچے زندگی گذار رہی ہے۔ ریاست کی موجودہ حکومت برسوں سے اقلیتی طلبہ کیلئے اسکالرشپ فراہم کرنے مرکزی حکومت کی اسکیم نافذ کرنے سے انکار کررہی ہے۔ گجرات کی ترقی سے متعلق نریندر مودی کے بلند بانگ دعوے کھوکھلے ہیں۔ انہوں نے سوال کیاکہ نریندر مودی آپ ایک طرف 60کروڑ گجراتیوں کی فلاح و بہبود کی باتیں کرتے ہیں تو آپ کی ریاست میں مسلمانوں کی حالت اس قدر ابتر کیوں ہے؟ ہندوستان کی ہر ریاست میں اقلیتوں کے طلبہ کو اسکالرشپ دی جارہی ہے۔ صرف گجرات میں یہ اسکیم نافذ نہیں ہے۔ اگر واقعتاً گجرات ترقی کی مثال بن چکا ہے تو اس میں مسلمانوں کو بھی شامل کیا جانا چاہئے تھا۔ ریاست میں مشمولاتی ترقی بالکل نہیں ہے۔ بارہویں پنچسالہ منصوبہ پر تقریباً تمام ریاستوں کے وزرائے اعلیٰ نے دستخط کئے تھے۔ یہ منصوبہ کسی ایک سیاسی جماعت کا نہیں تھا بلکہ بھارت ورش کا پلان تھا۔ منصوبہ بندی کمیشن نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ مسلمان سب سے زیادہ پسماندہ ہیں۔ منصوبہ بندی کمیشن کی رپورٹ پر دستخط کرنے کے باوجود نریندر مودی نے مسلم بچوں کو اسکالرشپ دینے سے انکار کیوں کیا۔ آخر کار عدالتوں کی جانب سے قانونی سرزنش کے بعد نریندر مودی اپنی ریاست میں اسکیم نافذ کرنے کیلئے مجبور ہوگئے۔ آج چین ساری دنیا کا سوپر پاور بننے کی راہ پر گامزن ہے، امریکہ کے مقابلہ میں چین کو سبقت حاصل ہورہی ہے۔ چین کے بعد ہندوستان نہایت تیز رفتاری کے ساتھ معاشی طورپر ترقی کررہا ہے۔ ترقی کے اس عمل میں جب تک مسلمانوں کو شامل نہیں کیا جاتا اس وقت تک مجموعی طورپر ملک ترقی نہیں کرسکتا۔ گذشتہ صدی کے مقابلہ میں اگر ہندوستان کو معیاری ترقی کا نشانہ حاصل کرنا ہو اور 21ویں صدی کے مقابلہ میں اگر ہندوستان کو معیاری ترقی کا نشانہ حاصل کرنا ہو اور 21ویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹنا ہوتو پھر مسلمانوں کو بھی ترقی کے عمل میں شامل ہوجانا چاہئے۔ انہیں چاہئے کہ وہ اقلیتوں کیلئے بنائی گئی حکومت کی اسکیمات سے استفادہ کریں۔ مولانا مجددی نے مسلمانوں سے دردمندانہ اپیل کی کہ وہ تعلیم حاصل کریں، تعلیم کیلئے اپنی زندگیاں وقف کریں۔ بارہویں پنچسالہ منصوبہ کے اقلتیے چیاپٹر پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے مولانا مجددی نے کہاکہ مختلف اسکیموں پر موثر عمل آوری کے کرشمانی انداز میں نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ انہوں نے مسلمانوں سے پرزور مطالبہ کیا کہ وہ خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں اور چوکس رہتے ہوئے پارلیمنٹ، اسمبلی اور کارپوریشنس میں اپنے نمائندوں کے ذریعہ اپنے حقوق حاصل کرنے کی جدوجہد میں شامل ہوجائیں۔ مسلمانوں کو محض ایک گروپ، طبقہ یا مسلک میں تقسیم ہونے کے بجائے واحد ملت کی حیثیت سے اجتماعی قوت کے ساتھ اپنے حقوق کا مطالبہ کرنا چاہئے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ حکومت یا اپنے نمائندوں کے پرفریب وعدوں کے جھانسوں میں نہ آئیں بلکہ ان سے ٹھوس عملی اقدامات کا مطالبہ کریں اور اگر وہ وعدوں کی تکمیل میں ناکام ہوجاتے ہیں تو انہیں مسترد کردیں۔ مولانا مجددی نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ بارھویں پنچسالہ منصوبہ پر نفاذ کا ایک سال گذر چکا ہے لیکن وزارت اقلیتی امور نے ابھی تک اقلیتی غلبہ والے علاقوں میں انفراسٹرکچر کی ترقی کیلئے کوئی لائحہ عمل نہیں بنایا۔ وزیر خارجہ سلمان خورشید نے مولانا مجددی کے تعلیمی مشن کی بھرپور تائید کی۔ انہوں نے کہاکہ ہندوستانی مسلمان جذباتی مسائل کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے سورت میں منعقدہ اس کانفرنس کو مہاتما گاندھی کے دور کی وردھا اسکیم سے تعبیر کیا اور امید ظاہر کی کہ بارہویں پنچسالہ منصوبہ میں شامل اسکیموں پر موثر عمل آوری کے مستقبل میں بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ سلمان خورشید نے کہاکہ تعلیم ایسی طاقت ہے جس کے ذریعہ کسی بھی ملک اور کسی بھی قوم میں معاشی، سماجی انقلاب برپا کیا جاسکتا ہے۔ اقلیتوں کو مذہب کی بنیاد پر نہیں بلکہ پسماندگی کی کسوٹی پرتحفظات دئے جانے چاہئیں۔

National Conference entitled "21st Century’s Socio-economic Challenges" at Surat

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں