اقلیتوں لے لیے پانچ یونیورسٹیوں کے قیام کا فیصلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-06-02

اقلیتوں لے لیے پانچ یونیورسٹیوں کے قیام کا فیصلہ

آئندہ لوک سبھا انتخابات سے قبل اقلیتوں تک موثر پیمانے پر سائی کی ایک کوشش کے طورپر مرکزی حکومت نے اقلیتی طبقات میں تعلیمی ترویج و ترقی کیلئے 5نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا اعلان کیا ہے۔ وزیر اقلیتی بہبود کے رحمن خان نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ اقلیتوں کیلئے5 نئی یونیورسٹیوں کے قیام کا فیصلہ کرلیا گیا ہے لیکن ان کے مقام کو ہنوز قطعیت نہیں دی گئی ہے۔ مسٹر رحمن خان نے کہاکہ وزارت اقلیتی بہبود نے 5 یونیورسٹیوں کے قیام کا فیصلہ کی ہے کیونکہ دیگر وزارت نے بھی ایسا کیا ہے۔ ہماری بنیادی مقصد اقلیتی بہبود پر توجہ مرکوز کرنا ہے چنانچہ اقلیتوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہوئے یہ یونیورسٹیاں قائم کی جارہی ہیں جس کا مقصد اقلیتوں میں تعلیمی ترویج و ترقی کو یقینی بنا یا جاسکے تاہم انہوں نے وضاحت کی کہ اقلیتوں کیلئے مرکوز یونیورسٹیاں کسی مذہب کیلئے مخصوص نہیں ہیں۔ مسٹر رحمن خان نے ان سوالات کو مسترد کردیا کہ یونیورسٹیوں کے قیام کا فیصلہ سیاسی ہے جو آئندہ لوک سبھا انتخابات کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیاگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ"میں 8ماہ قبل یہ وزارت سنبھالا تھا چنانچہ اب اگر میں کوئی بھی فیصلہ کروں تو وہ سیاسی فیصلہ ہی کہلایا جائے گا۔ اس کےئلے میں کیا کرسکتا ہوں؟ انہوں نے مزید سوال کیا کہ ’کیا محض اس لئے الیکشن آرہے ہیں،میں کچھ کئے بغیر خاموش ہی بیٹھا رہوں؟ کیا میں کوئی کام نہ کروں؟ انہوں نے کہاکہ سچر کمیٹی کہہ چکی ہے کہ مسلمان بدترین تعلیمی پسماندگی کا شکار ہیں۔ ان کی یہ پسماندگی پسماندہ طبقات و قبائل کی پسماندگی سے بھی زیادہ ہے چنانچہ اس وزارت نے یونیورسٹی کے قیام اور دیگر تعلیمی اداروں کے فروغ کا فیصلہ کی ہے۔ قبل ازیں مسٹر رحمن خان نے دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کو درج فہرست طبقات کی حیثیت سے شامل کرنے کے مسئلہ پر مشاورتی اجلاس میں حصہ لیا اور کہاکہ شخصی طورپر میں اس نظریہ کی تائید کرتا ہوں۔ انہوں نے صحافیوں سے کہاکہ یہ ایک جائز مطالبہ ہے۔ کوئی نیا مطالبہ نہیں ہے۔ ہمیں دستوری اعتبار سے اس مسئلہ کا جائزہ لینا چاہئے۔ خواہ اس کے کوئی بھی پہلو ہوں۔ دستوری گنجائش قطعی اور حتمی اہمیت حاصل رہے گی۔ مشاورت سے متعلق مسٹر رحمن خان نے کہاکہ درج فہرست طبقات کی فہرست میں دلت مسلمانوں اور دلت عیسائیوں کی شمولیت کا مسئلہ منطقی ہے لیکن ایسے فیصلے سیاسی نوعیت کے ہوتے ہیں اور حکومت کو مشاورتوں کے عمل سے گذرنا ہوتاہے۔ ایسے مسائل کا مداوا عدلیہ پر منحصر ہے کیونکہ دستور کی تشریح اور انصاف کرنا اس کا اختیار تمیزی ہوتاہے۔ مسٹر رحمن خان نے کہاکہ طبقات کی پسماندگی کے مسائل دراصل مذہبی نہیں بلکہ سماجی مسائل ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ’میں ذرائع ابلاغ، دانشوروں بلکہ عدلیہ سے بصد احترام درخواست کرتا ہوں کہ وہ ان مسائل کو سماجی مسائل کے طورپر دیکھیں۔ اس میں مذہب کو نہ لائیں۔ اگر مسلمان پسماندہ ہیں تو یہ سماج کا ایک طبقہ ہے۔ اسلام پسماندہ نہیں ہے۔ عیسائیت پسماندہ نہیں ہے۔ ہندو دھرم پسماندہ نہیں ہے۔ وزیراقلیتی بہبود نے کہاکہ ان کی وزارت نے نہ صرف سچر کمیٹی کی سفارشات پر یہ فیصلہ کیا ہے بلکہ ان سفارشات پر ملک گیر پیمانہ پر مباحث بھی ہوئے تھے۔

Govt to set up five 'minority-focus' universities

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں