ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:14 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-04

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:14


"میں اس کو دوبارہ چلتے وقت کنویں میں پھینک دوں گا"۔ ونود نے بڑے ڈرمائی انداز میں جواب دیا
"اور شانتا اس طرح ہم ہمیشہ ہمیشہ کیلئے اس بت کی نحوست سے نجات پاجائیں گے"۔
"پروفیسر تارک ناتھ کیا سوگئے ہیں"شانتا نے پوچھا۔
"ہاں۔۔۔میں ابھی ان کے کمرے سے ہی آرہا ہوں"۔ ونود نے پروفیسر کی موت کی بات شانتا سے چھپانا ہی مناسب سمجھی۔
تمام رات ونود شانتا کے پلنگ کے پاس بیٹھا رہا۔ دونوں کی رات آنکھوں آنکھوں میں کٹ گئی۔ ایک مرتبہ شانتا نے ونود سے کچھ پوچھنا بھی چاہا لیکن ونود نے بات ٹال دی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ اس پر کچھ خوف بھی طاری تھا۔ اسے رہ رہ کر خیال آجاتا تھا کہ شاتو اس سے اپنی بے عزتی کا بدلہ ضرور لے گی۔ رات اسی طرح گذر گئی۔
صبح چھ بنجے کالکا نے اس سے آکر کہا ۔۔۔"مالک میں نے ضروری سامان باندھ لیا ہے"۔
ونود نے جواب دیا"بہت اچھا کیا۔۔۔ اب تم ناشتہ تیار کرو۔۔۔ہم یہاں سے آٹھ بجے تک روانہ ہو جائیں گے۔" کالکا کے جانے کے بعد شانتا نے ونود سے کہا "آپ پروفیسر تارک ناتھ سے بھی جاکر کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنا سامان باندھ لیں"۔
اور جیسے پروفیسر تارک ناتھ کا نام سنتے ہی وہ چونک پڑا۔ اب اسے یاد آیا کہ حویلی میں ایک ایسے آدمی کی لاش بھی پڑی ہے جو کل رات کو بارہ بجے تک زندہ تھا جو اس کا مہمان تھا اور جس کی موت حادثہ قتل بھی سمجھی جا سکتی ہے۔ اس نے شانتا کے سوال کے جواب میں کہا "تم نے ٹھیک کہا۔ میں ابھی جاکر ان کو بھی اپنے فیصلے سے مطلع کردیتا ہوں کہ ہم لوگ یہ حویلی خالی کررہے ہیں"۔ ونود اتنا کہہ کر شانتا کے کمرے سے باہر نکلا، حویلی میں چاروں سناٹا پھیلا ہوا تھا۔
ابھی دن کی روشی بھی اچھی طرح نہیں پھیلی تھی۔ ونود چند منٹ تک راہدری میں کھڑا سوچتا رہا کہ پروفیسر تارک ناتھ کی لاش کے سلسلے میں اس کو کیا قدم اٹھانا چاہئے۔ اور پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک حل بجلی کے کوندے کی طرح لپکا۔
اس نے سوچا "کیوں نہ پروفیسر کی لاش کو اسی تہہ خانے میں رکھ دیا جائے جس میں ہڈیوں کا انسانی پنجر پڑا ہے ۔"
ونود نے سوچا اس طرح ایک عرصہ تک کسی کی لاش کے بارے میں کوئی پتہ نہ چل سکے گا ۔ اس اثناء میں لاش سڑ گل جائے گی ، اور پرفیسر کی موت کا راز تہہ خانے کے اندھیرے میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نظروں سے اوجھل ہوجائے گا ۔ ونود کو پوری طرح یہ احساس تھا کہ اگر اس نے پروفیسر کی لاش نہ چھپائی تو لازمی طور پر اسی پر قتل کا شک کیا جائے گا ، کیوں کہ وہ جس سے بھی ان کی موت کا اصل سبب بیان کرے گا وہ اس کو دیوانہ سمجھے گا ۔

پروفیسر کی لاش کو تہہ خانے میں چھپانے کا فیصلہ کرتے ہی جیسے ونود کو اطمینان بھی ہوگیا اور اس کے بدن میں ایک نئی چستی بھی پیدا ہوگئی ۔ وہ بلی کی طرح دبے پاؤں پرفیسر کے کمرے میں داخل ہوا اس نے اس کی لاش کندھے پر اٹھائی اور حویلی کے اندرونی راستے سے حویلی کے پچھلے حصے پہنچ گیا ۔

یہاں پہنچنے کے بعد اس نے یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ کوئی نوکر تو آس پاس موجود نہیں ہے اس نے چاروں طرف دیکھا اور تہہ خانے کی طرف روانہ ہوگیا ۔

تہہ خانے میں بڑا سخت اندھیرا تھا لیکن چوں کہ ونود یہاں کئی مرتبہ آچکا تھا اس لیے اس کو اس کے اندر داخل ہونے میں کوئی خاص دقت نہیں ہوئی ۔ تہہ خانے کے چبوترے پر انسانی پنجر بدستور پڑا ہوا تھا ۔
ایک لمحہ کے لیے ونود کے دل میں ایک خوف سا طاری ہوا لیکن دوسرے ہی لمحے اس نے اس خوف پر قابو پالیا اور پروفیسر کی لاش چبوترے کے قریب فرش پر لٹادی ۔
ونود اس کے بعد فوراً تہہ خانے سے باہر نکل آیا کیوں کہ ابھی اس کو ایک اور کام بھی کرنا تھا ۔ وہ چاہتا تھا کہ پروفیسر کا اٹیچی کیس بھی اسی تہہ خانے میں رکھ دے ۔

پندرہ منٹ کے اندر وہ اس کام سے بھی فارغ ہوگیا ۔
تہہ خانے میں پروفیسر کی لاش اور اس کا سامان رکھنے کے بعد جب وہ واپس آرہا تھا تو غیرارادی طور پر اس کی نظر شاتو کے بت پر پڑ گئی اور جیسے وہ اپنی جگہ لرز کر رہ گیا ۔ اسے ایسا محسوس ہوا جیسے شاتو اس کی طرف بڑی طنزیہ نگاہوں سے دیکھ رہی تھی ۔ دوسرے ہی لمحہ اس نے بُت کی طرف سے نگاہیں پھیرلیں اور تیز تیز قدموں کے ساتھ شانتا کے کمرے میں داخل ہوگیا ۔

شانتا بدستور پلنگ پر لیٹی تھی ۔ اس نے ونود سے پوچھا "کیا پروفیسر تارک ناتھ جانے کے لیے تیار ہوگئے ۔"
"ہاں ۔" ونود نے کہا "تیار بھی ہوگئے اور چلے بھی گئے ۔"
"تم نے ان کو ناشتہ تو کرادیا ہوگا ۔" شانتا نے کہا ۔
"انھیں جانے کی جلدی تھی ۔" ونود نے مختصر سا جواب دیا ۔
اس گفتگو کے بعد دونوں خاموش ہوگئے ۔ ونود کا دل اب بھی بڑی تیزی سے دھڑک رہا تھا ۔ اس کا جسم پسینے میں نہایا ہوا تھا اور اس کے ہونٹ بالکل خشک ہوگئے تھے ۔ شانتا اپنے شوہر کا دکھ چونکہ بڑھانا نہیں چاہتی تھی اس لئے اس نے بھی خاموشی اختیار کرلی ۔ اس نے ونود سے اور کوئی سوال نہیں کیا ۔
اور ۔۔۔ بس ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہی وہ وقت تھا جب میں ونود کی اس آسیب زدہ حویلی میں داخل ہوا ۔ حویلی کے باغیچے میں چونکہ مجھے کالکا مل گیا تھا تھا ، اس لیے مجھے شانتا کے کمرے میں پہنچنے میں کوئی دقت نہیں ہوئی ۔۔۔ ونود اور شانتا کے تصور میں بھی نہ تھا کہ میں اس طرح بالکل اچانک ان کے کمرے میں داخل ہوجاؤں گا ۔

شانتا اور ونود کے پژمردہ چہرے دیکھ کر میری حیرت کی کوئی حد و انتہا نہ رہی ۔ دونوں مجھے دیکھ کر مسکرائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ونود مجھ سے بغل گیر ہونے کے لیے کھڑا ہوگیا ۔ اس کے چہرے پر ایک بالکل انوکھا سکون اُبھر آیا ۔ اس نے مجھ سے کہا "تم بالکل ٹھیک وقت پر آگئے دوست ۔۔۔۔۔۔ ورنہ ہم لوگ ایک گھنٹہ کے اندر یہ حویلی خالی کرنے والے تھے ۔"
"تم بلاتے اور میں نہ آتا یہ کیسے ممکن تھا ونود ۔۔۔" میں نے اتنا کہہ کر شانتا کی طرف دیکھا ۔۔۔ وہ واقعی برسوں کی بیمار نظر آرہی تھی ۔۔۔۔

میں پہلے ہی اس کا اعتراف کرچکا ہوں کہ کبھی شانتا میری محبوبہ تھی ، کبھی شانتا میری دنیا تھی ، کبھی شانتا میری تمناؤں کا آخری مرکز تھی ۔ یہ ہم دونوں کی بدقسمتی تھی کہ شانتا کی شادی میرے بجائے ونود سے ہوگئی ۔ اس ونود سے جو میرا دوست تھا ، ونود اور شانتا کی شادی پر میں خاموش تماشائی بنا رہا تھا ۔ ونود کے ہاتھوں میری دل کی دنیا لُٹ چکی تھی ۔ اور میں نے اپنے دوست سے اس کا تذکرہ کبھی نہیں کیا تھا ۔ اپنی شادی کے بعد شانتا نے بھی خود کو اپنے شوہر کے وجود میں ضم کردیا تھا ۔ اور میں اس کے لیے بالکل اجنبی ہوگیا تھا ۔ اور یا اس کے شوہر کا دوست ۔ لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ میں نے شانتا کی تصویر اپنے دل سے بالکل مٹا دی تھی ۔ شانتا مجھے اب بھی یاد تھی ، اس کا شبنم سے دھلا چہرہ ، اس کی جھیل جیسی آنکھیں ، اس کے پھول جیسے رخسار ، اس کے سرخ لب ، اس کا خوبصورت جسم مجھے اب بھی یاد آیا کرتا تھا ۔۔۔ حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ میں اس یاد کو کبھی ایک گناہ سمجھتا تھا ۔۔۔۔
آج بھی جب شانتا نے اپنی کمھلائی ہوئی آنکھوں سے مجھے دیکھا تو میرا دل اندر ہی اندر تڑپ کر رہ گیا ۔۔۔۔۔ میں بیان بھی نہیں کرسکتا تھا کہ شانتا کو اس حالت میں دیکھ کر مجھے کتنا دکھ ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔

بہرحال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے ونود سے بہت سے سوالات کئے اور ونود نے مجھے سب کچھ بتا دیا ۔ لیکن اس نے جس طرح تارک ناتھ کا انجام شانتا سے چھپایا تھا اسی طرح اس نے مجھے بھی تاریکی میں رکھا ، وہ مجھے بھی جھوٹ بول گیا ۔۔۔۔۔۔

شاتو کے بت کی داستاں سننے کے بعد میں نے ونود سے کہا "اب تمہیں حویلی سے جانے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔۔۔"
"لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔" ونود نے کہا "مجھے پورا یقین ہے کہ اب شاتو مجھے سے اپنی بے عزتی کا بدلہ یا اپنی ناکامی کا انتقام ضرور لے گی ۔۔۔"
جواب میں میں نے کہا "روح کسی کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ونود ۔ تم کہتے ہو کہ بُت روزآنہ رات کو بارہ بجے زندہ ہوجاتا ہے ، آج میں بھی اس کو زندہ دیکھنا چاہتا ہوں ۔ میں شاتو سے باتیں بھی کروں گا ۔ اور اس سے یہ بھی دریافت کروں گا کہ آخر اس کا مقصد کیا ہے ۔"
ونود نے اس کے بعد خاموشی اختیار کرلی ۔ ویسے میں اس کا چہرہ دیکھ کر یہی اندازہ لگا رہا تھا کہ وہ حویلی سے جانے کے لیے بہت بے چین ہے ۔

ونود اور شانتا سے گفتگو کے بعد میں باہر نکلا ۔۔۔۔ راہداری سے گزرنے کے بعد میری نگاہ بھی شاتو کے بت پر پڑی ۔ بُت واقعی بڑا خوبصورت تھا ۔ میں دیر تک اس بت کو دیکھتا رہا اور پھر جیسے چونک گیا ۔ کیوں کہ حویلی میں پولیس کی موٹر داخل ہورہی تھی ۔
موٹر میں ایک پولیس انسپکٹر تھا اور آٹھ سپاہی ۔ ۔۔۔۔۔ میں پولیس کی اس بھاری جمیعت کو دیکھ کر حیران رہ گیا ۔
انسپکٹر نے موٹر سے اتر کر سب سے پہلے مجھ سے ہی بات کی ۔ اس نے پوچھا "میں مسٹر ونود سے ملنا چاہتا ہوں ، کیا آپ کا نام ہی ونود ہے ؟"
"جی نہیں ۔" میں نے کہا "مسٹر ونود اندر حویلی میں موجود ہیں ۔ میں ان کا دوست ہوں اور ابھی ابھی آیا ہوں ۔ لیکن آپ کو ونود سے کیا کام ہے ؟"
"آپ مجھے ان کے پاس لے چلیے ۔" انسپکٹر نے بڑے تحکمانہ لہجے میں کہا ۔ چنانچہ میرے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ کار نہیں رہ گیا کہ میں اس کو ونود کے کمرے تک پہنچا دوں ۔

پولیس انسپکٹر کو دیکھتے ہی ونود کے چہرے کا رنگ اڑ گیا ۔۔۔۔ اور انسپکٹر نے اس کے قریب آکر کہا " میں آپ کو پروفیسر تارک ناتھ کے قتل کے الزام میں گرفتار کر رہا ہوں مسٹر ونود ۔"
ونود چیخ پڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے کہا "لیکن میں نے ان کا قتل نہیں کیا ہے ۔۔۔۔ "
"مجھے سب معلوم ہے ۔۔۔۔ اور آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ میں تہہ خانے سے ان کی لاش برآمد کرنے بھی جا رہا ہوں ۔"
میری حیرت کی بھی کوئی انتہا نہ رہی میں نے پوچھا "آپ کو یہ سب اطلاعات کس نے دی ہیں ۔۔۔۔"
" ایک عورت نے ۔ " انسپکٹر پولیس نے کہا "اس نے مجھے اطلاع دی ہے کہ ونود نے پروفیسر تارک ناتھ کا قتل کر کے ان کی لاش تہہ خانے میں چھپادی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ "
" کیا اس عورت نے اپنا نام بتایا ہے ؟ " میں نے پوچھا ۔
"جی ہاں ۔۔۔۔ " انسپکٹر نے کہا " اس کا نام شاتو ہے اور وہ اسی حویلی میں رہتی ہے ۔"
شاتو کا نام سنتے ہی ونود چیخنے لگا ۔

اس کے بعد کیا ہوا ؟
ونود پر کیا گزری ؟
شاتو نے کیسے انتقام لیا ؟
میں نے کیا قدم اٹھایا ؟
یہ سب جاننے کے لیے اگلی قسط ملاحظہ کیجیے ۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:14

1 تبصرہ:

  1. ہا ہا ہا ۔۔

    جناب مکرم صاحب ۔۔ اب یہ لفظ زہر لگنے لگا ہے ۔۔۔اگلی قسط۔۔۔

    جواب دیںحذف کریں