سول سروسز 2012 میں کامیاب 825 رینک کے حامل حماد ظفر سے گفتگو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-05

سول سروسز 2012 میں کامیاب 825 رینک کے حامل حماد ظفر سے گفتگو

سول سروسز امتخان میں کسی مدرسہ سے فارغ شخص کا کامیاب ہونا بڑی بات ہے مگر یہ کامیابی اگر اردو زبان میں امتخان دے کر حاصل کی جائے تو اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔ یہ کارنامہ انجام دیا ہے اتر پردیش کے صنعتی شہر مئو سے تعلق رکھنے والے حماد ظفر نے جو جامعہ سلفیہ مرکزی دارالعلوم بنارس کے طالب علم رہ چکے ہیں۔ مدرسہ سے فراغت کے بعد جامعہ ملیہ اسلامیہ اور پھر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے والے حماد کا کہنا ہے کہ مدارس کے فارغین نہ صرف سول سروسز بلکہ ملک کے ہر اہم مقابلہ جاتی امتحان میں کامیابی کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ مدارس کو ملک کا اثاثہ بتاتے ہوئے حماد نے نمائندہ راشٹریہ سہارا سے خصوصی گفتگو میں کہا کہ ان امتحانات میں مسلمانوں کی عدم نمائندگی کی دو اہم وجوہات ہیں :اول ہم تعلیمی اعتبار سے پیچھے ہیں ، دوئم ہم اتنی کوشش بھی نہیں کرتے جتنی ہمیں کرنی چاہیے۔

آپ کو سول سروسز کے امتحان میں کامیابی پر سب سے پہلے سہارا اردو میڈیا کی تمام اشاعتوں کی جانب سے مبارکباد ! آپ سب سے پہلے اپنے تعلیمی سفر کے تعلق سے ہمیں بتائیں؟
چونکہ میں اتر پردیش کے صنعتی شہر مئو سے تعلق رکھتا ہوں اس لیے میری ابتدائی تعلیم وہیں مکتب میں ہوئی، پھر مدرسہ عالیہ عربیہ مئو سے ابتدائی عربی، منشی ، مولوی اور عالمیت کے درجات میں دینی وعصری علوم حاصل کیے اور پھر 2001میں جامعہ سلفیہ بنارس سے فضیلت کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے بعد 2003میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی اے میں داخلہ لیا اور پھر جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں داخل ہوا جہاں سے میں نے اردو میں ایم اے کیا اور ایم فل کیا، یو جی سی جے آر ایف بھی حاصل ہے اور اس وقت جے این یو سے ہی پی ایچ ڈی کررہاہوں۔
میں نے سول سروسز کی تیاری کے لیے سب سے پہلے ’’زکوٰۃفاؤنڈیشن‘‘کے کوچنگ سینٹر میں داخلہ لیا تھا، فاؤنڈیشن کے سربراہ ظفر محمود کی کوششوں کو میں سراہتا ہوں ، فی الحال میں نے ’’کریسنٹ‘‘ کوچنگ سینٹر سے استفادہ کیا ہے۔

آپ اس ملک کے اعلیٰ انتظامی سسٹم کا حصہ ہونے جارہے ہیں ، آپ ہندوستان کے موجودہ سسٹم کو کس طرح دیکھتے ہیں؟
دیکھئے ہندوستان کا انتظامی ڈھانچہ اور اصول کار نہایت مضبوط بنیادوں پر ہیں ، اس ملک کے سسٹم میں اچھے لوگ بھی ہیں اور برے لوگ بھی ہیں، لیکن اچھے لوگوں کی تعداد زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک تیز رفتار ترقی کرنے والے ممالک میں سر فہرست ہے۔ سسٹم میں جو خامیاں ہیں اسے اچھے لوگ بہتر کرسکتے ہیں، خامیوں کو دور کرنے کی ذمہ داری صرف سول سروسز سے وابستہ افسران کی نہیں ہوتی بلکہ اس کے لیے سماج کا بھی اہم رول ہوتاہے۔

ہندوستان میں بدعنوانی ہر سطح پر ہے، اس کے خاتمہ کے لیے آپ کے ذہن میں کیا منصوبہ ہے؟
سول سروسز میں جانے کے لیے اولین بات جو ہمیں بتائی گئی ہے وہ ہے ملک میں امن ویکجہتی کے ساتھ ساتھ انصاف کی بالادستی اور بدعنوانی کا خاتمہ۔ بلاشبہ بدعنوانی ہے لیکن اس پر قابو پانے کے لیے ہمارے یہاں مختلف سطح پر قانون اور ضابطے بھی ہیں ، بدعنوانی کے خاتمے کے لیے بے شمار افراد پوری ایمانداری کے ساتھ کام بھی کررہے ہیں اس لیے مجھے امید ہے کہ بدعنوانی کا خاتمہ ہوگا۔

سول سروسز میں مسلمانوں کی قلیل نمائندگی پر ملک کے سربرآوردہ لوگ متفکر ہیں ، آپ اس کو کس طرح دیکھتے ہیں، کیا مسلم نمائندگی کو بہتر کرنے کے لیے کوئی مشورہ دینا چاہیںگے؟
بلاشبہ مسلمانوں کی نمائندگی نہ صرف سول سروسز میں بلکہ دوسرے شعبوں میں بھی کم ہے لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ یہاں تک پہنچنے کی کوشش کتنے مسلم نوجوان کررہے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ مسلمان اس میدان میں کوشش بھی کم کررہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ تعلیم کے میدان میں مسلمان پیچھے ہیں ، اگر نیچے کی سطح پر تعلیمی میدان میں مسلمان مضبوط ہوںگے تو سول سروسز میں بھی مسلمانوں کی نمائندگی بڑھے گی ، اس کے لیے مختلف سطح پر لوگوں کو آگے آنا ہوگا۔

میرے لیے یہ خوشی کی بات ہے کہ اس سے قبل دارالعلوم دیوبند کے فاضل ڈاکٹر وسیم الرحمن جب سول سروسز کے لیے منتخب کیے گئے تھے تو میں نے ہی ان کا پہلا انٹرویو کیا تھا اور آپ کی شکل میں ایک دوسرے فاضل مدرسہ سے روبرو ہوں، آپ بتائیں کہ مدارس کے فضلا کس طرح تیاری کریں کہ انہیں سول سروسز میں کامیابی نصیب ہو، اس سلسلے میں آپ مدارس کے لوگوں کو آپ کوئی مشورہ دینا چاہیںگے؟
یہ میرے لیے بہت دلچسپ سوال ہے ، دیکھئے ہندوستان میں مدارس کئی طرح کے ہیں، نصاب تعلیم میں بھی کئی تضادات ہیں تاہم میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے مدارس ایسے ہیں جہاں بنیادی سطح پر وہی تعلیم دی جاتی ہے جو کسی اسکول میں دی جاتی ہے، چنانچہ میں نے یہ بھی محسوس کیا ہے کہ مدارس میں غیر معمولی صلاحیتیں موجود ہیں، کچھ کر گذرنے کا جذبہ ان کے اندر موجزن ہے اس لیے وہ نہ صرف سول سروسز بلکہ دیگر مقابلہ جاتی امتحانات میں بھی کامیاب ہونے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں لیکن میں نے اپنوں سے بھی سنا ہے اور غیروں کو بھی تبصرہ کرتے ہوئے دیکھا ہے جن کے مطابق مدارس اس ملک پر بوجھ ہیں ، جب کہ وہ اس ملک کا اثاثہ ہیں جو اس ملک کی تصویر بدل سکتے ہیں۔

کیا مدارس کے نصاب میں ایسی تبدیلی کے آپ خواہاں ہیں جس کی ذریعے مدارس کے طلبہ سول سروسز تک کا سفر طے کرسکیں؟
دیکھئے مدارس کے نصاب میں زیادہ تبدیلی نہیں کی جاسکتی، کیونکہ پھر مدارس کامقصد فوت ہوجائے گا البتہ میں اتنا ضرور چاہتاہوں کہ مدارس کے ابتدائی درجات میں عصری علوم کو شامل کیا جائے، اگر ایسا کیا گیا تو اس کے مفید نتائج برآمد ہوںگے۔

مدارس کے فضلا کا یونیورسیٹوں تک کے سفر کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
مدارس کے فضلا کا یونیورسٹیوںمیں آکر بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں، میں تو یہ چاہتاہوں کہ ہندوستان کی تمام یونیورسٹیاں ایک پینل بنائیں جس کی ذمہ داری ہو کہ وہ ہندوستان کے مدارس کو اصلی حالت میں رکھتے ہوئے اس کے نصاب کو منظوری دیں تاکہ وہاں سے آکر طلبا یونیورسٹی میں داخل ہوسکیں، اے ایم یو ، جامعہ ملیہ ہمدرد، مولانا آزاد نیشنل یونیورسٹی اور خود جواہر لال نہرو یونیورسٹی نے بہت سے مدارس کے نصاب کو منظوری دے رکھی ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ ہندوستان کی تمام یونیورسٹیاں اس روش کا اپنائیں اور زیادہ سے زیادہ مدارس کو منظوری دی جائے۔

An interview with Hammad Zafar, an IAS-2012 qualified with the all-India rank of 825.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں