خالد مجاہد کی موت پر مسلم قائدین کی بےحسی - رہائی منچ قائدین کا استفسار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-26

خالد مجاہد کی موت پر مسلم قائدین کی بےحسی - رہائی منچ قائدین کا استفسار

پولیس تحویل میں خالد مجاہد کے پراسرار قتل کے خلاف اترپردیش اسمبلی کے سامنے رہائی منچ کی جانب سے احتجاج کا آج تیسرا دن ہے۔ رہائی منچ کے عہدیداروں اور کارکن اس بات کا مطالبہ کررہے ہیں کہ جھوٹے الزامات پر گرفتار کئے گئے اور جیلوں میں بند مسلم نوجوانوں کو فوری رہا کیا جائے اور نمیش کمیشن کی رپورٹ فوری منظر عام پر لائی جائے۔ تمام اترپردیش میں کل جمعہ کے دن یوم سیاہ منایا گیا۔ اس موقع پر مختلف شہروں میں احتجاج کیاگیا۔ خالد مجاہد کی یاد میں مظاہرین نے جلوس نکالے اور دھرنا دیا۔ اس موقع پر رہائی منچ کے ترجمان اور نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے سکریٹری چودھری چندر پال سنگھ نے جو احتجاج شامل تھے الزام عائد کیا کہ اترپردیش میں 27فرقہ وارانہ فساد کے بعد اب پولیس تحویل میں خالد مجاہد کی موت یوپی اے حکومت کی تابو ت میں آخری کیل ثابت ہوگا۔ سماج وادی پارٹی حکومت کی تائید کرنے والے مسلم علماء کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ سابق رکن پارلیمنٹ اور کمیونسٹ پارٹی کی لیڈر سبھاشنی علی بھی اس موقع پر موجود تھیں۔ رہائی منچ کا کہنا ہے کہ خالد مجاہد کی موت پر مسلم قیادت میں مجرمانہ خاموشی پر مسلمانان ہند سکتہ میں آگئے ہیں۔ ان میں یہ تاثر پایا جارہا ہے کہ ایک طرف پاکستان میں سزا یافتہ قیدی سربجیت سنگھ کی جیل میں موت پر برادران وطن پڑوسی ملک کے خلاف جنگ پر اتر آئے تھے اور دوسری طرف بے حسی کی انتہا یہ ہے کہ پولیس تحویل میں خالد مجاہد کی پراسرار موت پر ہندوستان کی مسلم قیادت بے ضمیری کا مظاہرہ کررہی ہے کہ اس کی مثال نہیں ملتی۔ خالد مجاہد سزا یافتہ مجرم نہیں تھے۔ ان کے خلاف جرم بھی ثابت نہیں ہوا تھا۔ نمیش کمیشن کی رپورٹ میں انہیں گرفتار کرنے والے تمام پولیس عہدیداروں کو ہی قصور وار ٹھہرایا گیا ہے۔ افسوس صدافسوس یہ ہے کہ سماج وادی پارٹی کے کسی بھی رکن قانون ساز کونسل اور رکن پارلیمنٹ نے اس واقعہ پر ایک لفظ کا بھی اظہار نہیں کیا، مذمت تو دور کی بات ہے۔ مسلمانوں کے مسیحا سمجھے جانے والے اعظم خان بالکل خاموش ہیں۔ کسی نے بھی مجاہد کے افراد خاندان سے اظہار تعزیت نہیں کیا۔ اگرچہ کہ بعض مسلم تنظیموں کی جانب سے احتجاج کیا گیا، مذمتی بیانات جاری کئے گئے مثلاً جمعےۃ العلماء، ملی کونسل، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، جماعت اسلامی ہند، علماء کونسل، انڈین نیشنل لیگ اور ویلفیر پارٹی آف انڈیا کی جانب سے بیانات جاری کئے گئے۔ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ کیاگیا، لیکن احتجاج اس نوعیت کا نہیں تھا جیسا کہ ہونا چاہئے تھا۔ لکھنؤ میں بین الاقوامی شہرت یافتہ علماء اور لیڈروں کی بہتات ہے۔ سربجیت سنگھ کی موت پر مذمتی بیانات جاری کرنے والے مسلمان لیڈر اس مسئلہ پر بالکل سکوت اختیار کئے ہوئے ہیں۔ ظلم کے خلاف اور انصاف کے حق میں اب آواز اٹھانا بھی گویا ہندوستانی قائدین جرم سمجھ رہے ہیں۔ اگر یہ صورتحال ہے تو پھر اندیشہ ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں پر مزید ظلم بڑھتا ہی جائے گا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ٹیچرس اسوسی ایشن ایک واحد تنظیم ہے، جس نے خالد مجاہد کی موت کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اُسے اترپردیش کی تاریخ میں ایک سیاہ بابا قرار دیاتھا۔ ملی گزٹ کے مطابق رام پور، لکھنؤ، میرٹھ، علی گڑھ، سہارنپور، غازی آباد، بریلی، سیتا پور، کانپور، الہ آباد کے سیاسی مسلم لیڈروں نے مذمت کا ایک لفظ بھی اپنے منہ سے نہیں نکالا۔ جب کہ ان شہروں میں بے شمار مسلم سیاسی خاندان رہائش پذیر ہیں۔ مسلمانوں کے ووٹ سے اسمبلی اور پارلیمنٹ تک پہنچنے والے رہنماؤں کی یہ خاموشی بڑی کربناک ثابت ہورہی ہے۔ دلچسپ اور قابل تحسین بات یہ ہے کہ غیر مسلم سیکولر ہندو رہنما بھی اس مسئلہ پر آواز اٹھارہے ہیں۔ میگاسیسے انعام یافتہ سندیپ پانڈے نے اس واقعہ کی سخت مذمت کی تھی۔ ان کے علاوہ ایس آر داراپوری، ایڈوکیٹ رنجیر سمن نے بھی خالد مجاہد کے وکیل محمد شعیب ایڈوکیٹ پر حملہ کی شدید مذمت کی تھی۔

Rihai Manch poses questions to Muslim MLAs & ministers

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں