سازش اعظم - مسلمانان ہند اور تحفظات - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-14

سازش اعظم - مسلمانان ہند اور تحفظات

ملک کا بٹوارہ مسلمانوں کے خلاف سازش تو تھا ہی لیکن بعد آزادی تو یہ قوم روز بروز نئی سازشوں کا شکار ہوتی چلی آرہی ہے۔
گزشتہ دس برسوں سے امریکہ اور اسرائیل کے فارمولے پر یہاں بھی دہشت گردی کے نام پر مسلمانوں کو بدنام کرنے اور بقیہ ہندوستانی سماج کی نگاہ میں اچھوت بنادینے کی نئی سازش شروع کی گئی ہے۔آزادی کے بعد سے 80کی دہائی تک دنگے فساد کی آڑ میں جو سازش رچی جاتی رہی اس کی پول جب سماج وادی تحریک اور سماجی انصاف کی لہرنے کھولی تب جاکر اس پر بریک لگا ورنہ مسلمانوں کے ساتھ یہاں گاجر مولی کی طرح کا سلوک اب تک اسے نہ جانے ملک کے کس کونے میں ڈھکیل دیا ہوتا۔
اقلیتی اداروں کی اقلیتی کردارکامعاملہ ہو یا شاہ بانو کیس کا مسئلہ،دفعہ 370کا ایشو ہو یا اجودھیا تنازع کا،ان سبھی موضوعات کی آڑ میں مسلم سماج کو یہاں کے حکمرانوں نے کافی گہرے زخم دئے ہیں جو ان سازشوں کا حصہ رہا۔کیونکہ ان ساری سازشوں سے پیداشدہ ذہنی بددھیانیوں کا مسلم سماج پر کیا اثر ہوا،اس کا آئینہ بنی جسٹس سچرکمیٹی کی رپورٹ جس نے اپنے اعداد وشمارسے ثابت کر دیا کہ ملک میں مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بدتر ہے۔
غور کیجئے کہ ہمارا موازنہ دلتوں سے کیا گیا،پچھڑوں یا ہندوستانیوں سے نہیں۔حالانکہ سارے مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بدتر نہیں ہے۔10-15فیصد مسلم آبادی کی حالت عام ہندوستانیوں کے مساوی ہے۔لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتاہے کہ ہماری بیشترآبادی ،اور وہ بھی خاص کر جو پیشہ ورآبادیاں ہیں ان کی حالت حد سے بھی زیادہ خراب ہے۔بہرحال آپ سچرکمیٹی کی رپورٹ کو جس زاوئے سے دیکھئے لیکن اس نے ہماری آنکھیں ضرورکھول دی ہیں۔

اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آزادی کے پہلے کے دورمیں کیا مسلمانوں کی حالت آج کی بہ نسبت بہتر ہوا کرتی تھی۔یا پھر مسلم سماج کی جن پیشہ ورآبادیوں کی حالت آج خراب ہے۔کیا ان کی حالت پہلے بھی ایسی ہی تھی۔یا جن کی حالت آج اچھی ہے۔ان کی حالت بھی پہلے اچھی ہوا کرتی تھی؟تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں کی پیشہ ورآبادیوں کی حالت آزادی کے پہلے کے دور چاہے وہ مسلمانوں کا ہو یاانگریزی ،میں جیسی تھی ویسی ہی آزادی سے پہلے اور آزادی کے بھی رہی ۔لیکن آج انہیں آبادیوں کی حالت دلتوں سے بھی خراب ہے۔اور اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ 1950 میں ریزرویشن کی سبھی مراعات ہی ان سے چھین لی گئی ۔واضح ہو کہ کامنل ایوارڈ کے تحت اقتدار میں حصہ داری مسلمانوں کو بھی ملی تھی۔جو ملک کے بٹوارے کے ساتھ ختم ہو گئی۔لیکن دلت سماج کو پونا پیکٹ کے تحت 1936میں Depressed Classمان کر جو ریزرویشن انگریزی حکومت نے دیا تھا وہ بعد آزادی بھی قائم رہا۔اور دفعہ341کے تحت آئین میں بھی محفوظ کردیا گیا۔
آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ مسلمانوں کی بیشتر پیشہ ورآبادی بھی1936کے مجوزہ ڈپر کلاس ریزرویشن میں مراعات پانے کی حق دارتھی۔کیونکہ اس ریزرویشن پر کسی طرح کی کوئی مذہب کی پابندی نہیں تھی۔لیکن26جنوری1950 سے نافذ شدہ آئین میں جب یہی ریزرویشن دفعہ 341کے تحت آیا تو سرکاری حکم نامہ کے کے ذریعہ 10؍اگست1950 کو اس پر مذہب کی قید لگا دی گئی اور اس کا نام شیڈول کاسٹ ریزرویشن کر دیا گیا۔تاکہ مسلمان اس کی طرف دیکھیں بھی نہیں ۔حالانکہ اس مذہب کی قید کی کوشش میں مسلمانوں کے ساتھ سکھ،بودھ،اور عیسائی بھی اس وقت کے واحد ریزرویشن سے خارج کر دئے گئے تھے۔لیکن دراصل نشانے پر تو مسلم سماج ہی تھا۔جو بڑی آبادی کی وجہ سے زیادہ خسارے میں چلا گیا۔
پھر1959 میں ایک دوسرے آرڈر کے ذریعہ 1950 سے خارج شدہ اقلیتی سماج دوبارہ ریزرویشن حاصل کرنے کے لئے تبدیلی مذہب کی شرط نافذ کر دی گئی جو آج بھی قائم ہے۔قومی پیمانے پر ملنے والا ملک کا یہ واحد ریزرویشن تھا (بیک ورڈ کلاس کے لئے قومی سطح کا ریزرویشن تو1990 میں منڈل کمیشن کے ذریعہ نافذ ہوا)جس سے مسلم قوم کو خارج کر دیا گیا۔اوراس پر مذہب کی شرط لگا دی گئی۔

اب غور سے سنئے کہ جس طرح سیکولرازم ،مساوات اور سماجی انصاف کو طاق پر رکھ کر دفعہ 341پر دونوں شرائط لگائے گئے ہیں اس کا مقصد کیا تھا۔
یہ معاملہ"سازش اعظم"ہے۔
کیونکہ غور کرنے پر آپ کوخود مسلمانوں کی دین ودنیا دونوں کا مستقبل سیاہ نظرآتاہے۔سچرکمیٹی کے حساب سے مسلمانوں کی حالت آج کیا ہے۔دفعہ341سے مذہب کی قید ہٹا کر مسلمانوں کو دوبارہ اس زمرے میں شامل نہیں کیا جاتا ہے۔تو پھر40-50سالوں بعد مسلمانوں کی بیشتر آبادی کے ساتھ کیا ہو گا یہ تو اسکولوں میں "سوری نمسکار"کو جبراًشامل کئے جانے کی پالیسی سے ہی ظاہر ہوتا ہے۔سوریہ نمسکار تو جبر کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے۔آگے نہ جانے کون سی غیر شرعی تجویزیں ہمارے اوپر جبراًتھوپی جائیں اوراُن کی اِن تجویزوں کی جو مخالفت کرے گا۔اسے دہشت گردی یا دیگر الزاموں میں اذیت دینے کی حکمت عملی مضبوطی سے ان پر عمل کیا جائے گا۔جیسے بم دھماکے کی آڑ میں گزشتہ 10-12برسوں سے ہو رہاہے۔اس طرح دفعہ 341سے محروم کر کے جہاں اس سماج کو دلتوں سے پیچھے کر دیا گیا۔وہیں دہشت گردی کی آڑ میں بے قصور مسلم دانشور طبقات کو جیل میں اذیت دئے جانے کا مقصد بھی یہی ہےکہ سماج وسرکار پر نگاہ رکھنے والی ترقی یافتہ مسلم آبادی کی ہمت توڑ دی جائے۔اور وہ اپنی زبان پر تالہ لگا کر رکھے۔تاکہ سازش اعظم میں کامیاب ہونے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔

اس صورت حال میں فرقہ پرست طاقتوں کی ذہنیت کے اس زورسے بچنے کے لئے ہمیں حکمت عملی تلاش کرنی ہوتی ہے خاص کر ایسی جو اس سازش اعظم کے خلاف ہو۔مسلمانوں کا ایک طبقہ کل مسلم ریزرویشن کی بات کرتا ہے۔ آئین وعدلیہ کے حساب سے یہ ناممکن ہے۔مسلمانوں نے محسوس کیاہو گا کہ جب بیک ورڈ کلاس کے 27فیصد 4ء5کوٹہ در کوٹہ ۔ایسی صورت حال میں مسلمانوں کے پاس صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ دفعہ 341سے مذہب کی قید ہٹانے کی صرف ایک لڑائی لڑیں ۔ہوشیاری تو اسی میں ہے کہ دس طرح کی بات کرنے کے بجائے ہم متحدہ طور پر اسی ایک مانگ پر اڑیں تاکہ مسلمانوں کی بڑی آبادی کو اس "سازش اعظم"کے گھیرے سے باہر نکالا جا سکے۔آخر کچھ وجہ تو ہے تبھی تو سیکولرازم وسماجی انصاف کی دھجیاں اڑاتے ہوئے 1950میں دفعہ 341پر جبراًمذہب کی قید لگا دی گئی ۔دوبار ترمیم کرکے اس میں سکھ و بودھوں کو یکے بعد دیگرے شامل بھی کیا گیا لیکن مسلمانوں کو شامل کرنے میں مرکزی حکومت کے پسینہ چھوٹنے لگتے ہیں۔یہاں تک کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ اس سلسلے میں پوچھے گئے سوالات کا بھی جواب دینے میں یہ دوڈھائی سالوں سے ٹال مٹول کرتی چلی آرہی ہے۔
وجہ ظاہر ہے کہ اس مسئلہ کا حل ہونے کا مطلب ہی ہے کہ فرقہ پرست ذہنیت کی سازش اعظم آدھے راستے میں دم توڑ دے گی۔پارلیمنٹ تو اب اس کا حل نہیں نکال سکتی ہے لیکن سپریم کورٹ سے ایک امید ضرروہے۔موقع اچھا ہے لوک سبھا انتخابات سرپرہے۔دفعہ 341میں ترمیم کرکے مذہب کی قید ہٹانے کے مسئلہ پر مسلمانوں کا متحدہ دباؤ ایسی صورت حال پیدا کر سکتا ہے کہ معاملہ حل ہو جائے ۔
یادرکھئے دلت سماج آج فرقہ پرست ذہنیت کی سازشوں کے چنگل سے صرف اس وجہ سے آزاد ہے کیونکہ ڈاکٹر امبیڈکر نے دفعہ341کے ذریعہ ہی سہولیات دے کر اتنا مضبوط بنا دیا کہ اسے ٹیڑھی نظر سے دیکھنا بھی مخالف طاقتوں کو مہنگا پڑ سکتا ہے۔ہم کیوں نہیں مسلمانوں کی بیشتر آبادی کو تحفظ کے اس گھیرے میں داخل کروادیں تاکہ آنے والے وقت میں یہ پوری مسلم کے لئے سود مند ثابت ہو۔

***
موبائل : 9868181686
ڈاکٹر ایم اعجاز علی۔ سابق ایم پی۔ لکشمی نگر ، نئی دہلی۔
ڈاکٹر ایم اعجاز علی

Prime conspiracy against Indian Muslims - Article: Dr. M. Aijaz Ali (Ex. MP), Delhi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں