Mohammad Ali Jauhar University granted minority status
قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات نے آج ایک انتہائی اہم فیصلہ سناتے ہوئے اترپردیش کے رام پور میں واقع محمد علی جوہر یونیورسٹی کے اقلیتی درجہ کو منظوری دے دی۔ یہ فیصلہ آج کمیشن کے چےئرمین جسٹس محمد سہیل اعجاز صدیقی کی قیادت والی بنچ نے سنایا۔ بنچ میں ڈاکٹر مہندر سنگھ، ڈاکٹر سیرک تھامس اور ظفر آغا موجود تھے۔ واضح ہوکہ تقریباً ایک سال قبل محمد علی جوہر ٹرسٹ نے محمد علی جوہر یونیورسٹی کا اقلیتی اسٹیٹس منظور کرنے کی درخواست دی تھی۔ کمیشن نے ٹرسٹ کے ایک کا مطالعہ کرنے اور تمام ثبوتوں پر نظر ثانی کے بعد یہ فیصلہ سنایا۔ کمیشن کی عدالت میں فیصلہ سنائے جانے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے بتایا کہ جوہر یونیورسٹی کو محمد علی جوہر ٹرسٹ نے اسپانسر کیا ہے۔ اس ٹرسٹ کے تمام ممبران مسلمان ہیں۔ اس ٹرسٹ کے اغراض و مقاصد میں لکھا ہے کہ اسے مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ ٹرسٹ کے سیکشن 6 میں مسلمانوں کی فلاح، سیکشن 8 میں اس یونیورسٹی میں مسلمانوں کیلئے 50فیصد ریزرویشن کا ذکرہے۔ اس سے بھی صاف ہے کہ یہ ایک مسلم تعلیمی ادارہ ہے جو مسلمانوں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اترپردیش حکومت بھی اس بات کی وضاحت کرچکی ہے کہ یہ ایک اقلیتی یونیورسٹی ہے جو مسلمانوں کی طرف سے قائم کی گئی ہے۔ جسٹس صدیقی نے کہاکہ اس کے بعد کسی شک کی گنجائش نہیں بچتی۔ جسٹس سہیل اعجاز صدیقی نے بتایاکہ کمیشن نے تمام دستاویزات اور ایکٹ کا مطالعہ کرنے کے بعد اترپردیش کے گورنر کو نوٹس بھیج کر اس تعلق سے موقف واضح کرنے کو کہا۔ جواب میں کہا گیا ہے کہ اگر کمیشن جوہر یونیورسٹی کو اقلیتی درجہ دیتا ہے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے بتایاکہ اترپردیش حکومت نے 2007ء میں اسمبلی میں ایک ترمیمی بل منظور کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ محمد علی جوہر یونیورسٹی ایک اقلیتی تعلیمی ادارہ ہے۔ اسمبلی سے پاس ہونے کے بعد منظوری کیلئے اسے گورنر کے پاس بھیجا گیا تھا جہاں سے اسے آج تک منظوری نہیں دی گئی۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اترپردیش حکومت کواقلیتی درجہ دینے کا اختیار نہیں ہے۔ انہوں نے الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ عدالت نے کہا ہے کہ یہ اختیار صرف کورٹ کو حاصل ہے اور چونکہ قومی کمیشن برائے اقلیتی تعلیمی ادارہ جات ایک کورٹ ہے، اس لئے اسے یہ فیصلہ دینے کا حق ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا کہ کمیشن کے فیصلے کو ہائی کورٹ یا سپریم کورٹ میں چیلنج کیاجاسکتا ہے۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہاکہ اس کمیشن کا قیام ہونے کے بعد سے اب تک ملک بھر میں 10ہزار سے زائد تعلیمی اداروں کو اقلیتی اسٹیٹس دیاجاچکا ہے حالانکہ ان میں سب سے زیادہ ادارے عیسائی فرقے کے ہیں۔ انہوں نے بتایاکہ جہاں تک یونیورسٹیوں کی بات ہے تو جامعہ اسلامیہ کے علاوہ چینئر کی بی ایس عبدالرحمن یونیورسٹی اور بنگلور کی یوپے انا یونیورسٹی کو بھی کمیشن نے اقلیتی درجہ منظور کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ دراصل مسلمانوں میں بیداری کی کمی کی وجہہ سے مسلم تعلیمی ادارہ چلانے والے بھی اقلیتی درجہ لینے نہیں آتے تھے۔ اب ان میں بیداری پیدا ہوئی ہے اور وہ کمیشن سے رابطہ قائم کررہے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس سے قبل لوگوں اقلیتی اسٹیٹس حاصل کرنے کیلئے سرکاری دفتروں کے چکر لگانے پڑے تھے اور بھیک سی مانگنی پڑتی تھی لیکن اب یہ کمیشن مدارس سے لے کر یونیورسٹیوں تک کو آسانی سے اقلیتی اسٹیٹس دے رہا ہے۔ ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے جسٹس صدیقی نے کہاکہ یہ فیصلہ آج سے ہی نافذ العمل مانا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ اگر کوئی ادارہ اقلیتوں نے قائم کیا ہے تو اسے منظوری کبھی بھی ملے، اسے قیام کے پہلے دن سے ہی اقلیتی ادارہ تسلیم کیا جائے گا۔ ایک اور سوال کے جواب میں جسٹس صدیقی نے کہاکہ یہ کمیشن ایک غیر سیاسی ادارہ ہے۔ اس کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں۔ کمیشن صرف قانون کو مقدم مانتاہے۔ اس فیصلے کا آئندہ الیکشن سے کچھ لینا دینا نہیں ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں