ماورائے دستور قتل - پولیس حراست میں خالد مجاہد کی پراسرار موت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-19

ماورائے دستور قتل - پولیس حراست میں خالد مجاہد کی پراسرار موت

لکھنؤ، فض آباد، گورکھپور کی کچہریوں میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکے کے الزام میں لکھنؤ جیل میں بند خالد مجاہد، طارق قاسمی اور دوسرے ساتھیوں کی فیض آباد سماعت کیلئے فیض آباد لے جایا گیا تھا شام میں واپسی میں خالد کی اچانک طبیعت خراب ہوگئی، جس کو پولیس اور جیل انتظامیہ کے افسران بارہ بنکی ضلع اسپتال لے کر پہنچے، جہاں ڈاکٹروں نے اس کو مردہ قراردیا، پولیس کپتان بارہ بنکی وسیم احمد کا کہنا ہے کہ اس کی موت بیماری کی وجہہ سے ہوئی، جب کہ اس کے ساتھ موجود طارق قاسمی، محمد اختر اور سجاد کے علاوہ ان کے وکیلوں کا الزام ہے کہ خالد کافی دونوں سے بیمار چل رہا تھا لیکن جیل انتظامیہ نے اس کے علاج کی جانب کوئی توجہ نہیں دی، اس سلسلہ میں جب جیل کے ڈاکٹروں سے کہا گیا تو انہوں نے کہاکہ جب وہ دوائیں آئیں گی تو ان کا علاج کیا جائے گا، دوسری جانب ان کے وکیلوں نے اس کی موت کی اعلیٰ سطحی جانچ کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ وہیں رات دیر تک مقامی لوگو ں نے ضلع اسپتال میں حکومت اور انتظامیہ کے خلاف جم کر نعرے بازی کی۔ راجدھانی ضلع جیل میں بند مبینہ دہشت گرد خالد مجاہد، طارق قاسمی، سجاد اور محمد اختر کی فیض آبادمیں پیشی تھی، جس کی وجہ سے چاروں ملزموں کو جیل انتظامیہ نے مقامی پولیس اور سریع الحرکت فورس کے ساتھ فیض آباد عدالت میں حاضر ہونے کیلئے بھیجا تھا، بتایا جاتا ہے کہ چاروں آج صبح ہی لکھنؤ جیل سے فیض آباد گئے، جہاں عدالت میں پیش ہونے کے بعد چاروں کو سریع الحرکت دستہ اور پولیس قافلہ کے ساتھ واپس لکھنؤ بھیجا گیا، جیسے ہی ان کی گاڑی کچھ دوری پر واقع رام سنیبی گھاٹ کے پاس پہنچی کہ اچانک خالد کی طبعیت خراب ہوگئی اور وہ بے ہوش ہوگیا۔ اس کے ساتھ گاڑی میں موجود ساتھیوں نے اس کی اطلاع ساتھ چل رہے پولیس اہل کاروں کا دی اس کے چہرے پر پانی وغیرہ ڈالا گیا، لیکن اس کو ہوش نہیں آیا، پولیس کی مدد سے اس کو علاج کیلئے ضلع اسپتال بارہ بنکی لے جایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے اس کو مردہ قرار دیا۔ خالد کے اہل خانہ نے پولیس کی تھیوری کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ خالد کی موت کی اطلاع پاتے ہی پولیس کپتان بارہ بنکی وسیم احمد مع فورس کے موقع پر پہنچے۔ اس کی موت کی اطلاع پولیس اور ضلع انتظامیہ کی جانب سے اس کے گھر والوں کو جونپور اور اس کے وکیلوں کو دے دی گئی۔ اس کے وکیل محمد شعیب، رن دھیر سمن اور دوسرے سماجی کارکنوں نے اس کی موت کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ حکومت سے کیا ہے۔ دریں اثنا خالد کی لاش کا پوسٹ مارٹم کئے جانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ ادھر جامع مسجد دہلی کے شاہی امام احمد بخاری نے ملائم سنگھ یادو سے اس سلسلہ میں فون پر گفتگو کی۔ شاہی امام کے مطابق وہ ایس پی سپریمو سے ملاقات کرنے کیلئے کل لکھنؤ جائیں گے۔ واضح رہے کہ لکھنؤ، فیض آباد، گورکھپور اور فیض آباد میں گذشتہ 23 نومبر 2007ء کو کچہریوں میں ہوئے سلسلہ وار بم دھماکہ میں ایس ٹی ایف نے طارق قاسمی اور خالد مجاہد کو 22 دسمبر 2007ء کو بارہ بنکی ریلوئے اسٹیشن سے گرفتارکرنے کا دعویٰ کیا تھا، ایس ٹی ایف کا کہنا تھا کہ گرفتار خالد و طارق کو آرڈی ایکس اور دوسرے دھماکہ خیز مادہ کے ساتھ گرفتارکیا گیا تھا، جب کہ اس کے گھر والوں کا کہنا تھا کہ دونوں کی گرفتاری سے دس روز قبل مڑیاہوں اور سرائے میر علاقہ سے اٹھایا گیا تھا، اس معاملہ میں نامعلوم پولیس اہلکاروں کے خلاف اغوا کا مقدمہ بھی درج کرایا تھا، ان دونوں کی گرفتاری کے بعد جونپور اور اعظم گڑھ میں زبردست مظاہرے بھی ہوئے تھے، ان کی گرفتاری کے بعد مایاوتی حکومت نے گرفتاری کی جانچ کیلئے جسٹس آر ڈی نمیش کی قیادت میں کمیٹی تشکیل دی تھی جس کی رپورٹ گذشتہ 31؍اگست2012ء کو حکومت کے سپرد کردی گئی تھی۔
اترپردیش کے وزیراعلیٰ اکھلیش یادو نے فیض آباد عدالت میں ہوئے سلسلہ وار دھماکوں کے ملزم خالد مجاہد کی موت کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ مسٹر یادو نے بتایاکہ یہ انکوائری انتظامی سطح پر ہوم سکریٹری اور ایک ایڈیشنل ڈائرکٹر جنرل یا انسپکٹر جنرل کی سطح کے افسر کی کمیٹی کے ذریعہ کرائی گئی۔
خالد مجاہد اور طارق قاسمی کے وکیل رندھیر سمن نے دیر رات فون پر انقلاب بیورو سے بات کرتے ہوئے پولیس پر الزام لگایا کہ خالد مجاہد کو سیدھے طورپر قتل کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ نمیش کمیشن کی رپورٹ آنے کے بعد یہ بات ثابت ہوگئی تھی کہ طارق قاسمی اور خالد مجاہد کی گرفتاری فرضی تھی۔ لہذا اس رپورٹ کی بنیاد پر اس وقت کے ڈی آئی جی اس کے عملے کا جانا طئے تھا، اسی لئے ایک سازش کے تحت اس کا قتل کردیا گیا۔ انہوں نے مزید بتایاکہ سہ پہر 3:30 بجے خالد مجاہد کی عدالت میں پیشی ہوئی اور 5:30 بجے اس کو اسپتال لے جایا جاتاہے، جہاں اس کی موت ہوجاتی ہے۔ جیل سپرنٹنڈنٹ نے یہ بیان دیا کہ خالد مجاہد کو کوئی بیماری نہیں تھی اور وہ پیشی کے وقت تندرست تھا۔ دونوں کے وکیل نے کہاکہ جیل میں قید طارق کی جان کو بھی خطرہ ہے اور ابھی بھی ان کو اذیت دی جارہی ہے۔ لہذا اس کو بچایاجائے۔
ممبر پارلیمنٹ محمد ادیب نے خالد مجاہد کے قتل کو قتیل قاسمی کے قتل کی طرح قرار دیتے ہوئے حکومت اترپردیش اور ملائم سنگھ یادو سے مطالبہ کیا ہے کہ اگر 12گھنٹے کے اندر اندرقصور وار پولیس افسران کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو اترپردیش کا مسلمان سڑکوں پر اتر جائیں گے۔ انہوں نے کہاکہ ایسا لگتا ہے کہ اب جب کہ مسلم تنظیموں کی طرف سے بے گناہوں کی رہائی کے مطالبہ کو یقینی بنایا جارہا ہے تو پولیس نے نیا فارمولہ اختیار کرتے ہوئے جیل میں ماردینے کا منصوبہ بنایا ہے۔

Khalid Mujahid's mysterious death in police custody

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں