۔۔۔ ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-27

۔۔۔ ریت پہ کیا لکھتے رہتے ہو؟

ذرا ان جملوں پر غور فرمائیے:
"حکومت میں فرقہ پرست عناصر بھی موجود ہیں، مسلمانوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے"
یہ جملے میرے نہیں ہیں۔
اگر یہ میرے ہوتے تب بھی ان کی کوئی اہمیت نہ ہوتی۔ اس لئے کہ صحافتی زندگی کا بیشترحصہ میں نے یہی کہتے ہوئے گزار دیا ہے کہ حکومت میں اور خاص طور پر کانگریس میں فرقہ پرور عناصر موجود ہیں اورحکومتوں نے مسلمانوں کے ساتھ بڑے پیمانے پر ناانصافیاں کی ہیں۔ لیکن آج ان جملوں کی اہمیت اس لئے ہے کہ وہ آزاد ہندوستان کے تیسرے صدرجمہوریہ مرحوم ڈاکٹر ذاکر حسین کے نواسے سلمان خورشید کی زبان سے ادا ہو گئے ہیں۔

سمجھ میں نہیں آتا کہ سلمان خورشید کا شکریہ کس طرح ادا کریں۔
ان کی زبان پر یہ بات آئی تو سہی۔ یہ الگ بات ہے کہ آج انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی نا انصافی اور ان کے مسائل کااعتراف اس وقت کیا جب ان کے پاس خارجی امور کا قلم دان ہے اور جب ان کی حکومت کے پاس صرف دس مہینے بچے ہیں۔جس وقت ان کے پاس خود اقلیتوں اورمسلمانوں کے امور کا قلم دان تھا تومسلمانوں کے مسائل کا اعتراف کرنا تو دورانہیں مسلمانوں کے مسائل کا ذکر سننے میں بھی تکلف ہوتا تھا۔ حکومت میں فرقہ پرست عناصر کے موجودہونے کا ، ان کے نزدیک شاید یہ مطلب ہوکہ بیوروکریسی میں فرقہ پرستی درآئی ہے۔لیکن کیا وہ اس کی ضمانت دے سکتے ہیں کہ ان کی اپنی جماعت اس لعنت سے پاک ہے؟
اس نکتہ پرپھرکبھی بات کریں گے۔ یہاں ان کے اس ارشاد پر بات کرلی جائے کہ "مسلمانوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے"۔
سوال یہ ہے کہ شہریوں کے ساتھ اولین مرحلہ میں انصاف کرنے کی ذمہ داری کس کی ہے؟جنگلوں اور بیابانوں کی؟ دریاؤں اورریگزاروں کی؟ یا حکومت وقت اور انتظامیہ کی؟ آزادی کے بعد مختلف وقفوں کے ساتھ پچاس سال سے زیادہ عرصہ تک اور ایک تسلسل کے ساتھ پچھلے نو سال سے آپ ہی کی جماعت کی حکومت ہے۔اور آپ تو نرسمہاراؤکی اس حکومت میں بھی شامل تھے جس نے ملک کوبابری مسجد کی شہادت اور اس کے بعد پے درپے رونما ہونے والے مسلم کش فسادات کازخم دیا تھا۔ مسلمانوں کے مسائل پہلے بھی کچھ کم نہ تھے لیکن نوے کی دہائی میں ہندوستانی مسلمانوں کو جن ہمالیائی مسائل سے آپ کی حکومتوں نے دوچار کیا ہے ان کی کوئی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔آج آپ حکومت میں رہ کرمسلمانوں کے انصاف سے محروم رہ جانے کی صدا حزب اختلاف کے کسی لیڈر کی طرح بلند کر رہے ہیں۔
آپ کہتے ہیں کہ "جمہوریت میں یہ ممکن نہیں کہ ہماری 100فیصد باتیں مان لی جائیں اور اگر 60 فیصد بھی مانی جارہی ہیں توپہلے انہیں قبول کرلینا چاہئے"۔
تو کیا چند مسلمانوں کو وزارتوں میں شامل کرکے 60 فیصدادا ہوجاتا ہے؟ 60 فیصد چھوڑئے آپ مسلمانوں کو صرف 13 فیصد ہی دلوا دیجئے۔

دراصل سلمان خورشید نے 23/مئی کو اردوصحافیوں سے ایک خصوصی ملاقات کے دوران زیر بحث جملے ادا کئے۔عجیب بات ہے کہ جب ہمارے حکمراں اردو صحافیوں سے ملتے ہیں تو ان کی زبان سے اسی وقت ایسی "ان کہی" نکلتی ہیں۔ وہ کبھی قومی میڈیا کے سامنے اس کا اعتراف نہیں کرتے کہ "حکومت میں فرقہ پرست عناصر بھی موجود ہیں اور یہ کہ مسلمانوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے"۔ یہ درست ہے کہ مسلمانوں کے مسائل خصوصی طورپراردو میڈیا ہی اٹھاتا ہے لیکن کیا قومی میڈیا اور اس کے توسط سے ملک کی دوسری اقوام کو یہ جاننے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو انصاف نہیں مل رہا ہے؟واقعہ یہ ہے کہ سیاستداں اسی عیاری کے ساتھ مسلمانوں کو لبھاتے اور ورغلاتے رہے ہیں۔وہ اردو صحافیوں کے ساتھ خصوصی ملاقات میں ایسی ہی باتیں کرتے ہیں کہ جن سے "شہ سرخیاں" بنیں اور مسلمان انہیں اپنا سب سے بڑا مسیحا اور ہمدردوغم گسار سمجھ بیٹھیں۔خود وزیر اعظم منموہن سنگھ بھی اسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں۔ وہ مسلمانوں کے مسائل پر اسی وقت ہمدردانہ رویہ ظاہر کرتے ہیں جب اردو صحافیوں سے خصوصی ملاقات کرتے ہیں۔ ہمارے وزیروں کو ایسی ملاقاتوں کا خیال بھی انتخابات سے کچھ ہی پہلے آتا ہے۔

مذکورہ دعوت میں سلمان خورشید سے کسی نے پوچھ لیاکہ "کیا ملی جماعتوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں کایہ الزام درست ہے کہ ہندوستان کے داخلی معاملات میں اسرائیلی ایجنسیوں کی مداخلت بڑھتی جارہی ہے جس کے سبب مسلمانوں کے خلاف کارروائی کی جارہی ہے؟"
تو ان کا جواب یہ تھا کہ "سرکاری سسٹم میں غلط لوگ موجود ہیں جن کی نشاندہی کی جا رہی ہے اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہورہی ہے"۔
ان کے اس جواب سے آخر کیا نتیجہ اخذ کیا جائے؟ سرکاری سسٹم میں یہ غلط لوگ آخر کیسے در آئے؟اور جب آپ نے ان کی نشاندہی کرلی ہے تو ملک کو یہ بتانے میں حرج کیا ہے کہ وہ کون ہیں اور ان کے خلاف کس طرح کی کارروائی عمل میں آئی ہے؟اس سے بھی بڑا اور اہم سوال یہ ہے کہ ان "غلط لوگوں کی وجہ سے جن سینکڑوں بے گناہوں کی زندگیاں تباہ ہوگئی ہیں" ان کی باز آباد کاری اور ان کی بربادی کی تلافی کے کیا اقدامات کئے گئے ہیں؟
حیرت ہے کہ کسی نے ان سے یہ نہ پوچھا کہ جس وقت آپ کے پاس وزارت برائے اقلیتی امور کا قلم دان تھا تو دہلی کا ایک بدقسمت مسلم نوجوان 14 سال کی قیدوبند کے بعد عدالت سے باعزت بری ہوا تھا، کیا آپ نے اس کی بازآباد کاری کا کوئی انتظام کرایا؟اور یہ کہ اس کی زندگی برباد کرنے والے اہل کاروں کے خلاف کیا کارروائی ہوئی؟دہلی میں تو آپ کی ہی حکومت ہے؟ دہلی کے ایک کمیشن کے چیرمین کے دفتر میں اس نوجوان کو میں نے خود اپنی برباد حالی پر آنسو بہاتے ہوئے اور اس پر چیرمین کی جھڑکیاں کھاتے ہوئے دیکھا ہے۔سلمان خورشید صاحب! ہمارا پورا وجودآپ کی حکومتوں کے مظالم سے چھلنی ہے اور آپ ابھی تک "غلط لوگوں کی نشاندہی" میں ہی الجھے ہوئے ہیں۔مسئلہ دردکے مداوا کا بھی ہے۔ مسلمان آپ سے اپنے مسائل کا حل سننا چاہتے ہیں اور آپ فرماتے ہیں کہ
"سعودی عرب سے بہتر اور خوشگوار تعلقات ہماری ترجیحات میں شامل ہیں"۔
کیا ہندوستانی مسلمانوں کے سیاسی اور سماجی مسائل کا حل سعودی عرب سے بہتر اور خوشگوارتعلقات میں مضمر ہے؟

آپ نے کہا کہ "ہمیں افسوس ہے کہ حیدرآباد اور مالیگاؤں وغیرہ میں دہشت گردانہ دھماکوں میں غلط لوگوں(بے قصوروں) کی گرفتاری ہوئی اور یہ کہ سونیا اور منموہن اس مسئلہ کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتے ہیں"۔
سوال یہ ہے کہ کیا آپ کی حکومت نے اس بھیانک غلطی کی تلافی بھی کی؟ تلافی تو بہت دوراس سے کوئی سبق بھی نہیں سیکھا۔ان دو واقعات کے بعدبھی سینکڑوں بے قصوروں کو گرفتار کیا گیا۔ آپ کے سسٹم میں موجود ان "غلط لوگوں" نے تو ماخوذ ملزموں کو ہی موت کے گھاٹ اتارنا شروع کردیا ہے۔ مگر اس نئے اورخطرناک رجحان کے تعلق سے آپ کی زبان سے ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔یوپی کے خالد مجاہد کے’قتل’کا واقعہ تو بہت تازہ ہے۔کم سے کم سماجوادی پارٹی سے سیاسی چشمک کی خاطرہی اظہار تعزیت کردیتے۔

آئیے زیر نظر سطورمیں کی گئی تمام باتوں پر خاک ڈالتے ہیں۔
ہم سلمان خورشید سے صرف ایک التجا کرتے ہیں!
ابھی آپ کی حکومت کے پاس دس مہینے باقی ہیں۔ آپ مسلمانوں کے سارے مسائل کو پس پشت ڈال دیجئے۔کابینہ سے صرف یہ تجویز پاس کرادیجئے کہ جس طرز پر 1984 کے سکھ مخالف فسادات کے متاثرین کو کابینہ کے ایک فیصلہ کے ذریعہ معقول معاوضہ ملا ہے اسی طرز پر 1984 کے بعد سے اب تک ہونے والے مسلم کش فسادات کے متاثرین کو بھی اسی سال معاوضہ دیا جائے گا اور یہ کہ اگر ریاستی سرکاریں نہیں دیں گی تو مرکزی سرکار دے گی۔ اس پر کسی عدالت کا اسٹے آرڈر بھی آنے کا ڈرنہیں ہے۔ اور اگر آپ ایسا نہیں کرسکتے تو پھر مسلمانوں کی ہمدردی کا یہ نیا مشغلہ چھوڑ دیجئے۔ اس لٹی پٹی قوم کو آپ کے اس تماشہ کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت مسلمانوں سے خشک ہمدردی، یکطرفہ عشق میں مبتلااس خراب حال عاشق جیسا عمل ہے جو ساحل پر بیٹھ کر ریگزار پر اپنی انگلیوں سے محبوب کی یاد میں کچھ لکھتا ہے اور تیز ہوا کا ایک جھونکا آکر اسے مٹا جاتا ہے!!

***
موبائل : 9810041211
Editor-in-chief VNI & Media Adviser to President IICC, New Delhi
ایم ودود ساجد

Indian Muslims dilemma and Salman Khurshid's statements. Article: M. Wadood Sajid

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں