کنفیوژن اور اس کا علاج - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-05-10

کنفیوژن اور اس کا علاج

موجودہ وقت کے بیشتر مسائل میں سے ایک بڑا اور اہم مسئلہ کنفیوژن بھی ہے۔کنفیوژن کو فکرو خیال کے الجھاؤ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ایک ایسی صورت حال کا نام کنفیوژن ہے جس میں درست اور غیر درست ،حقیقت اور فسانے کی تمیز اٹھ جاتی ہے۔جس کے نتیجہ میں خلط مبحث اور کشمکش پیداہوتی ہے۔کنفیوژن کئی بار اس لیے بھی پیدا ہوتاہے کہ ہم اشیاءکو ان کی حقیقی صورت میں نہیں دیکھ پاتے ، ان کی تہہ تک اتر کر نہیں دیکھتے ،جبکہ کئی، بلکہ ہزاروں اشیاءایسی بھی ہوتی ہیں کہ ان کی حقیقت تک پہونچنا ہمارے بس کا روگ ہی نہیں ہوتا۔اور اسی لیے ہم کو یہ دعا سکھلائی گئی :

’اے اللہ ! مجھے چیزوں کو ان کے حقیقی روپ میں دیکھنے کی توفیق عطا فرما‘۔

کنفیوژن ایک بلا بھی ہے اور بیماری بھی،تاہم یہ بلا کم ہے اور بیماری زیادہ اور بیماری بھی ایسی کہ اس کا علاج جھولا چھاپ ڈاکٹروں کے پاس توکجا گولڈ مڈل ڈاکٹروں کے پاس بھی نہیں۔دنیا میں تقریبا اسّی فیصد لوگ اس بیماری میں مبتلاہیں،کچھ کم ہیں اور کچھ نسبتا زیادہ،جو زیادہ ہوتے ہیںوہ پاگل ہوجاتے ہیں اور جو ذرا کم ہوتے ہیں وہ تھالی کے بیگن کے مثل بن جاتے ہیں۔ان کی اپنی کوئی رائے ہوتی ہے اور نہ کوئی عندیہ،وہ کوئی بھی بات کامل اعتماداور یقین کے ساتھ نہیںکہہ سکتے،یہاں تک کہ جنگ اورامن کے بارے میںبھی ۔اگر اس بارے میںبھی ان کی رائے لی جائے تو وہ پس وپیش میں مبتلا ہوجا ئیں گے،ایک بار جنگ کو ترجیح دیں گے اور انسانی تاریخ میں پیش آنے والی بڑی بڑی جنگوں اور بقائے اصلح [Survival of the fittest] کے حوالے دیں گے۔اور کہیں گے کہ جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ ہماری اس دنیا میں جتنے بھی بڑے بڑے جنگجو گزرے ہیں ان میں سے اکثر کا خیال یہی تھا کہ جنگ ضروری ہے وہ اس کودفاعی یا وقتی چیز نہیں گردانتے تھے ،وہ اس کو انسانی زندگی کے ساتھ اسی طرح وابستہ سمجھتے تھے جس طرح رگِ حیات کے ساتھ سانسیں وابستہ ہوتی ہیں۔جبکہ دوسری بار امن کو ترجیح دیںگے اورانسانی جان کے احترام اور تعمیر وترقی کے حوالے سے بات کریں گے کہ جنگ کے ماحول میں ترقی کی رفتار دھیمی پڑ جاتی ہے اور تحقیق وتدوین کا کام گویا رک سا جاتاہے۔
جو پاگل ہوجاتے ہیں انہیں اللہ کاقانون بھی معاف کردیتاہے اور دنیا کا قانون بھی ،البتہ جو نیم پاگل ہوتے ہیں ،جو تعداد میں بہت زیادہ بھی ہوتے ہیںانہیں نہ تو اللہ کا قانون معاف کرتا ہے اورنہ دنیا کا، یہاںتک کہ وہ خود اپنے احساس کی عدالت میں بھی خود کوبے گناہ ثابت نہیںکرپاتے اوریہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے اولین مخاطب ہیں۔
حدیث شریف میںآتاہے کہ آدمی کا دل اللہ تبارک وتعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہے وہ اس کوجس طرح چاہتاہے گردش دیتا رہتاہے۔ایسا نہیں ہے کہ واقعی اللہ کے ہاتھ اور انگلیاں ہیںاور وہ ان کے ذریعہ سے دل پر گرفت رکھتاہے تاہم ایسا ضرور ہے کہ دلوں کی تقلیب اسی کنفیوژن کے ذریعہ راہِ عمل پاتی ہے۔قلب کو قلب اسی لےے کہا جاتاہے کہ وہ ہر لحظہ بدلتا رہتاہے۔اس تبدیلی سے مراد دل کی جسمانی اورہیئتی تبدیلی نہیں ہے بلکہ فکری ونظریاتی تبدیلی ہے،خیالات ورجحانات کے سمندر میں جو مدوجزر پیداہوتا رہتاہے وہی دل کی تبدیلی سے مراد ہوتاہے۔اللہ نے کنفیوژن یعنی’ شک ‘کی بیماری انسان کے ساتھ لگادی ہے اور یہی شک ہے جو انسان کے دل ودماغ کوالٹ پلٹ کرتا رہتاہے۔کنفیوژن یا شک کو عربی زبان میں ’ریب‘ کہتے ہیں۔یہ کتنی مہلک چیز ہے اس کااندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی کتاب ہدایت کے آغاز ہی میںانسان کواس بات کی ہدایت کرنا ضروری سمجھا ،فرمایا:
[البقرہ-1]
کہ اس کتاب کے بارے میں شک میںمبتلا مت ہوجانا ۔کیونکہ اس کے کلام للہ ہونے پر شک کے ساتھ یہ کتاب کچھ بھی نفع نہیںدے سکے گی باوجود اس کے کہ یہ واقعتا خدائی کلا م ہے اور اس کوپختہ دلیلوں سے مزین کیا گیا ہے۔
بہت زیادہ سادہ درجے کے شک کوبھی کنفیوژن نہیںکہہ سکتے ، جب شک اپنی انتہائی حدوںکوچھونے لگتاہے اور کسی بات ،عمل یا فکر وخیال کولے کرتعبیراتی الجھاؤ پیداہوجاتاہے اور گومگو کی کیفیت اپنی تمام تر جلوہ سامانیوںکے ساتھ تخلیق پاتی ہے تو کنفیوژن کی صورت گری ہوتی ہے۔
شک کے بالمقابل یقین آتاہے ،اگر شک بیماری ہے تو یقین اس کا علاج،وہ جتنی خطرناک بیماری ہے یہ اس کااسی قدر شافی وکافی علاج ہے ۔ہر وہ آدمی جو اپنی زندگی میں کامیابی سے ہمکنار ہونا چاہتا ہے اس کو چاہئے کہ شک کو رفع کرے اوریقین کو پختہ کرے۔شک دور کرنے کا ایک علاج علم حاصل کرنااور جانکاری پیدا کرنا بھی ہے۔جب بھی کسی مسئلے کو لے کر شک پیدا ہو تو آدمی کو چاہئے کہ وہ اس کے متعلق پوری جانکاری حاصل کرے۔اور جانکا ری اور علم سے بڑھ کر جو چیز ہے وہ ہے یقین ، ایک مسلمان کے لیے اللہ کی ذات پر کامل درجہ کایقین کنفیوژن کا شافی وکافی علاج ہے۔ صحیح کہا علامہ نے:
گماں آباد ہستی میں یقیں مردِ مسلماں کا
بیاباں کی شبِ تاریک میں قندیل رہبانی
علم کے آفاق وانفس میںوہ وسعت وگیرائی نہیں جو یقین کے ظاہر وباطن میںپائی جاتی ہے۔علم نے تو انسان کو آج تک یہی بتایا اور سمجھایا ہے کہ آگ جلاتی ہے اور پانی ٹھنڈک پہونچاتاہے۔یہ طاقت وکیفیت تو صرف یقین ہی کے اندر پائی جاتی ہے کہ وہ کسی کو تجربات کے خلاف سوچنے اور کرنے پر آمادہ کردےتاہے۔کوئی وجہ نہیںکہ مذکورہ سیاق میںآگ کاتذکرہ آئے اور ابراہیم خلیل اللہ کے مثالی واقعہ کی طرف ذہن منتقل نہ ہو۔
علم کے ساتھ یہ بات لگی ہوئی ہے کہ اس کی تھاہ انسان کے ہاتھ نہیںآتی،نہ اب تک آئی ہے اور نہ ہی آئندہ کبھی آنے کی کوئی توقع ہے۔علم اعلی درجے کی تحقیق چاہتاہے اور تحقیق میںیہ بات مسلم ہے کہ یہاں کوئی بات بھی حرف آخر قرار نہیں دی جاسکتی سوائے بعض بدیہی چیزوںکے۔اس لیے علم بھی شک کا حتمی علاج نہیںہوسکتا۔علم وتحقیق کے صدہا دفاتر ، منطقی اور کلامی مباحث کے بے شمار ذخائر، صدیوں پر محیط فلسفیوں کی موشگافیاں ،علماءوفقہا کی لن ترانیاںبھی کبھی کبھار بلکہ اکثر اوقات کنفیوژن کو رفع کرنے میں ناکام رہتی ہےں اور ضعفِ یقین کی بیماری کے لےے شافی وکافی علاج نہیں ہوپاتیں۔دیکھےے خاص اس باب میں علامہ اقبال چھٹی صدی ہجری کے مشہور محقق ، بلند پایہ فلسفی اور مفسر قرآن ابو عبداللہ فخرالدین رازی کے فلسفیانہ اور دقیق علمی مباحث اور ان کی عظیم علمی خدمات کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔کہتے ہیں:
علاجِ ضعفِ یقیں اِن سے ہو نہیں سکتا
غریب اگر چہ ہیں رازی کے نکتہ ہائے دقیق
یہ شعرعلامہ کی جس نظم سے لیا گیا ہے وہ حکیم سنائی ؒ کے مزار پر حاضری کے موقع پر کہی گئی تھی،اس پوری نظم میں اور بطور خاص اس شعر میں علامہ نے عشق کا مقابلہ عقل سے کیا ہے یا دوسرے الفاظ میں حکیم سنائی ؒ کی خدمات کا مقابلہ امام رازی ؒ کی خدمات سے کیا ہے ۔ اور بتایا ہے کہ عشق جس طرح انسانی زندگی کی رہنمائی کرسکتاہے عقل اس طرح رہنمائی نہیں کرسکتی۔عقل اپنی ہزارہا خوبیوں کے باوجود بہت ساری جگہوں پر بے دست وپا ثابت ہوتی ہے ، بطور خاص الٰہیات کے باب میں خاص ان مقامات پرجہاں از اول تاآخر عشق ہی کی کارفرمائی ہوتی ہے۔
اس پس منظر میںاکبر الہٰ آبادی کا درج ذیل شعر بھی خوب ہے:
صدیوں فلاسفہ کی چناں و چنیں رہی
لیکن خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی
علم صدیوںکی تلاش وجستجو کے بعدتھک ہار کر وہیںآکر سرجھکادیتاہے جہاںیقین پہلے ہی سے سجدہ ریز ہوتاہے۔
کنفیوژن کسی سادہ سی بات، معمولی سے واقعہ یا کسی چھوٹی سی خطا پر بھی پیدا ہوسکتاہے۔اس کے لیے کوئی ضروری نہیں کہ بگ بینگ[Big Bang] جیسا کوئی غیر معمولی حادثہ ہو یا پھر کوئی ہمالیائی غلطی ۔ شک کاپیداہونا کوئی ایسا برا نہیں تاہم ا س کاقائم رہنا اوردل ودماغ میںجم جانا بطور خاص الٰہیات کے باب میں یقینی طور سے براہے۔انسان کے سارے اعمال اکارت ہوجاتے ہیںیہاں تک کہ بعض اوقات وہ دین وایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔
کنفیوژن جب آتاہے تو اپنے ساتھ تناؤ [Stress] بھی لاتاہے اور یہ وہ بیماری ہے جو دنیا کے بیشتر انسانوںکولاحق ہے، ایک عام آدمی جس شخص کو جتنا زیادہ خوشحال اور فارغ البال سمجھتاہے ، اس کوایک کامیاب فرد کے طورپر جانتا اور مانتاہے،اس کی عیش وعشرت کی زندگی اور عزت وشہر ت کی طرف کبھی کبھار حسرت بھری نگاہ سے دیکھتاہے اور جب وہ یہ معلوم کرلیتاہے کہ وہی شخص اس بیماری کاسب سے بڑا شکار بھی ہے۔تو اس کویقین ہوجاتاہے کہ کنفیوژن کا علاج پیسہ اور دوا نہیں ،اس کا علاج یقین ہے یقینِ کامل اور بس!!

محمد الیاس

Confusion and Treatment

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں