ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:11 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-13

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:11


خود پروفیسر صاحب ایک اجنبی عورت کی آواز سن کر چونک گئے۔ وہ اس جملے کا مطلب سمجھ ہی نہیں پائے۔
"چاچا جی۔۔۔ آخر تم میرے جال میں آہی گئے"۔
انہوں نے جملہ سننے کے بعد ادھر ادھر چونک کر دیکھا اور جب انہیں کوئی عورت دروازے یا کھڑکیوں میں کھڑی نظر نہیں آئی تو انہوں نے گھبرا کر ونود سے پوچھا "یہ کس عورت کی آواز ہے مسٹر ونود۔۔۔"
"شاتو کی۔۔۔۔"ونود نے پھیکی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا۔
"شاتو کی۔۔۔؟" پروفیسر نے حیرت سے پوچھا "تمہارے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ بت کی آواز ہے"۔
"جی ہاں۔۔۔" ونود نے جواب دیا "یہ شاتو کی روح کی آواز ہے اور میرا خیال ہے کہ یہ جملہ اس نے آپ سے مخاطب ہوکر کہا ہے۔۔۔"
"لیکن میں اس کا چچا کب ہوں۔۔۔"پروفیسر نے گھبرا کر کہا۔
"جس طرح میں اس کا محبوب ہوں اسی طرح آپ اس کے چچا ہیں"۔ ونود نے سمجھایا۔
"یعنی تم یہ کہنا چاہتے ہو کہ میں وہ راجہ جسونت سنگھ ہوں جس نے شاتو کے باپ کو تہ خانے میں قتل کیا تھا"۔
"جی ہاں"۔۔۔ ونود مسکرایا۔
پروفیسر تارک ناتھ نے دو ایک منٹ تک کمرے کے ماحول کا کچھ اس طرح جائزہ لیا جیسے وہ 'شاتو' کی روح کو کمرے میں تلاش کر رہے ہوں اور پھر جیسے وہ مطمئن ہوگئے انہوں نے بھی حالات کے آگے سپر ڈال دی۔ اب انہوں نے بڑے سکون کے ساتھ ونود سے کہا "شاتو کی روح خاموش کیوں ہوگئی؟"
"میں نہیں جانتا لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ وہ اس کمرے میں موجود ضرور ہے"۔ ونود نے بڑے یقین کے ساتھ کہا۔
"وہ نظر کیوں نہیں آتی"۔ پروفیسر نے بے چین ہو کر پوچھا۔
"یہ بھی مجھے نہیں معلوم۔۔۔" ونود نے جواب دیا۔
"لیکن میں اس سے باتیں کرنا چاہتا ہوں"۔ پروفیسر نے کہا۔

ابھی پروفیسر کی پوری بات ختم نہیں ہوئی تھی کہ کمرے میں دوبارہ آواز گونجی "میں تمہاری غلام نہیں ہوں چاچا جی کہ تم اگر باتیں کرنا چاہو تو تم سے باتیں کرنے لگوں"۔
"لیکن میں تمہارا چچا نہیں ہوں شاتو۔۔۔" پروفیسر نے بات بڑھانا چاہتی۔
"لیکن۔۔۔" آوازمیں اب کچھ غصہ بھی شامل تھا۔ "تم میرے چچا راجہ جسونت سنگھ ہو، میرے پتا کے قاتل۔۔ تم نے میری زندگی برباد کی ہے، تم نے مجھے ایک بت میں تبدیل کیا ہے، تم میرے بھی قاتل ہو، کیوں کہ تم نے میری حسرتوں کا بھی خون کیا ہے اور میرے ارمانوں کا بھی۔۔۔ میں تم کو کبھی معاف نہیں کرسکتی چاچا جی۔۔۔"
شاتو نظر تو نہیں آ رہی تھی لیکن اس کی آواز کمرے میں بادلوں کی گرج کی طرح گونج رہی تھی ، ونود اور پروفیسر دم بخود بیٹھے تھے۔

اچانک کمرے میں شاتو کی آواز دوبارہ گونجی اس نے کہا "میں جارہی ہوں اور اب رات کو ٹھیک بارہ بجے آؤں گی لیکن میں یہی چاہوں گی کہ اب اس حویلی کا کوئی آدمی حویلی سے باہر نہ جائے"۔
کمرے میں دوبارہ قبرستان کا سا سناٹا پھیل گیا۔
چند منٹ ونود اور پروفیسر دونوں ایک دوسرے کو سکتہ کے عالم میں دیکھتے رہے۔ شاتوکے آخری جملے کا مطلب یہ تھا کہ اب حویلی کے سارے مکین اس کے قیدی تھے۔ یہ صورتحال ونود کے لئے ناقابل برداشت تھی۔ اس نے پروفیسر سے کہا "میں حویلی سے باہر ضرور جاؤں گا۔۔۔"
"لیکن کس لئے؟" پروفیسر نے پوچھا۔
"محض یہ دیکھنے کیلئے شاتو پر اس کا کیا ردعمل ہوتا ہے میں یہ دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنے حکم کی خلاف ورزی پسند کرتی ہے یا نہیں۔۔۔" ونود نے مزید کہا "مجھے حیرت بھی ہے کیونکہ آج پہلی مرتبہ اس نے ہم سب پر ایک پابندی بھی لگائی ہے"۔
"لیکن میرا مشورہ ہے کہ تم ایسا نہ کرو۔۔۔"پروفیسر نے سنجیدہ ہوکر کہا۔
"یعنی میں شاتو کا قیدی بننا منظور کر لوں"۔
"ہاں۔۔۔" پروفیسر نے کہا۔
"لیکن یہ بالکل ناممکن ہے پروفیسر۔۔۔" ونود نے کھڑے ہوکر کہا "میں ابھی اور اسی وقت حویلی سے باہر جاؤں گا"۔
"یہ تمہارا بچپنا ہے مسٹر ونود۔۔۔" پروفیسر نے کہا "ویسے تمہیں اختیار ہے کہ تم جو چاہو کرو لیکن بلاوجہ شاتو کی روح کو دشمن بنانے میں ہمارا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔ میرا مشورہ ہے کہ تم کم ازکم آج رات حویلی سے باہر نہ جاؤ اور میرے پاس ہی بیٹھے رہو، کیونکہ میں تم کو کتاب کا بقیہ حصہ سنانا چاہتا ہوں۔۔۔"
"ڈر گئے پروفیسر۔۔۔" ونود نے طنز کیا۔
"یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔۔۔" پروفیسر نے جواب دیا " میں ڈرا نہیں ہوں" نہ میں شاتو کی روح سے کوئی مصلحت کر رہا ہوں بلکہ میں تمہیں خوش اسلوبی کے ساتھ روحوں کے جال سے نکالنا چاہتا ہوں اور اس میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہیں کرنا چاہتا۔۔۔"
"آپ خود بھی اسی جال میں پھنس چکے ہیں پروفیسر۔۔۔"ونود نے کہا "اب ہم آپ سب ایک ہی کشتی میں سوار ہیں"۔

"خیر۔۔۔" پروفیسر نے ایک لمبی سانس لینے کے بعد کہا۔ "اب تم کتاب کی بقیہ کہانی سنو اور تھوڑی دیر کیلئے بھول جاؤ کہ شاتونے ابھی چند منٹ قبل ہم پر کیا پابندی لگائی ہے۔۔۔"
"نہیں پروفیسر صاحب ۔۔۔"ونود نے کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا "مجھے حویلی کے باہر ضرور جانا ہے۔۔۔ میں شاتو کی طاقت آزمانا چاہتا ہوں جب کہ مجھے معلوم ہے کہ شاتو کی روح مجھے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتی کیونکہ میں اس کا محبوب ہوں۔۔۔"
پروفیسر نے دوبارہ ونود کو روکنا چاہا لیکن ونود مسکراتا ہوا کمر ے سے باہر نکل گیا۔

ونود باہر آیا تو چاروں طرف سناٹا پھیلا ہوا تھا اور اندھیرا بھی۔ ہوا چونکہ بہت تیز چل رہی تھی اس لئے درختوں سے ایک مہیب شور پیدا ہو رہا تھا۔ ماحول ڈراؤنا بھی تھا اور بھیانک بھی۔ ایک لمحہ کیلئے ونود کے دل میں ایک خوف سا پیدا ہوا اور اس نے سوچا کہ وہ پروفیسر کا مشورہ مان لے اور حویلی کے باہر نہ جائے لیکن پھر جیسے وہ خود پر ہنسا اس نے اپنے سر کو کچھ اس انداز سے جھٹکا دیا جیسے وہ خوف کو اپنے دل و دماغ سے نکال دینا چاہتا ہو اور پھر شانتا کے کمرے کی طرف مڑ گیا۔

شانتا اپنے بستر پر گہری نیند سورہی تھی۔ خوف کی لکیریں اب بھی اس کے چہرے پر ابھری ہوئی تھیں اس کے خوابیدہ نقوش پر اس وقت بھی الجھنوں کا ڈیرا باقی تھا۔ وہ دروازے پر کھڑا ہوکر دیر تک شانتا کے چہرے کی طرف دیکھتا رہا، پھر اس نے اشارے سے کالکا کو باہر بلایا اور پوچھا "شانتا کو کس وقت نیند آئی"۔
"تقریباً بیس منٹ قبل" کالکانے جواب دیا۔
"وہ میرے جانے کے بعد پلنگ پر لیٹی رہی تھی یا کمرے کے باہر گئی تھی" ونود نے دوسرا سوال کیا۔
"بس۔۔۔پلنگ پر لیٹی رہی تھیں۔۔۔"
"خاموش رہی تھیں یا انہوں نے تم سے کوئی گفتگو کی تھی"۔
"جی نہیں۔۔۔" کالکا نے جواب دیا "وہ بالکل خاموش بستر پر پڑی رہی تھیں۔۔۔"
"اچھا ۔۔۔" ونود نے کہا "ان کو سونے دینا، وہ اگر اٹھ کر باہر جانا چاہیں تو ان کو باہر نہ جانے دینا، اور تم خود کمرے میں ہروقت موجود رہنا۔۔۔"
ونود کالکا کو یہ ہدایت دے کر پورٹیکو میں آیا تو شاتو کا بت بدستور چبوترے پر نصب تھا۔۔۔لیکن اس وقت سخت تاریکی کی وجہہ سے اس کے خدوخال نظر نہیں آرہے تھے۔۔۔ اُس کی مسکراہٹ کی ساری ادائیں اس وقت تاریکی میں مستور تھیں۔

ونود فوراے کے پاس آکر رکا۔۔۔بت کی طرف دیکھتے ہی دیکھتے اس کے لبوں پر ایک فاتحانہ مسکراہٹ پھیلی۔۔۔اس نے شاتو کے بت کو مخاطب کرتے ہوئے بڑی آہستہ آواز میں کہا "شاتو۔۔۔۔تم کہتی ہو میں تمہارا محبوب ہوں۔۔۔تم نے میری خاطر اپنی زندگی برباد کی ہے۔۔۔شاتو۔۔۔تم خود ہی بتاؤ کہ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ میں تمہارا قیدی بننا منظور کرلوں۔۔۔"
ونود اتنا کہہ کر چند لمحات کیلئے خاموش ہوا اور اُس نے پھر کہا "قیدی تو میں تمہیں بناؤں گا شاتو۔۔۔"
لیکن ونود کے یہ دونوں جملے جو یقیناً اس کی ذہنی سراسمیگی کے ثبوت تھے، ونود کے علاوہ اور کسی نے نہیں سنے۔۔۔ شائد بت نے بھی نہیں سنے اور شاید شاتو کی روح نے بھی نہیں سنے کیونکہ بت اسی طرح خاموش کھڑا رہا۔۔۔۔ سناٹا اسی طرح باقی رہا اور تیز ہوا کے جھکڑاسی طرح چلتے رہے۔

چند منٹ بت کے سامنے کھڑا رہنے کے بعد ونود ٹہلتا ہوا حویلی کے پھاٹک کی طرف روانہ ہو گیا۔۔۔ اس وقت وہ واقعی بڑا مطمئن نظر آ رہا تھا۔۔۔اس کے قدموں میں کوئی لغزش نہیں تھی اس کے چہرے پر بھی کوئی خوف نہیں تھا۔ وہ حویلی کے پھاٹک کی طرف اس انداز سے بڑھ رہا تھا جیسے وہ کسی خطرے کی طرف نہیں جا رہا ہو اپنی کسی جانی پہچانی محبوبہ سے ملنے جارہا ہو۔۔۔ اپنی کوئی پرانی تمنا پوری کرنے جارہا ہو۔۔۔۔

لیکن حویلی کے پھاٹک کے قریب پہنچتے ہی ونود کے قدم جیسے جم کر رہ گئے۔ وہ اگلا قدم اٹھا ہی نہ سکا کیونکہ حویلی کے پھاٹک پر شاتو کھڑی تھی۔
شاتو نے بڑی محبت بھری آواز میں اس سے کہا "میں نے تم کو منع کیا تھا راج کمار کہ تم حویلی سے باہر نہیں جاؤ گے۔۔۔"
"لیکن میں تمہارا حکم ماننے کیلئے مجبور نہیں ہوں۔۔۔" ونود نے ہمت کرکے کہا۔
"میں نے تمہیں حکم نہیں دیا تھا راج کمار ۔۔۔" شاتو کا لہجہ بدستور نرم بھی رہا اور محبت بھرا بھی۔ "میں نے تو التجا کی تھی کیوں کہ میں تم کو کسی نئی پریشان میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی"۔
"حویلی سے باہر جانے میں میرا کیا نقصان ہوگا۔۔۔" ونود نے کہا ۔۔۔۔
"دشمن تمہاری گھات میں ہے۔۔۔" شاتو کی روح نے سرگوشی کی۔

"کون ہے میرا دشمن ۔۔۔"ونود چونکا۔ "وہی جو ہمیشہ سے تمہارے دشمن ہیں۔۔۔" شاتو نے جواب دیا اور پھر پھاٹک کے باہر اشارہ کرتے ہوئے کہا "اگر تم دیکھنا ہی چاہتے ہو کہ تمہارے دشمن کون ہیں تو تم خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔۔۔"
اور پھر جیسے ہی ونود نے سامنے کی طرف دیکھا اس کے حلق سے ایک بھیانک چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔۔۔ وہ بے تحاشہ بھاگ کھڑا ہوا۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:11

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں