فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی - سنسر بورڈ کی کارگردگی سوالیہ نشان - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-13

فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی - سنسر بورڈ کی کارگردگی سوالیہ نشان

فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی
سینسر بورڈ کی کارگردگی پر سوالیہ نشان

فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی۔ پس منظر
د نیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے میڈیا، فلم، اور ٹی وی سیریلیس میں جس طرح سے غیر ذمہ دارانہ اور جانبدارانہ رویہ اپنا یا جا رہا ہے ، وہ سارے عالم کے مسلمانوں کے سامنے کئی ہزار فلموں ، خبروں، اور ٹی وی سیریلیوں کی شکل میں موجود ہے، اسلام، مسلمان، اور مسلم ممالک پر کئی ایسی فلمیں بنائی جا چکی ہیں، جس سے مسلمانوں اور اسلام کا دور دور تک تعلق نہیں ہے، کچھ فلم ساز یا تو جان بوجھ کر مسلمانوں کے خلاف سستی شہرت پانے اور پیسہ کمانے کی چکر میں ایسی گھٹیا فلم بناتے ہیں، یا کچھ فلم ساز اظہار رائے کی آزادی کا سہارا لیکر بالخصوص مسلمانوں کے خلاف ایک سازش اور دشمنی کے بنیاد پر ایسی فلمیں بناتے ہیں، اس کے علاوہ فلم سازوں کا ایک اور طبقہ جو اپنے آپ کو دانشورسمجھتا ہے، اور اسلام سے متعلق عدم جانکاری، اور یا تھوڑی بہت جانکاری حاصل کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہیں اسلام سے متعلق بہت جانکاری حاصل ہے، اب تک دنیا بھر میں ایسا ہوتا آ رہا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی کا سہارا لیکر عالمی سطح پر انگریزی سے لیکر دنیا کی تقریبا تمام زبانوں میں اور ملکوں میں مسلمانوں کے خلاف فلمیں بن جاتی ہیں، دنیا میں صرف مسلمان ہی ایک ایسی قوم ہے ، جن کو میڈیا سے لیکر، فلم ساز، ٹی وی سیریل بنانے والے ، مضمون نگار اور یہاں تک کے کارٹونسٹ بھی مسلمانوں اور اسلام کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑے ہوئے ہوتے ہیں، ابھی حال ہی میں پیغمبر اسلام ﷺ پر بنائے گئے اہانت آمیز فلم کی وجہ سے دنیا بھر میں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا، اس فلم کے احتجاج کے دوران کئی جانی اور مالی نقصانات ہوئیں، مسلمانوں کو سڑکو ں میں آنا پڑا، اور پہلے ہی سے کئی محاز پر دشمنوں کی سازشوں کے شکار مسلمانوں کو فلم بینی جو عام طور پر ایک تفریحی مشغلہ سمجھا جاتا ہے، ایسے پلیٹ فارم پر بھی مسلمانوں کے خلاف بھڑاس نکا لا جاتا ہے، فلموں میں خاص طور سے مسلمانوں کے بزرگوں کو ہمیشہ کسی اسمگلر یا کسی دہشت گرد تنظیم، یا کسی ڈاکوؤں کے سردار یا ولین کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، اسی طرح مسلم عورتوں کو فلموں یا تو مظلوم یا تو اسلامی تعلیمات سے نفرت کرنے والی یا اپنے شوہروں کے ظلم کا شکار مظلوم کا ہی کردار دیا جاتا ہے، مسلم نوجوانوں کو سر پر عمامہ چہرے پر داڑھی اور ایک عدد کپڑے سے چہرے کو ڈھانپ کر اور نقلی اے کے 47ہاتھ میں تھما کر انہیں دنیا بھر کے امن پسند عوام کے درمیان، دنیا میں فسادات اور بم دھماکے کرنے والے اور امن نہ چاہنے والا کردار دیکر یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ گویا دنیا کے تمام مسلمان دہشت گرد ہیں، اسی طرح مسلمانوں کے بچوں کو یا تو مفلسی کا شکار یا مظلومیت کے شکار، اور تعلیم سے نا آشنا جیسے کرداروں میں ڈھال کر دنیا میں پیش کیا جا تا ہے، ان تمام فلموں کو مسلمان یہ سمجھ کر سہہ لیتے ہیں کہ اسلام کو ان کی سازشوں سے کچھ نقصان نہیں پہنچے گا، لیکن میڈیا، فلم، ٹی وی سیریلس، اور کارٹونوں کے ذریعے کچھ شر پسند عناصر دنیا بھر میں بسنے والے کڑوروں امن پسند، اور انسانیت نواز عوام کو ان فلموں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت پیدا کرنے اور مسلمانوں اور اسلام سے دور رکھنے کی سازش میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اور آج کے اس پر فتن دور میں شر پسند عناصر اس بات کو اچھی طرح سمجھ گئے ہیں کہ سستی شہرت اور کڑوروں کی کمائی اور اپنی دشمنی نکالنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے تعلق سے متنازعہ فلم بنا دیا جائے ، اگر پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کے خلاف جتنی بھی فلم بنائی گئی ہیں،ان تمام فلموں کو اکھٹا کر لیا جائے تو اور ان فلموں میں جو مسلمانوں کے تعلق سے پیش کردہ کردار وں کو دیکھا جائے ، اور ان فلموں میں اسلام سے متعلق جو من گھڑت باتیں پیش کی گئی ہیں، اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو مسلمانوں کو پتہ چلے گا کہ ان فلموں کی وجہ سے مسلمانوں کو ان دشمن عناصر نے کتنا بڑا نقصان پہنچا یا ہے، قیاس کے طور پر نہیں یقین کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ان فلموں کی وجہ سے دنیا بھر کے مختلف مذاہب اور مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے عوام کے دلوں اور دماغوں میں مسلمانوں اور اسلام سے متعلق جو غلط فہمیاں زہریلے کانٹوں کی طرح پیوست ہو چکی ہیں، ان کانٹوں کو نکالنے کے دنیا بھر کے مسلم دانشوروں اور عالموں کو ایک صدی کا وقفہ لگ سکتا ہے، اس کے علاوہ خود مسلمان بھی جن کو اسلام کے متعلق پوری جانکاری نہیں ہوتی وہ بھی ان فلموں کو دیکھنے کے بعد ان من گھڑت کہانیوں کو حقیقت سمجھ کر احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں، ان فلموں کو دیکھنے کے بعد وہ مزید اسلام سے دور ہو جاتے ہیں، اور اسلامی شناخت کو اپنے بدن پر زیب تن کرنے اور چہرے اور سر پر رکھنے میں عار اور شرمندگی محسوس کرتے ہیں، ادھر وطن عزیز ہندوستان میں بھی جس قوم نے اس ملک کی آزادی کے لیے اپنے جان ومال کی قربانیاں دیکر اس ملک کو آزادی دلائی تھی، ان کو بھی کئی ہندی فلموں اور دیگر تمام علاقائی زبانوں میں بنائی جانے والی فلموں میں مسلمانوں کو غداروں اور گھس پیٹھیوں کے کردار میں پیش کیا جاتا ہے، ہندی فلموں کے کردار میں مسلمانوں کو پاکستان آئی ایس آئی کے ایجنٹ، دہشت گرد، جاہل، غریب، بھکاری، چور، ڈاکو، اور عورتوں کو غلام بنا کر ظلم کرنے والے ظالموں کے کردار میں پیش کیا جاتا ہے، اور سب سے بڑا مذاق یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان اس ملک میں چار چار بیویاں رکھتے ہیں، اور ان کے کئی درجن بچے بھی ہوتے ہیں، اور اسی جھوٹ کو سامنے رکھکر ہندو توا طاقتیں، ملک کے دیگر مذاہب کے معصوم عوام کو یہ کہہ کر ورغلاتی ہے کہ مسلمان اس ملک میں زیادہ سے زیادہ بچے پیدا کر کے اپنی آبادی بڑھانے کے بعد اس ملک پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، جس کا سچائی سے دور تک کا بھی تعلق نہیں ہے، اسی طرح ملک کی دیگر ریاستوں میں بنائے جانے والے مقامی زبانوں کی فلموں میں بھی مسلمانوں کے کردار ہو بہو ایسے ہی پیش کئے جاتے ہیں، تاکہ ہر ریاست میں بستے آ رہے دیگر مذاہب کے عوام اور مسلمانوں کے درمیان نفرت اور دوریوں کا ماحول ہمیشہ کے لئے بنا رہے .
کیوں اور کس لیے ہو ا تھا اس فلم کے خلاف احتجاج
گذشتہ دو مہینوں میں ریاست تمل ناڈو میں دو تمل فلموں میں مسلمانوں کی کردارکشی کے تعلق سے ریاست میں مسلمان سخت نالاں ہیں، اس ضمن میں یہاں کی تمام سیاسی و سماجی تنظیموں کی ایک فیڈریشن جو 24 تنظیموں پر مشتمل ہے، اس فیڈریشن نے پچھلے دو ماہ قبل توپپاکی نامی فلم جس میں مسلمانوں کی جم کر کردار کشی کی گئی تھی، اس فلم کے خلاف پر زور احتجاج کیا گیا، جس کے نتیجے میں تمل ناڈو حکومت نے اس معاملے میں دخل اندازی کر کے معاملے کو سلجھا لیا، اور اس فلم سے ایک حد تک قابل اعتراض مناظر کو حذف کیا گیا، اور اس فلم کے ڈائرکٹرکلائی پلی ایس تھانو اور اداکار وجئے نے میڈیا کے توسط سے مسلمانوں سے عام معافی مانگی، اس فلم کا زخم ابھی بھرا نہیں کہ ایک اور فلم وسواروبم جس کو اداکار کمل ہاسن نے خود اس فلم کی کہانی لکھ کر اس فلم کو ڈائرکٹ کیا ہے، اور اس میں انہوں نے اہم کردار بھی نبھایا ہے، اور اس فلم کو انہوں نے 25 جنوری کو ریلیز کرنے کا اعلان کر دیا تھا، اس فلم کے تعلق سے بھی ریاست کی مسلم متحدہ تنظیموں کی فیڈریشن نے کمل ہاسن سے ملاقات کر کے اس فلم کے تعلق سے اپنا شبہ کا اظہار کیا، اور کمل ہاسن اور ریاست تمل ناڈو کے داخلہ سکریٹری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فلم کو مسلمانوں کو دکھانے کے بعد ہی ریلیز کریں،اداکار کمل ہاسن نے مسلمانوں کے اس مطالبے کو پورا کرتے ہوئے 21 جنوری کور یاست تمل ناڈو کی 24 متحدہ مسلم تنظیموں کے فیڈریشن کو اس فلم کی خصوصی نمائش کا اہتمام اپنے دفتر میں کیا، اور اس فلم کو مکمل طور پر دیکھنے کے بعد اس وفد میں شامل تمام لیڈران نے کمل سے کوئی بات چیت نہیں کی اور اسی رات میڈیا کے سامنے اس فلم کے تعلق سے اپنے موقف اور برہمی کا اظہا ر کرتے ہوئے ایم ایم کے پارٹی کے رکن اسمبلی ایم ایچ جواہراللہ نے میڈیا کو بتا یا کہ ہندوستان کی تاریخ میں اس سے قبل مسلمانوں کی کردارکشی اس فلم کی طرح کسی اور فلم میں نہیں کیا گیا ہے، لہذا اگر اس فلم کو ریلیز کیا گیا تو ریاست میں نظم وضبط کے بگڑنے کے امکانات ہیں، اور اس سلسلے میں تمل ناڈو کی مسلم فیڈریشن نے 22جنوری کو چنئی پولیس کمشنر جارج سے ملاقات کر کے ان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس فلم کے ریلیز کو روکیں ورنہ ریاست میں لاء اینڈ آرڈر بگڑنے کے امکانات ہیں، اگلے دن 23جنوری کو فیڈریشن کے نمائندوں نے داخلہ سکریٹری راجا گوپال سے ملاقات کر کے اس فلم کی کہانی میں فلمائے گئے مسلم مخالف مناظر اور مکالموں کے تعلق سے تفصیلی رپورٹ پیش کیا، اور تمل ناڈو حکومت کے سامنے اس فلم پر پابندی لگانے کے لیے اقدامات اٹھانے کا مطالبہ رکھا گیا، اور اسی رات تمل ناڈو حکومت نے ریاست کے نظم وضبط کا خیال رکھتے ہوئے مذکورہ فلم کی ریلیز پر پندرہ دن کی پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دیا، جس کے بعد پابندی کے خلاف کمل ہاسن کی پروڈکشن ہاؤس کی جانب سے اڈوکیٹ بی ایس رامن نے چنئی ہائی کورٹ میں عرضی داخل کیا، عرضی کی سماعت کرتے ہوئے ہائی کورٹ جج کے ۔ وینکٹارامن نے کہا کہ اس فلم کو15 دن کی عارضی پابندی عائد نہیں کیا جاسکتا ہے، اور اس مقدمہ کا فیصلہ پر اپنا موقف کا اعلان کر دیا کہ وہ 26 جنوری کو اس فلم کو دیکھنے کے بعد ہی 28جنوری کو اس مقدمہ پر فیصلہ سنائیں گے، تمل ناڈو متحدہ مسلم فیڈریشن کے آرگنائزر اے کے ایم محمد حنیفہ نے بتا یا کہ 26جنوری کو ہائی کورٹ جج وینکٹارامن کو پرساد اسٹوڈیو میں اس فلم کو دکھایا گیا، اس موقع پر تمل ناڈو حکومت کی جانب سے اڈوکیٹ جنرل نوانیتا کرشنن، ایدیشنل اڈوکیٹ جنرل اروند پانڈین، کمل ہاسن کی جانب سے ان کے بڑے بھائی چندراہاسن، اور ان کے وکیل بی ایس رامن، اس مقدمہ میں فیڈریشن کی نمائندگی کرنے والے وکیل شنکرا سبو اور راجہ محمدسمیت پچاس افراد موجود رہے، چنئی ہائی کورٹ میں اس مقدمہ کا فیصلہ 28جنوری تک ملتوی کر دیا گیا، اور پھر جب دوبارہ یہ مقدمہ 28جنوری کو جب عدالت کے سامنے پیش ہوا تو جج وینکٹارامن نے کہا کہ فلم کے بجٹ کے تعلق سے فکر کرنے سے زیادہ ملک میں امن و امان کے ماحول کو بحال رکھنا بہت ضروری ہے ، لہذا انہوں اس کیس کی سنوائی 29 جنوری تک ملتوی کر دیا، اور اداکار کمل ہاسن کو عدالت نے مشورہ دیا کہ وہ اس معاملہ کو حکومت تمل ناڈو سے بات چیت کے ذریعے سلجھائیں ، ذرائع کے مطابق سرکاری افسران نے بات چیت کے بعد کمل ہاسن کو مشورہ دیا کہ وہ اس فلم سے ایک گھنٹے کے مناظر حذف کر کے فلم ریلیز کر سکتے ہیں،لیکن کمل ہاسن نے اس تجویز کو ماننے سے انکار کر دیا، 29 جنوری کو ہوئے اس مقدمے کی سماعت کے دوران تمل ناڈو حکومت کی جانب سے دلیل پیش کرتے ہوئے، اڈوکیٹ جنرل نو انیتا کرشنن نے کہا ہے کہ اس فلم کو سینسر بورڈ کے طرفسے دئے گئے سینسر سرٹیفیکٹ میں ضابطہ کی خلاف ورزی کی گئی ہے، اس کے متعلق تحقیقات کیا جانا چاہئے، تمل ناڈو حکومت کے اڈوکیٹ جنرل کی جانب سے ا ٹھایا جانے والا یہ سوال کافی اہمیت کا حامل ہے، کیونکہ یہاں کی مسلم تنظیمیں بھی شروع ہی سے سینسر بورڈ کی کارگردگی پر سوال اٹھا رہی تھیں، اور بورڈ کو ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں، بہر حال 29 جنوری کو اس مقدمے کی سماعت کرنے والے ایک رکنی بینچ کے جج وینکٹارامن نے اس فلم پر لگی پابندی کو ہٹانے کا فیصلہ سنا دیا، غور طلب مقام ہے کہ یہ فیصلہ تقریبا رات کے 10.15 بجے سنا یا گیا تھا، لیکن حکومت تمل ناڈو کی ہدایت پر اڈوکیٹ جنرل نوا نیتا کرشنن نے اسی رات کو جسٹس ایلیپی دھرما راؤ کی رہائش گاہ پہنچ کر ان سے اپیل کی کہ وہ اس کیس کی سماعت اگلے دن تک ملتوی کر دیں، اور اس مقدمے کی سماعت دو رکنی بینچ پرمشتمل ججوں سے کی جائے، جسٹس ایلیپی دھرماراؤ نے حکومت نے تمل ناڈو کی عرضی قبول کر کے اس مقدمے کی سماعت اگلے دن تک ملتوی کر دیا، 30 جنوری کو اس مقدمے کی سماعت دوبارہ دو رکنی بینچ کے سامنے پیش ہوئی، اور بینچ نے اس مقدمے کی سماعت کے بعد اس فلم پر 6 فروری تک پابندی لگانے کا فیصلہ سنا دیا، اس فیصلے کے دوسرے دن 31جنوری کو تمل ناڈو وزیر اعلی جئے للیتا نے ایک پریس میٹ کے ذریعے اس فلم کے تعلق سے حکومت کے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی حکومت یہ نہیں چاہتی کہ اس فلم کی وجہ سے ریاست میں لاء اینڈ آر ڈر بگڑجائے، اس کے علاوہ انہوں نے اضافی اطلاع دی کہ انہیں خفیہ ایجنسیوں کے ذریعے اطلاع ملی ہے کہ اس متنازعہ فلم کی ریلیز ہونے پر ریاست میں بڑے پیمانے پر فسادات رونما ہو سکتے ہیں، اور ریاست کے امن امان میں خلل پیدا ہونے کے امکانا ت ہیں، انہوں نے اپنے پریس میٹ کے دوران تمل ناڈو متحدہ مسلم تنظمیوں کے فیڈریشن اور کمل ہاسن کی فلم پروڈکشن ہاؤس جو اس مقدمے کی نمائندگی کر رہے ہیں، دونوں کو مشورہ دیا کہ وہ اس معاملہ کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے کی کو شش کریں، اور انہوں نے اس معاملہ میں حکومت کی طرفسے ثالثی کردار نبھانے کا یقین دلا یا، وزیر اعلی کے اس مشور ے کا دونوں فریقین نے خیر مقدم کیا، اور طئے کیا گیا کہ 1 فروری کو سہ فریقی بات چیت کے ذریعے اس معاملے کو سلجھا لیا جائے گا، 1 فروری کو داخلہ سکریٹری راجاگوپال، چنئی پولیس کمشنر، فیڈریشن سے 15رکنی ٹیم جس میں ایم ایم کے ، ایس ڈی پی آئی، آئی این ٹی جے، ٹی این ٹی جے، پاپولرفرنٹ آف انڈیا کے لیڈران اور کمل ہاسن کی جانب سے ان کے بڑے بھائی چندرا ہاسن، پر ڈیوسر شمنوگم نے دو مرحلو ں میں بات چیت کی، لیکن 1 فروری کو بھی یہ معاملہ نہیں سلجھ سکا، فیڈریشن نے اس بات کے دوران یہ کہہ کر بات چیت کو ختم کر دیا کہ وہ اس فلم سے قابل اعتراض مناظر حذف کرنے کے لیے اداکار کمل ہاسن سے ہی ملاقات کریں گے، چونکہ اسی فلم ریلیز کرنے کے تعلق سے کمل ہاسن ممبئی میں تھے، لہذا طئے پا یا کہ ان کے آنے کے بعد ہی دوبارہ سہ فریقی مذا کرہ کا انعقا د کیا جائے گا، 2 فروری کو ممبئی سے کمل ہاسن چنئی پہنچے، اور اسی دن شام 6 بجے حتمی نشست کا اہتمام کیا گیا، اس مذا کرے کے دوران فیڈریشن کے وفد نے اس فلم میں تقریبا 14 قابل اعترا ض مناظر کی نشاندہی کی، جس کے نتیجے میں کمل ہاسن کی جانب سے درخواست کیا گیا کہ وہ اس فلم سے 7 مناظر مکمل طور پر حذف کر دیں گے، اور بقیہ جگہوں پر بولے جانے مکالموں میں بیک گروائنڈ آواز کو بند رکھا جائے گا، اس کے علاوہ اہم اور خاص طور پر فلم میں شروع میں دکھایا جانا والا اسکرین منظر جس میں لکھا ہوا تھا کہ ' اس فلم کی کہانی حقیقت پر مبنی ہے ، اس پر فیڈریشن نے سخت اعتراض کیا تھا، اس کو کمل ہاسن نے بدل دیا،اور اس کی جگہ یہ دکھانے کی رضامندی ظاہر کی کہ ' اس فلم کی کہانی فرضی اور تحیل پر مبنی ہے ' ، جس کے بعد فیڈریشن نے اپنی طرفسے مطمئن ہونے کا اعلان کر دیا، اور فیڈریشن نے کمل ہاسن سے فلم میں حذف کرنے والے مناظر کے تعلق سے ایک کمل ہاسن سے تحریری اقرار نامہ اور معاہد ہ میں دستخط بھی حاصل کر لیا، اور کمل ہاسن نے بھی اس سہ فریقی بات چیت کی کامیابی کے بعد اعلان کیا کہ وہ عدالت سے اس مقدمہ کو واپس لے لیں گے، اور فیڈریشن نے بھی اس فلم کے خلاف اپنے تمام مزاحمتی احتجاج کو واپس لینے کا اعلان کر دیا، اور فیڈریشن نے حکومت تمل ناڈو کا شکریہ کیا کہ انہوں نے اس معاملہ میں بروقت مداخلت کر کے اس معاملہ کو سلجھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، واضح رہے کہ اس فلم کے تعلق سے سب سے پہلے ریاست تمل ناڈو میں ہی مخالفت شروع ہوئی تھی، کیونکہ اس فلم میں تمل ناڈو کے مسلمانوں اور ریاست کے مسلم علاقوں کو افغانستان کے طالبان کے صدر ملا محمد عمر سے جوڑا گیا ہے، اور اس فلم میں ایسے مناظر فلمائے گئے ہیں ، جس سے مسلمانوں کی تشخص پر دیگر اقواموں کے ذہنوں میں شک و شبہات اور دلوں میں نفرت پیدا ہونے کے صد فی صد امکانات ہیں، موصول اطلاعات کے مطابق ملیشاء اور دیگر کئی خلیجی ممالک میں اس فلم پر پابندی لگائی گئی ہے، اور ہندوستان میں بھی مسلم تنظیموں کے احتجاجات کی بنیاد پر کئی ریاستوں میں اس فلم پر عارضی پابندی لگائی گئی تھی، واضح رہے کہ اس فلم کے خلاف تمل ناڈو کے علاوہ کیرلا، پدوچیری، کرناٹک، اور حیدر آباد میں بھی مظاہرے ہوئے ہیں، جس میں پاپولر فرنٹ آف انڈیا، سوشیل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا، اور دیگر علاقائی سطح کی تنظیموں کے کارکنا ن نے بھی پر زور احتجاج کیا ہے، اور ان ریاستوں میں بھی اس فلم پر فی الحال پابندی لگی ہوئی ہے، اس کے علاوہ موئمنٹ فار سول رائٹس نامی مسلم تنظیموں اور لیڈروں پر مشتمل فیڈریشن نے بھی وزیرا عظم من موہن سنگھ، مرکزی وزیر برائے اطلاعات و نشریات منیش تیواری، وزیر اعلی شیلا ڈکشھت، کو روانہ کئے گئے ایک مکتوب میں اس فلم کو ملک بھر میں پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے ،اس مکتوب میں مجلس مشاورت سے ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، شاہی امام ڈاکٹر مفتی مکرم احمد، پی ایف آئی سے انصار الحق،، ایس ڈی پی آئی سے حافظ منصور علی خان، سی ایف آئی سے انیس الزماں، آل انڈیا امامس کونسل سے مولانا عثمان بیگ،آل انڈیا اصلاحی موئمنٹ سے مولانا عبدا لوہاب خلجی، ڈاکٹر بشیر محمد خان، انڈین یونین مسلم لیگ، ڈاکٹر تسلیم رحمانی،مسلم پولیٹکل کونسل، مولانا انصار رضا غریب نواز فاؤنڈیشن، سمیت کئی اہم لیڈران نے دستخط کیا ہے، موئمنٹ فار سول رائٹس نے مطالبہ کیا ہے کہ اس فلم کو ہندی، تمل اور تلگو میں زبانوں میں اور ڈی ڈی ایچ کے ذریعے اس فلم کی ریلیز پر پابندی لگانا چاہئے، دیگر صورت میں اس فلم کے خلاف جمہوری انداز میں اس فلم پر پابندی لگنے تک احتجاجات جاری رکھا جائے گا۔
سینسر بورڈ کی کارگردگی پر سوالیہ نشان اور سینسربورڈ کو ریگولیٹ کرنے کا مطالبہ
ہندوستانی سنیما کے سو سال مکمل ہو چکے ہیں، لیکن ان سو سالوں کا جائزہ لیا جائے تو، فلموں میں مسلمانوں کے تعلق سے پیش کی جانی والی فلمی کہانیاں اور مناظر کس حد تک مسلمانوں کی کردارکشی کا رول ادا کرتی آ رہی ہیں، اور ایسی چند فلموں سے مسلمانوں کے تعلق سے ملک بھر میں جو عام رائے قائم ہوئی ہے ،وہ بحث ومباحثہ کے قابل ما نا جا رہا ہے ، اس کی وجہ سے سینسر بورڈ کے کارگردگی پر سوالیہ نشان لگا ہوا ہے، اور سینسر بورڈ کی کارگردگیوں کی اصلاح کرنے کا مطالبہ ملک کے ہر گوشے سے اٹھ رہا ہے، پاپولر فرنٹ آف انڈیا نے ان فلموں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ سن 1990 سے مسلمانوں کو ذہنی طور پر مجرم ثابت کرنے کی سازشوں کا آغاز کیا گیا تھا، بعد کے دس سالوں میں اسرائیل اور امریکی اشتراکیت سے ایک منظم سازش کے تحت 9/11 امریکی ٹوئن ٹاور پر ہوئے حملے کے ردعمل کے طور پر امریکہ نے (War On Terror) کے نام پر افغانستان پر حملہ کیا، امن و سلامتی کا پیغام دینے والے مذہب اسلام پر دہشت گردی کا مہر لگا کر دنیا کے سامنے پیش کیا، اور اس سازش کو ایک مہم کی شکل دیکر دنیا بھر میں اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے میں امریکہ اور اسرئیل نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، امریکہ اور اسرائیل کے اس جھوٹے پروپگنڈے کو ملک کے چند شر پسند عناصر نے ممکن حد تک امریکی اور اسرئیلی پروپگنڈے کا ساتھ دیا ہے ، جس کی وجہ سے اس ملک میں بسنے والے مسلمانوں کے عام سماجی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوئے اور اس نفرت بھرے پروپگنڈے کی بنیاد پر مسلمانوں کو ذہنی طور پر مفلوجاور دلوں کو زخمی کیا گیا،اور یہ سلسلہ ابھی تک بلا روک ٹوک جاری و ساری ہے، پچھلے 20سال سے فلموں کے ذریعے مسلم دشمنی اور نفرت کو بڑھاوا دینے میں سینسر بورڈ کا مددگار ومعاون ہونا، پچھلے بیس سال کے ریکارڈس کے ذریعے معلوم کیا جاسکتا ہے،اس کے علاوہ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ پہلے پہل فلموں میں صرف دو ہی کردار ہوا کرتے تھے، ایک ہیرو کا کردار اور دوسرا ویلن کا کردار، لیکن پچھلے بیس سالوں میں اس کو بدل کر ایک ہیرو اور ایک دہشت گرد کے طور پر کرداروں کو تبدیل کر دیا گیا ہے، پہلے پہل یہ کہا گیا کہ تمام مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں، اور پھر یہ کہا گیا کہ ہر ایک دہشت گرد صرف مسلمان ہی ہے، لیکن اب یہ کہا اور دکھا یا جا رہا ہے کہ تمام مسلمان دہشت گرد اور انتہا پسند ہیں، ہندوستان میں امن و بھائی چارگی کے ساتھ رہتے آ رہے ہندو مسلم اقوام کے درمیان نفرت کی دیوار کھڑی کرنے کے لیے غلط اور نفرت انگیز پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے، اور اسی منشاء پر ہندوستانی فلمیں اور سینسر بورڈ عمل کرتی نظر آ رہی ہیں، جہاں تک سینسر بورڈ کے فرائض اور ذمہ داریوں کا سوال ہے ،سینسر بورڈ مرکزی حکومت کے وزرات اطلاعات و نشریات کے زیر نگراں چلائے جانے والا ایک محکمہ ہے، اور سنیما عوام کے لیے ایک صحت مند تفریح کا ذریعہ ہے، سینسر بورڈ کے قیام کے مقاصد میں جو اہم مقصد ہے وہ یہ ہے کہ سینسر بورڈ ایسے فلموں کو ہی سینسر سرٹیفیکٹ دے، جن فلموں کے ذریعے عوام کوتفریح اور دلی تسکین حاصل ہو، اور اس کے علاوہ سماجی بدلاؤ میں اہم کردار ادا کرنے والی فلموں کو بڑھاوا دینا بھی سینسر بورڈ کے مقاصد میں شامل ہے، اس کے علاوہ مرکزی حکومت نے سینسر بورڈ کے ممبران کی رہنمائی کے لیے کئی ہدایات پر عمل کرنے پر پابند کر رکھا ہے، جس میں سب سے پہلے سینسر بورڈ کو ہدایت دی گئی ہے کہ بورڈ فلموں میں بولے جانے والے مکالمے اور دکھائے جانے والے مناظر سے اگر کسی کے مذہب جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہیں اور ان مناظر سے امن و امان میں خلل پیدا ہونے کے امکانات ہوں تو ان مکالموں اور مناظر کو فلم سے حذف کرنے کا مکمل اختیار سینسر بورڈ کوحاصل ہے، اگر بات صرف تمل ناڈو کے حد تک کی جائے تو تمل فلم سازوں نے تمل فلموں میں مسلمانوں کی کردار کشی کر کے بہت سی فلمیں بنا ئی ہیں، سن1992میں فلم ڈائرکٹر منی رتھنم میں کشمیر کے تعلق سے روجا نامی فلم بنائی تھی، اور پھر دوبارہ انہوں نے سن 1993میں ممبئی فسادات پر بامبئی نامی فلم بنائی تھی، جس میں مسلمانوں کی کردار کشی میں کسی طرح کی کمی نہیں تھی، اسی روش پر دیگر تمل اداکار ارجن، اور اداکار وجئے کانت کی تمل فلمیں اوٹرن اور وللورسو، نامی فلمیں بھی بنائی گئیں تھیں، ان فلموں میں مسلمانوں کو غدار وطن اور دہشت گرد کے طور پر دکھایا گیا ہے، جبکے دیکھا گیا ہے کہ ماضی میں سینسر بورڈ نے فلموں میں صرف ایسے مکالموں کو نکال پھینکا ہے، جن مکالموں کے سننے سے صرف کراہت محسوس ہوتی ہو، لیکن سینسر بورڈ مسلمانوں کو دہشت گرد کے طور پر پیش کرنے والے مناظر اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے والے مکالموں کو کیوں نہیں نکالتی ہے ؟ یہی ایک ایسا سوال ہے ، جس کے جواب کا ملک کے تمام مسلمان انتظار کر رہے ہیں، فلموں میں جانباز ہیرو کا کردار ادا کر کے فرضی مسلم دہشت گردی کا خاتمہ کرنے والوں پر سینسر بورڈ کی نظر کیوں نہیں جاتی ہے ؟ فلم ساز جب اپنی فلم سینسر بورڈ کو بھیجتے ہیں تو ساتھ میں ایک عرضی بھی روانہ کرتے ہیں، جس میں فلم ساز وں کو یہ اقرار نامہ دیا جا نا ضروری ہے کہ ان کی بنائی ہوئی فلم کے شوٹنگ کے دوران فلم میں استعمال کئے گئے کسی بھی جانور کو کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا یا گیا ہے، فلم شوٹنگ کے دوران جانوروں کو کسی قسم کے نقصان پہنچنے پر اعتراض کرنے والی سینسر بورڈ اس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں بسنے والے مسلمانوں اور مذہب اسلام کے خلاف بنائے جانے والے فلموں، اور ان فلموں میں مسلمانوں کو دہشت گرد، مجرم قوم اور غدار وطن کے طور پر دکھانے کی کیسے اجازت دے دیتی ہے ؟ سینسر بورڈ کی ذمہ داری ہے کہ فلموں کے تعلق سے مرکزی حکومت کے محکمہ اطلاعات و نشریات کے ایک قانون
(Public Reactions of Films Assessment of ) کے تحت فلم سازوں کو قومی رہنما اور نمائندوں کو بلا کرسمینار اور نمائش کا اہتما م کر کے ان فلموں کے تعلق سے بحث و مباحثہ کرنا چاہئے، اس کے علاوہ ملک میں بنائے جانے والے فلموں سے سماج میں جومنفی اور مثبت تبدیلیاں یا اثرات مرتب ہوئے ہیں، اس پر بھی علاقائی اور ملکی سطح پر تجزیہ کر کے رپورٹ تیار کرنا چاہئے، لیکن سینسر بورڈ اس قانون پر عمل نہیں کرتی ہے ، جس کی وجہ سے فلم سازبھی اس طرح کے فلمیں اٹھا نے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں ، پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ضابطوں کے مطابق ایک فلم کو سینسر سرٹیفیکٹ دئے جانے کے بعد اس سرٹیفیکٹ کی مدت 10 سال تک ہی Validرہتی ہے، اور فلم ساز کو دوبارہ اپنے فلم کو نئے سرے سے سینسر بورڈ بھیج کر سرٹیفیکٹ حاصل کرنا ہوتا ہے، اور سینسر بورڈ بھی اس فلم کو دوبارہ دیکھنے کے بعد ہی سرٹیفیکیٹ دینے کا اختیار حاصل ہے ،فلم روجا، اوٹرن، وللورسو، توپپاکی اور دیگر اس طرح کے فلمیں جب دوبارہ سینسر بورڈ کے سامنے آئیں تو سینسر بورڈ ان فلموں میں سے قابل اعتراض مناظر اور مکالموں کو حذف کریں، اور اس ضمن میں تمل ناڈو کی متحدہ مسلم تنظیموں کی فیڈریشن نے سینسر بورڈ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ مستقبل میں صرف مسلمانوں کے جذبات کا نہیں بلکہ اس ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے جذبات کا خیال رکھیں، اور قانونی دائرے میں رہکر اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کوانجام دیں .اس کے علاوہ خصوصی طور پرتمل ناڈو کے مسلم تنظیموں کی متحدہ فیڈریشن نے ریاستی حکومت اور مرکزی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ سینسر بورڈ میں مخلص افراد اور دانشوروں کی تقرر ی کرے، اور خاص طور پر سینسر بورڈ ممبران میں سیاست سے جڑے ہوئے افراد کو شامل نہ کیا جائے، فیڈریشن کا مطالبہ ہے کہ جس طرح عدالتوں میں ججوں کو تقرر کیا جاتا ہے، بالکل اسی طرح سینسر بورڈ کے ذمہ داران کو بھی منتخب کرنا چاہئے، تب جا کر ہی سینسر بورڈ سے مستقبل آئند میں ایسی غلطیاں دہرائی نہیں جائیں گی، اور محض تفریح کے لیے بنائے جانے والے فلموں کی وجہ سے ملک میں امن ا مان اور بھائی چارگی کے ماحول میں خلل نہ پیدا ہو جائے ۔

مجاہد فانمی
mujahidfanami[@]gmail.com

Character assassination of Muslims in movies - A question mark on censor board - Article: Mujahid Fanami

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں