ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:10 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-06

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:10


اس کے قدیم اپنی جگہ جم کر رہ گئے۔ کیونکہ اس چبوترے کے قریب ہی شانتا فرش پر بے ہوش پڑی ہوئی تھی۔ ونود تیزی سے شانتا کی طرف لپکا اور اس نے شانتا کو اپنے ہاتھوں پر اٹھالیا۔ پندرہ منٹ کے اندر وہ شانتا کا ہوش واپس لانے میں کامیاب ہوچکا تھا۔ شانتا کی آنکھ کھلی تو وہ اپنے کمرے میں اپنے پلنگ پر لیٹی ہوئی تھی۔ وہ اس وقت برسوں کی بیمار معلوم ہورہی تھی۔ اس کے چہرے کی ساری شادابی اور شگفتگی ختم ہوچکی تھی۔ سرخ رنگ سفید رنگ میں تبدیل ہوچکا تھا۔ ہونٹ خشک تھے اور آنکھیں ویران ہوچکی تھیں۔ ہوش میں آنے کے بعد اس نے بڑی آہستہ بلکہ تقریباً مردہ آواز میں ونود سے کہا "تم نے مجھ سے جھوٹ کیوں بولا"۔ "میں نے کوئی جھوٹ نہیں بولا شانتا۔۔۔"ونود نے کہا۔ "صرف میں نے تم سے کچھ باتیں چھپائی تھیں لیکن سب سے پہلے تم یہ بتاؤ کہ تم تہہ خانے میں کیسے پہنچیں؟"۔ "میرا دل کانپ رہا ہے ونود۔۔۔" شانتا نے بڑے مایوس لہجے میں کہا "وہ مجھے زبردستی اس تہہ خانے میں لے گیا تھا"۔ "کون لے گیا تھا۔۔۔" ونود نے حیرت سے پوچھا۔ "وہی جو اس حویلی میں رہتا ہے اور جو مجھے اپنی بیوی سمجھتا ہے"۔ شانتا نے جواب دیا۔ "کون رہتا ہے۔۔۔" ونود مجسم حیرت بن گیا۔ "میں تم سے بتا چکی ہوں کہ مجھے ایک آدمی کی آواز سنائی دیتی رہتی ہے"۔ شانتانے کہا "یہی آواز آج بھی مجھے مقناطیس کی طرح گھسیٹ کر اس تہہ خانے میں لے گئی"۔ "کیا تم نے اس آدمی کو دیکھا"۔ نہیں۔۔۔۔ شانتا نے جواب دیا۔ میں نے صرف اس کی آواز سنی ہے۔ وہ مجھے اب تک نظر نہیں آیا ہے"۔ "تہہ خانے میں تم پر کیا بیتی۔" ونود نے پوچھا۔ "میں کسی جادوائی اثر سے تہہ خانے پہنچ گئی ونود۔ وہاں میں نے چمگاڈریں اڑتے دیکھیں لیکن مجھے دیکھتے ہی جیسے ان چمگاڈروں کو سانپ سونگھ گیا۔ وہ بالکل خاموش ہوگئیں اور پھر میں خود بخود ایک چبوترے کے پاس پہنچ گئی جس پر ہڈیوں کا ایک پنجر پڑا تھا میں ایک زندہ بت کی طرح اس پنجر کو دیکھنے لگی اور پھر" "اور پھر کیا ہوا۔" ونود نے بے چین ہوکر پوچھا۔ "اور پھر۔ میں دوبارہ اسی آدمی کی آواز سننے لگی۔ یہ آواز مجھ سے کہنے لگی۔ تم آگئیں تو مجھے اپنی دنیا مل گئی۔ آج تم میرے بالکل قریب ہو، آج تم نے مجھے میری کھوئی ہوئی جنت واپس دلادی ہے۔ آج تم نے مجھے جو خوشی دی ہے وہ مجھے صدیوں سے نہیں مل تھی۔ میں چبوترے کے پاس کھڑی رہی اور مجھ پر ایک ستکہ سا طاری رہا اور پھر ۔ میں ایک چیخ مار کر بیہوش ہوگئی اس کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں اپنے بستر پر پڑی تھی اور تم میرے سامنے بیٹھے ۔" "اس آواز نے تمہیں اپنا نام بتایا۔" ونود نے پوچھا۔ "نہیں۔ "شانتا میں مری ہوئی آواز میں جواب دیا"لیکن وہ مجھے اپنی بیوی کہتا ہے، اور ونود میں سچ کہتی ہوں وہ بھوت ہے۔ اس حویلی کا مرد بھو۔ یہ حویلی چھوڑ دو ونو، یہ حویلی بھوتوں کا مسکن ہے۔" "نہیں شانتا۔،ونود نے جواب دیا۔ "میں یہ حویلی نہیں چھوڑوں گا۔ میں مانتا ہوں کہ یہ حویلی بھوتوں کا مسکن ہے لیکن یہ بھی تو سوچو کہ یہ بھوت ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچاتے"۔ "لیکن یہ بھوت ہماری زندگی کا سکون درہم برہم کررہے ہیں ونود"۔ "تم مت گھبراؤ شانتا۔ "ونود نے جواب دیا "میں ان بھوتوں کے وجود سے اس حویلی کو بالکل پاک کردوں گا"۔ "کیسے پاک کردوگے"۔شانتا نے پوچھا۔ "یہ روحیں کسی الجھن کا شکار ہیں ان روحوں کے کچھ کام ادھورے رہ گئے ہیں ان روحوں کی کچھ تمنائیں باقی رہ گئی ہیں اور یہ اسی لئے بھٹک رہی ہیں جیسے ہی ان کو ملکوں پہنچادوں گا ان کے وجود سے یہ حویلی پاک ہوجائے گی"۔ ونود نے اتنا کہنے کے بعد شانتا کو اپنی اور شاتو کی ملاقات کی داستان بھی سنادی۔ اس نے کہا "یہ کتنا دلچسپ اتفاق ہے کہ اس حویلی میں رہنے والی عورت کی روح مجھے اپنا محبوب کہتی ہے اور اس حویلی میں بھٹکنے والی مرد روح تمہیں اپنی بیوی کہتی ہے۔ ایک کا نام شاتو ہے اور دوسرے کا نام ہمیں ابھی تک نہیں معلوم ہوسکا"۔ ابھی ونود کچھ اور کہنا چا ہتا تھا کہ کالکا نے آکر کہا "پروفیسر تارک ناتھ آگئے ہیں"۔ تارک ناتھ کی آمد کی خبر سنتے ہی ونود کو ایک اطمینان سا ہوگیا۔ اس نے کالکا سے کہا "تم یہاں شانتا کے پاس موجود رہوگے کالکا۔ اور ایک منٹ کیلئے بھی اس کمرے سے باہر نہیں جاؤگے۔" ونود اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکلا۔ باہر پورٹیکو میں پروفیسر تارک ناتھ موجود تھے۔ انہوں نے ونود کو دیکھتے ہی کہا : "میں نے آپ کی دی ہوئی کتاب کا مطالعہ کرلیا ہے۔ مسٹر ونود"۔ "لیکن میں آپ کو ایک اور کتاب سنانے والا ہوں۔ ونود نے ایک مردہ مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ "کیسی کتاب؟" پروفیسر نے حیرت سے پوچھا "کیا آپ کو کوئی دوسری کتاب بھی مل گئی ہے"۔ "نہیں پروفیسر صاحب"۔ ونود نے جواب دیا"کتاب نہیں ملی ہے لیکن حویلی کی داستان نے ایک بالکل نئی کروٹ لے لی ہے۔ آپ اطمینان سے کمرے میں بیٹھیں میں آپ کو ابھی اس کہانی کا یہ دلچسپ باب سنادوں گا"۔جلد ہی ونود نے پروفیسر کے رہنے کیلئے حویلی کے اس کمرے میں انتظام کردیا جو اس کے رہائشی کمرے کے بالکل متصل تھا اس اثناء اس نے ایک مرتبہ پھر شانتا کو جاکر دیکھا وہ بدستور سکتے کے عالم میں بستر پر نڈھال پڑی تھی۔ شانتا کے اعصاب پر حویلی کے واقعات نے بہت برا اثر ڈالا تھا۔ اب رات کی تاریکی چاروں طرف پھیلی تھی۔ حویلی پر موت کا ساسکوت طاری تھا۔ چاروں طرف ایک ہولناک خاموشی پھیلی ہوئی تھی۔ باہر ہوا کے تیز تھپیڑوں سے درختوں کی پتیاں کبھی کبھی اس طرح شور مچانے لگتیں جیسے ایک ساتھ بہت سے درندوں نے چیخنا شروع کردیاہو۔ یہ آوازیں اتنی دردناک معلوم ہوتی تھیں کہ سننے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے تھے۔ ماحول ایسا تھا کہ یہ گمان ہورہا تھا کہ آج رات کو آسمان سے بلائیں اترآئی ہیں۔ اس ماحول میں سب سے زیادہ پر اسرار شاتو کا مجسمہ معلوم ہورہا تھا جو اپنی مخصوص ادا کے ساتھ فوارے کے چبوترے پر پڑی دل ربائی کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ ونود کا اضطرات لمحہ بہ لمحہ بڑھتا ہی جارہا تھا۔ اس کے دل میں یہ تصور کرکے ہی دل ہول اٹھنے لگتا تھا کہ اس کی شانتا کی دعوے دار ایک روح ہوگئی ہے۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اب تک اس کا سابقہ صرف ایک بت سے تھا۔ صرف ایک عورت کی غم نصیب روح سے تھا لیکن اب اس کا مقابلہ ایک مرد کی روح سے بھی ہوگیا تھا اور اسے کوئی اندازہ نہیں تھاکہ یہ روح اچھی ہے یا بری۔ رات کو تقریباً نو بجے وہ پروفیسر تارک ناتھ کے کمرے میں آیا۔ پروفیسر صاحب خیالوں کی دنیا میں بالکل کھوئے بیٹھے تھے۔ ونود کو دیکھتے ہی ایک بڑی سنجیدہ مسکراہٹ ان کے لبوں پر پھیل گئی۔ انہوں نے کہا "میں آپ کا ہی انتظار دیکھ رہا تھا" "میں خود آپ سے باتیں کرنے کیلئے بیتاب تھا اور اس کا انتظار ہی کررہا تھا کہ آپ کھانے سے فارغ ہوجائیں تو اپ کے پاس آجاؤں"۔ ونود نے کہا۔ "آپ سب سے پہلے مجھے اپنی نئی کتاب سنادیجئے"۔ پروفیسر نے اتنا کہنے کے بعد سگریٹ سلگالی اور آرام سے پیر پھیلاکر بیٹھ گئے۔ ونود نے تفصیل سے پروفیسر کو اب تک کے واقعات سنادئیے اور کہا "میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ مرد روح کس کی ہوسکتی ہے"۔ "میرا خیال ہے کہ یہ روح راج کمار وشونت سنگھ کی ہوسکتی ہے"۔ پروفیسر نے کچھ سوچ کر کہا۔ وہ اتنا کہہ کر ونود کی طرف غور سے دیکھنے لگے۔ "لیکن آپ کے اس خیال کی بنیاد کیا ہے"۔ ونود نے پوچھا۔ "وہ کہانی جو اس قدیم کتاب میں لکھی ہوئی ہے"۔ "آپ کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ یہ روح شاتو کے باپ کی ہے"۔ ونود نے کہا۔ "ہاں۔۔۔۔"پروفیسر نے کہا۔ "اور اس جملہ کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے"۔ "کون سا جملہ۔۔۔۔" پروفیسر نے پوچھا۔ "وہی جو شاتو کی روح اپنی داستان سنانے کے دوران کہتی ہے"۔ مار ڈالو۔ مارڈالو" اور پھر نہ صرف یہ کہ اپنی داستان نامکمل چھوڑ دیتی ہے بلکہ اس جملہ کے ساتھ ہی اس کا وجود بھی غائب ہوجاتاہے"۔ "اس سلسلے میں یہ کتاب بالکل خاموش ہے۔ لیکن میراخیال ہے کہ جب وہ آپ کے پاس موجود ہوتی ہے اور اپنی داستان سناتی ہوتی ہے تو اسے کوئی اور دشمن روح نظر آجاتی ہے اور وہ دیوانوں کی طرح چیخنے لگتی ہے"۔ "پروفیسر صاحب ۔۔۔"ونود نے ایک ٹھنڈی سانس لے کر کہا "میں تھگ گیا ہوں آپ مجھے مشورہ دیں کہ میں کیا کروں؟ شانتا کہتی ہے میں یہ حویلی چھوڑدوں، مجھے یہ بتائیے کہ کیا میں اس کے مشورے پر عمل کرلوں"۔ "میرے خیال میں اگر آپ یہ حویلی چھوڑ بھی دیں گے تب بھی آپ کی الجھنیں باقی رہیں گی مسٹر ونود۔۔۔۔ کیونکہ آپ آواگون کے پھیر میں پڑگئے ہیں"۔ پروفیسر نے بھی یہ جملہ پورا ہی کیا تھا کہ ان کمرے کا بند درواز خود بخود کھل گیا۔ پروفیسر اور ونود دونوں چونک پڑے۔ دوسرے ہی لمحہ کمرے میں ایک آواز گونجی "چاچا جی۔۔۔۔آخر تم میرے جال میں آہی گئے"۔ ونود نے آوازپہچان لی۔ یہ آواز شاتو کی تھی اور شاتو نے یہ جملہ یقینا پروفیسر ناتھ کو مخالف کرکے کہا تھا۔ تو۔۔۔کیا پروفیسر تارک ناتھ کے جسم میں راجہ بلونت سنگھ کی روح موجود تھی؟ ونود نے فوراً سوچا کیوں کہ کمرے میں اس کے اور پروفیسر کے علاوہ کوئی تیسرا موجود نہیں تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ پروفیسر تارک ناتھ پر کیا گزری؟ شانتا کا سابقہ شوہر کون تھا؟ حویلی کا بت روزانہ رات کو زندہ کیوں ہوجاتا تھا یہ جاننے کیلئے انتظار کریں۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:10

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں