بنگلور شہر کی شاہراہوں پر روزانہ ٹریفک اژدہام - ٹریفک پولیس لاچار - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-15

بنگلور شہر کی شاہراہوں پر روزانہ ٹریفک اژدہام - ٹریفک پولیس لاچار

بنگلور شہر کی شاہراہوں پر روزانہ 44.53 لاکھ گاڑیاں دوڑتی ہیں، ٹرافک پولیس لاچار
ٹرافک نظام درہم برہم ،حالات پر قابو پانے کے لیے لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت

بنگلور شہر کے 10آر ٹی او دفاتر میں روزانہ تقریبا ایک ہزار نئی گاڑیوں کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔جس میں کاروں کی تعداد 300 کے آس پاس ہے، جس کی وجہ شہر کے سڑکوں کا منظر نامہ کچھ اس طرح ہوگیا ہے کہ شہر کے ٹرافک پولیس اہلکار کے لیے شہر کی رینگتی ہوئی ٹرافک کو کنٹرول کرنا محال ہوگیا ہے۔ شہر کے تمام شاہراہیں ٹو وہیلرس ، کاروں اور ایس یو وی سے بھری پڑی ہے۔ جس سے ہر کوئی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ شہر کی ٹرافک پولیس اہلکار کتنے لاچار ہونگے، واضح رہے کہ بنگلور شہر کی سڑکوں پر روزانہ 44.53 لاکھ گاڑیاں دوڑتی ہیں۔ بنگلور شہر کی سڑکو ں پر بڑھتی ہوئی موٹر گاڑیوں کی تعداد پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے شہر کے اڈیشنل کمشنر آف پولیس ( ٹرافک اور سیکورٹی ) ایم اے سلیم نے کہا ہے کہ کار آج ہر ایک لیے اپنی حیثیت کی علامت بن گیا ہے ،بنگلور شہر کی سڑکوں میں دیکھا گیا ہے کہ موٹر سوار ، کارسوار میں تبدیل ہورہے ہیں، اور کار سوار SUVسوار بن گئے ہیں، شہر کی بڑھتے ہوئے ٹرافک کنٹرول کی ذمہ داری نبھارہے کمشنر کا کہنا ہے کہ اگر شہر میں میٹورو کا کام مکمل بھی ہو گیا تو اس کی وجہ سے شہر کی اہم سڑکوں سے صرف 10تا 20 فی صد گاڑیاں ہی سڑکوں سے دور رہیں گی ۔بنگلور شہر میں تقریبا 11ہزار کلومیٹر کی مسافت والے سڑکوں ، 44چوراہوںاور343سگنل جنکشن،ان تمام کی ٹرافک کو سنبھالنے کے لیے بنگلور شہر میں صرف 2,839پولیس اہلکار اور افسران تعینات ہیں، اور شہر میں 636عہدے خالی پڑے ہیں، بنگلور شہر کی بڑھتی ہوئی ٹرافک کا سامنا کرتے ہوئے، اے سی پی سلیم نے ضلع کی مرکزی کاروبار شہربنگلور کے سڑکوں میں بھیڑ کو کم کرنے کے لیے بہتر نظام وضع کیا ہے۔انہوں نے شہر میں موجود 168 ون وے سڑکوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ون وے کی وجہ سے جنکشن میں موٹر سواروں کا جو وقت بربا د ہوتا ہے، اسے بچا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ شہر کے گھروں میں ایک سے زیادہ کاریں اور موٹر گاڑیوں کا استعمال عروج پر ہے۔اور شہر یوں کی بڑھتی ہوئی آمدنی اور گاڑیوں کے لیے ملنے والے آسان قرضہ جات کی بنا پر گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوناکوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔وہ نوجوان جن کی عمر اٹھارہ سال مکمل ہوجاتی ہے وہ بائک خرید لیتے ہیں، اور وہ جب ملازمت کرنا شروع کردیتے ہیں تو وہ کار خرید لیتے ہیں، جس سے لازمی طور پر شہر کی سڑکوں میں گاڑیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا جارہا ہے۔ جس پر روک لگانا ناممکن ہے، اے سی پی سلیم کا ماننا ہے کہ اگر شہر کے آر ٹی او ، دفتروں میں موٹر گاڑیوں کی رجسٹریشن پر اگر پابندی بھی عائد کی گئی توپھر بھی عوام کولار اور ٹمکور آر ٹی او، دفاترسے اپنی گاڑیوں کو رجسٹریشن کروالیں گے۔سینٹر فار انفرا سٹرکچر CiSTUPکے ایک سروے کے مطابق ٹو ویلرسواروں کا فور ویلر گاڑیاں خریدنے کا رجحان سب سے زیادہ سال 2008اورسال 2011کے درمیان رونما ہوا ہے۔اس مدت کے دوران ٹو وہیلرکے اضافوں کی شرح سالانہ اوسطا 5.5فی صد رہا ہے۔ جبکہ کاروں کی تعداد میں 12فی صد کا اضافہ ہوا ہے۔اسی مدت کے دوران ٹو وہیلروں کی تعداد میں تقریبا 69تا 71فی صد کی کمی آئی ہے۔اور کاروں اور جیپوں کی تعداد میں 16فی صد سے بڑھکر 19فی صد تک پہنچ گیا ہے، اور سروے کے مطابق مذکورہ رجحان میں مسلسل اضافہ ہوا ہے۔سروے کے مطابق اندازہ لگا یا گیا ہے کہ سال 2020تک بنگلور شہر کے سڑکو ں میں 72لاکھ گاڑیاں دوڑیں گی۔جس سے بنگلور شہر میں ٹرافک کی کثافت بہت حد تک بڑھ جائے گی۔ذاتی موٹر گاڑیوں کی تعداد میں کمی لانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ بسوں کی کارگردگی اور تعداد بڑھانا ہی بہتر اور متبادل راستہ ہے۔ لیکن عوام ان پبلک ٹرانسپورٹ بسوں کا استعمال نہیں کر رہے ہیں۔البتہ والو گاڑیوںکا استعمال خصوصی طور پر ایلکٹرانک سٹی، وہائٹ فیلڈ، اور سی بی ڈی کے درمیان کیا جارہا ہے، لیکن والو بسوں کے مقابلے میں بی ایم ٹی سی بسوں کا استعمال میں کافی کمی آئی ہے۔
شہر کی ٹریفک کی پریشانیوں سے چھٹکار ا پانے کے لیے جو اہم کاروائیاں اور لائحہ عمل اور حکمت عملی CisTup اور Ritesنے پیش کی ہیں، ان میں کہا گیا ہے کہ سب سے پہلے فٹ پاتھ کو اگر بہتر طور پر تعمیر کیا گیا تولوگوں میں قریبی بس اسٹاپوں کو پیدل چل کر ہی بسوں میں سفر کرنے کا رجحان پیدا ہوگا، اور اس کی وجہ سے وہ اپنے ذاتی سواریوں کا کم استعمال کریں گے، اور لوگوں کی نقل و حرکت کی افادیت کے لیے بجٹ میں مناسب رقم مختص کیا جانا ضروری ہوگا، اور روڈ اور ریل ٹرانسپورٹ دونوں کو جدید، موثر، اور سستا کردینا چاہئے، اس کے علاوہ بس اسٹاپس پر بسوں کی اصل اوقات، روٹ میاپس کی معلومات فراہم کرنے سے ذاتی گاڑیوں اور کاروں کا استعمال کرنے والے شہریوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کے استعمال کرنے کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔اسی طرح شہر کی موجودہ ریلوے انفرا سٹرکچر میں مزید ٹرینوں کا اضافہ کرنا چاہئے، جس سے شہر کے دیگر حصوں اور مضافات سے باہر عوام کو لے جا یا سکے، اور ٹرین کی آمد ورفت کو شہر سے راما نگرا، ٹمکور، ہسور، وہائٹ فیلڈ، آنیکل علاقوں سے جوڑنے کے لیے دوہرے لائن قائم کئے جائیں۔اور شہر میں مفت پارکنگ پر اگر پابندی لگا کر پارکنگ کے لیے روپئے وصول کئے جائیں گے تو حتی الا مکان طور پر غیر قانونی پارکنگ کی وجہ سے ٹرافک میں جو خلل پیدا ہوتا آرہا ہے اس میں خاطر خواہ کمی لائی جاسکتی ہے۔رائٹس کے مشورے کے مطابق اگر شہر میں میٹرو کے علاوہ لائٹ میٹرو، بس راپیڈ ٹرانسپورٹ، مضافاتی مسافر ریل ، اورہائی اسپیڈ ریل لنک قائم کئے جائیں گے تو بقیہ ٹرافک کو روڈ ٹرانسپورٹ سسٹم سے کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔اور ٹریفک کے بہائو کو کنٹرول کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانا ضروری ہے۔ جس کے لیے نئے سڑکوں کی تعمیر،فلائی اوورس ، سگنل فری کوریڈرس، سڑکوں کی توسیع، ان تمام کو شہری اورٹرانسپورٹ ایجنسیوں کے تعاون اور بہتر خاکہ سے تیار کیا جائے تو ممکن حد تک شہر کی بڑھتی ہوئی ٹرافک کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔
بنگلور میں سن 2001سے 2012تک موٹر گاڑیوں کی تعداد میں اضافے کا خاکہ
سال گاڑیوں کی تعداد
2001 15.66لاکھ
2004 21.57 لاکھ
2007 31.06لاکھ
2010 36.86 لاکھ
2011 41.71لاکھ
2012 44.53لاکھ
بنگلور شہر کی سڑکوں پرروزانہ چلنے والی گاڑیاں
بسیں۔ 2 فیصد
آٹو رکشا۔ 3 فیصد
ٹرکس۔ 4 فیصد
کار اور ایل ایم وی ۔ 17 فیصد
ٹو وہیلرس ۔ 71 فیصد

Daily Traffic problem on bangalore city roads

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں