البیرونی کی کتاب الہند اور ابن بطوطہ کا رحلہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-22

البیرونی کی کتاب الہند اور ابن بطوطہ کا رحلہ

کتاب الہند:۔
البیرونی کی تخلیق "کتاب الہند" کی عربی تحریر آسان اور واضح ہے۔ یہ ایک ایسی ضخیم کتاب ہے جو مذہب اور فلسفہ، تیوہاروں، علم فلکیات، کیمیا، رسم و رواج، عقائد، معاشرتی زندگی، وزن و پیمائش، مجسمہ سازی، قانون اور نظام وزن و پیمائش جیسے مضامین پر 80ابواب میں منقسیم ہے۔ عام طورپر (حالانکہ ہمیشہ نہیں) البیرونی نے ہر باب میں ایک امتیازی ساخت (طرز) بنائی ہے۔ جس کا آغاز ایک سوال سے ہوتاہے۔ پھر سنسکرت روایات پر منحصر بیان اور آخر میں دیگر ثقافتوں کا موازنہ کیا گیا ہے۔ موجودہ دور کے کچھ دانشوروں کی دلیل ہے کہ اس ہندی ساخت(Geometric Structure) جواپنی صحت معلومات اور پیشن گوئی کئے جانے کی قابلیت کے لئے قابل ذکر ہے، کا ایک خاص سبب البیرونی کا ریاضی کی طرف رجحان تھا۔ البیرونی جس نے کتاب تحریر کرنے کیلئے عربی زبان کا استعمال کیا تھا۔ ممکن ہے اپنی کتاب برصغیر کے سرحدی علاقوں میں رہنے والے لوگوں کیلئے تحریر کی ہو۔ وہ سنسکرت، پالی اور پراکرت کتابوں کے عربی زبان میں ترجموں اورتصرف سے واقف تھا۔ اس میں فرضی قصوں سے لے کر علم فلکیات اور طب سے متعلق کتابیں شامل تھیں۔ لیکن ساتھ ہی ان کتابوں کے مواد تحریر کی طرز کے ضمن میں اس کا نقطہ نظر تنقیدی تھا۔ یقینی طورسے وہ اس میں اصلاح کرنا چاہتا تھا۔

ابن بطوطہ کا رحلہ:۔
ابن بطوطہ کی عربی زبان میں تحریر سیاحت کی کتاب جسے "رحلہ" کہا جاتا ہے۔ چودھویں صدی کے برصغیر ہند کی سماجی اور ثقافتی زندگی کے متعلق تفصیلی اور دلچسپ معلومات فراہم کراتی ہے۔ مراکش کے اس سیاح کی پیدائش تنجیار کے ایک باعزت اور تعلیم یافتہ خاندان میں جو اسلامی مذہبی قانون یعنی شریعت میں خصوصی مہارت کیلئے مشہور تھا میں ہوئی تھی۔ اپنی خاندانی روایت کے بموجب ابن بطوطہ نے کم عمر میں ہی ادبی اور مکتبی تعلیم حاصل کرلی تھی۔ اپنے طبقے کے دیگر افراد کے برخلاف ابن بطوطہ کتابوں کے مقابلے سیاحت سے حاصل تجربت کو علم اور معلومات کا زیادہ اہم ذریعہ مانتا تھا۔ اسے سفر کرنے کا بہت شوق تھا۔ وہ نئے نئے ممالک اور لوگوں کے متعلق جاننے کیلئے دور دراز کے مقامات تک گیا۔ 1332-33 میں ہندوستان کیلئے روانہ ہونے سے قبل وہ مکہ کے زیارتی سفر(حج) اور شام (سیریا)، عراق ، فارس (ایران)، یمن، عمان اور مشرقی افریقہ کے کئی ساحلی تجارتی بندرگاہوں کی سیاحت کرچکا تھا۔ وسط ایشیاء کے زمینی راستے سے ہوکر ابن بطوطہ 1333میں سندھ پہنچا۔ اس نے دہلی کے سلطان محمد بن تغلق کے بارے میں سنا تھا اور فن و ادب کے ایک فیاض سرپرست کی حیثیت سے اس کی شہرت کی کشش سے متاثر ہوکر ابن بطوطہ ملتان اور کچھ کے راستے سے دہلی کی طرف روانہ ہوا۔ سلطان اس کی علمیت سے متاثر ہوا اسے دہلی کا قاضی یعنی حج مقرر کیا۔ وہ اس عہدہ پر کئی سال تک رہا مگر اس نے اپنا اعتماد کھودیا اور اسے قید خانے میں قید کردیا گیا۔ بعد میں سلطان اور اس کے درمیان کی غلط فہمی دور ہونے کے بعد اس کو شاہی خدمت میں بحال کردیا گیا۔ 1342 میں اسے منگول حکمراں کے پاس سلطان کے سفیر کی حیثیت سے چین جانے کا حکم دیا گیا۔ اپنی نئی تفویض کے ساتھ وسطی ہندوستان کے راستے مالا بار ساحل کی طرف روانہ ہوا۔ مالابار سے وہ مالدیپ گیا جہاں وہ اٹھارہ مہینے قاضی کے عہدہ پر فائز رہا۔ لیکن آخر کار اس نے سری لنکا جانے کا فیصلہ کیا۔ بعد میں ایک بار پھر وہ مالا بار ساحل اور مالدیپ گیا۔ چین جانے کے اپنے مشن کو دوبارہ شروع کرنے سے قبل وہ بنگال اور آسام بھی گیا۔ وہ جہاز سے سماترا گیا اور سماترا سے ایک دوسرے جہاز سے چین کے بندرگاہی شہر زیاتن (Zaytun) اب قوانز ہوQuanzhou کے نام سے جانا جاتاہے) گیا۔ اس نے وسیع طورپر چین میں سیاحت کی۔ وہ بیجنگ تک گیا لیکن وہاں وہ طویل عرصے تک نہیں ٹھہرا۔ 1347 میں اس نے اپنے گھر واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ چین کے ضمن میں اس کے سفر نامہ کا موازنہ مارکو پولو جس نے تیرھویں صدی کے آخر میں وینس سے روانہ ہوکر چین (اور ہندوستان کا بھی) سفر کیا تھا کے سفر نامے سے کی جاتی ہے۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں