کرناٹک اسمبلی انتخابات - بھکاری کی امیدواری - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-20

کرناٹک اسمبلی انتخابات - بھکاری کی امیدواری

ریاست کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں جہاں تقریبا 40 فی صد زیادہ کروڑ پتی امیدوار میدان میں ہیں، وہیں اسمبلی انتخابات کی دوڑ میں ایک معذور بھکاری جن کا نام سداراجو اور عمر53 سال ہے، وہ بھی اس مرتبہ چامنڈیسوری اسمبلی حلقہ سے بحیثیت امیدوار کھڑے ہوئے ہیں، واضح رہے کہ سداروجو پچھلے پندرہ دن قبل تک ایک بھکاری تھا، سداروجو کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ و ہ ایم اے، ایل ایل بی کی ڈگری ہولڈر ہے، سدارجو کی روداد کی کہانی کچھ اس طرح شروع ہوتی ہے۔سدا راجو ، چامراج نگر ضلع، جیوتی گوڈاناپوراکا رہنے والا تھا، اس نے میسور یونیورسٹی سے سن1989 میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی تھی، اس کا خواب تھا کہ وہ سرکاری نوکری میں شامل ہوجائے گا، لیکن یہ خواب پورا نہیں ہوسکا، سدارجو ایم اے ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بھی کاریکل کانکن میں روزانہ کی اجرت پر مزدوری کاکام ملا۔ان کی محنت اور لگن کو کی وجہ سے ان کو جلد ہی سوپر وائزر بنا دیا گیا،لیکن اسی کاریکل کانکن میں سال 1994 میں کانکن میں کام کرنے کے دوران بارود پھٹنے کے ایک حادثہ میں سدارجو کا دائیاں پیر معذور ہوگیا، اور سدا رجو کا کہنا ہے کہ جس کانکن میں وہ کام کرر ہا تھا، اس کانکن میں اس حادثہ میں پیر گنوانے کے بعد بھی کانکن مالکان نے سدارجو کو مناسب معاوضہ نہیں دیا۔لیکن ایسے حالات کا بھی سدارجو نے ڈٹ کر مقابلے کرتے ہوئے ، انہوں نے ایل ایل بی کی تعلیم حاصل کرناشروع کردیا، اسی دوران ان کی شادی بھی ہوئی ہے، شادی کے بعد کی ذمہ داری سنبھالنے کے لیے ان کو نوکری کی سخت ضرورت تھی، بڑی دوڑ دھوپ کے بعد قداوائی میموریل انسٹیٹیوٹ آف آنکالجی میں بحیثیت کلرک نوکری ملی۔لیکن وہ یہاں زیادہ دن نہیں رہے، اور یہاں سے انہوں نے کرناٹکا اسٹیٹ اوپن یونیورسٹی میں کلرک کی حیثت سے نوکری کرنے لگے۔اور اسی دوران سداراجو کو ایک اور حادثہ کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے ان کا بائیاں پیر بھی ضائع ہوگیا۔یونیورسٹی نے انہیں غیر مجازی چھٹی لینے کے پاداش میں انہیں 1997 میں اس نوکری سے برخاست کردیا۔ سداراجو نے ہمت نہیں ہاری ، اور انہوں نے اپنے کام کو دوبارہ حاصل کرنے کی بہت کوشش کی ، جس کے نتیجے میں یونیورسٹی نے ان کی بیوی کو گروپ ڈی ملازم کی حیثیت سے نوکری دیدیا۔ سدارجو کا کہنا ہے کہ اسی دوران انہوں نے شارادا ولاس لاء کالج سے پانچ سالہ قانون کی ڈگری سال 2007 میں مکمل کی۔لیکن لاء پڑھنے کے بعد بھی ان کے ذریعے معاش کے لیے کوئی راستہ نہیں کھلا۔ انہوں نے آخر کار آر ایم سی بنڈی پالیہ علاقے سے بھیک مانگنے کا پیشہ اختیار کر لیا۔سداراجو کی زندگی میں جس طرح کے اتار چڑھائو آئے ہیں، اسی طرح کے حادثات اور واقعات آج ملک کے ہزاروں تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ساتھ پیش آرہی ہے۔جن کا احاطہ اور شمار کرنا میڈیا کی بس کی بات نہیں ہے۔ سدارجو کا مستقبل کا خواب یہ ہے کہ وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے اس علاقے سے کامیاب ہوکر ، سرکار میں ایک ایم ایل اے کے طور پر عوام کی نمائندگی کریں، خاص طور پر ایسے حالات کے شکار ہوکر جتنے نوجوان ، کئی اعتبار سے معذور ہوئے ہیں، ان کی نمائندگی کرنا اور ان کی آواز کو ایوان تک پہنچانا ہی ان کا مقصد ہے۔سداراجو کی جو کہانی ہے وہ فرضی کہانی نہیں ہے، ملک کے کونے کونے میں آج ایسے کئی ہزار سدا راجو مر مر کر جی رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ سداراجو اس انتخاب میں کامیا ب ہوتے ہیں یا ناکام، لیکن کرناٹک اسمبلی کے انتخابات میں 224امیدوار تو ضرور منتخب ہوکر آئیں گے، اگر یہی امیدوار سداراجو جیسے کئی ہزار نوجوانوں کی زندگیوں کو بنانے ، اور ان کو مناسب ذریعہ معاش فراہم کردیں گے، اور عوام کی تکا لیف کو صرف انتخابات مہم کے دوران محسوس کرنے اوران سے ہمدری جتانے کی بجائے ، اپنی پانچ سالہ میعاد میں مکمل طور پر عوام کے بہترین نمائندے بن جائیں گے اور عوام کے تمام طبقات کو ان کے حقوق کو دلوانے کی کوشش کریں گے تو اس ملک سے نہ صرف غریبی ہٹائی جاسکتی ہے، بلکہ اس ملک کے ہزاروں نوجوانوں کی بدنصیبی بھی دور کی جاسکتی ہے۔

Beggar candidate for karnataka assembly

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں