اکبر اویسی تقریر کیس - وکلا کی ہائیکورٹ میں بحث مکمل - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-10

اکبر اویسی تقریر کیس - وکلا کی ہائیکورٹ میں بحث مکمل

جناب اکبر الدین اویسی قائد مجلس مقننہ پارٹی کی تقریر کے خلاف ریاست کے مختلف مقامات پر درج مقدمات کو یکجا کرنے آندھراپردیش ہائی کورٹ میں آج فریقین کی بحث و جوابی بحث مکمل ہوگئی۔ جسٹس رمیش رنگاناتھن نے فریقین کے وکلاء کو ہدایت دی کہ وہ آئندہ چہارشنبہ تک اپنی بحث سے متعلق تحریری مواد داخل کردیں تاکہ اس کے بعد وہ اپنا فیصلہ محفوظ کرسکیں۔ ہائی کورٹ نے آج تقریباً 4بجے شام قائد مجلس کے وکیل نرنجن ریڈی نے اپنی بحث کا آغاز کیا جس پر جسٹس رمیش رنگاناتھن نے کہاکہ عدالت کا وقت 4:15 کو ختم ہونے کے بعد بھی وہ کارروائی جاری رکھیں گے تاکہ بحث و جوابی بحث کو آج مکمل کرلیا جاسکے۔ اس کے بعد تقریباً 15 منٹ قائد مجلس کے وکیل نے جوابی بحث جاری رکھی۔ اس جوابی بحث کا جواب سبا راؤ ایڈوکیٹ نے تقریباً آدھے گھنٹے تک دیا۔ بالآخر فریقین کے مباحث کے اختتام پر معزز جج نے تقریباً 5بجے شام عدالت کی کارروائی کے التواء سے قبل فریقین کے وکلاء کو ہدایت دی کہ وہ آئندہ چہارشنبہ تک اپنی بحث کی تائید میں تحریری مواد داخل کردیں تاکہ وہ اس دن مقدمہ کو محفوظ کرسکیں۔ اسی دوران عدالت میں ایک مدعی علیہ کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ و رکن بار کونسل آف انڈیا رام چندر راؤ ترجمان ریاستی بی جے پی نے آج اپنی بحث کی تائید میں تحریری مواد عدالت میں داخل کردیا۔ آج عدالت کی کارروائی کے آغاز پر قائد مجلس کے وکیل نرنجن ریڈی ایڈوکیٹ نے کہاکہ جس طرح مدعی علیہان کے وکلاء عدالت میں یہ تاثر دے رہے کہںکہ ان کے مؤکل جناب اکبر الدین اویسی کی تقریر کے الگ الگ حصوں سے الگ الگ افراد کے جذبات مجروح ہوئے ہیں جب کہ ان کے موکل کی تقریر ایک ہی ہے۔ نرنجن ریڈی نے مثال پیش کرتے ہوئے کہاکہ اگر کوئی شخص کسی پر قاتلانہ حملہ کررہا ہے اور مہلک ہتھیار سے اگر وہ ایک کے بعد ایک حملہ کرتا ہے تو ہر مرتبہ اس کے حملہ میں مزید شدت پیدا ہوجاتی ہے، بالآخر حملہ اور کئی مرتبہ حملوں کے بعد قتل میں کامیاب ہوجاتاہے تو اس قاتلانہ حملہ میں ہر مرتبہ الگ الگ حملے پر الگ الگ تحقیقات نہیں ہوتیں بلکہ صرف ایک جرم قتل پر تحقیقات مرکوز ہوتی ہیں۔ لہذا تقریر کے علیحدہ علیحدہ حصوں سے متاثر ہونے کا دعویٰ غلط ہے۔ نرنجن ریڈی نے آج عدالت کو بتایاکہ سپریم کورٹ نے کل ہی ایک فیصلہ سنایا ہے جس میں گجرات کے وزیر امیت شاہ کے خلاف دوسری ایف آئی آر کوکالعدم کردیا گیا ہے۔ اس پر جسٹس رمیش رنگاناتھن نے کہاکہ انہوں نے آج اخبارات میں اس کی تفصیل پڑھی ہے۔ انہوں نے کہاکہ بسا اوقات نیوز پیپرس کی تفصیلات غلط ہوسکتی ہیں۔ معزز جج نے قائد مجلس کے وکیل کو ہدایت دی کہ وہ سپریم کورٹ کے اس فیصلہ کی تفصیلات عدالت میں داخل کریں۔ قائد مجلس کے وکیل کی جوابی بحث کے بعد ایک اور مدعی علیہ کے وکیل سبا راؤ نے اس پر جوابی بحث کا آغاز کیا۔ انہوں نے کہاکہ درخواست گذار( اکبر الدین اویسی) نے ایف آئی آر کے اندراج کو روکنے کی استدعا کی ہے جب کہ دستور کے تحت حکومت کو حق حاصل ہے کہ کسی بھی الزام یا جرم پر ایف آئی آر درج کرے۔ ایف آئی آر کے اندراج سے روکنا حکومت کے اختیارات کو ختم کرنا ہے۔ سبا راؤ نے کہاکہ درخواست گذار کے خلاف 6تا7 ایف آئی آر درج ہوچکے ہیں اور ایف آئی آر کے اندراج سے کسی کو روکا نہیں جاسکتا۔ ایف آئی آر کے اندراج کو روکنا طریقہ کار کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ مقدمہ ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہے اس لئے عدالت اس مقدمہ میں ابھی مداخلت نہ کرے۔ اس پر جسٹس رمیش رنگا ناتھن نے استفسار کیا کہ عدالت کب تک انتظا کرے اور کس مرحلہ پر عدالت اس مقدمہ میں مداخلت کرے۔ اس پر سبا راؤ لاجواب ہوگئے۔ معزز جج نے کہاکہ درخواست گذار کو دیگر ایف آئی آر کے تحت گرفتاری کا خدشہ لاحق ہے اور ان کی آزادی خطرے میں ہے۔ اس پر سباراؤ ایڈوکیٹ نے کہاکہ اگر درخواست گذار کو دیگر ایف آئی آر کے تحت گرفتار کیا جائے تو وہ دوبارہ ضمانت حاصل کرسکتے ہیں۔ اس پر جسٹس رمیش رنگاناتھن نے سوال کیا کہ ایک مقدمہ میں دوسرے ایف آئی آر کے تحت گرفتاری پر درخواست گذار اگر قانون کی خلاف ورزی کی شکایت کرتے ہوئے معاوضہ طلب کرے تو عدالت کیا کرے۔ سباراؤ ایڈوکیٹ نے کہاکہ اس طرح کے مقدمہ میں عدلیہ کی جانب سے نظرثانی ضروری ہے تاکہ آئندہ مقدمات کیئلے یہ ایک مثال ہوسکے۔ قائد مجلس کے وکیل نرنجن ریڈی نے سباراؤ ایڈوکیٹ کی بجث کے جواب میں دوبارہ کھڑے ہوکر کہا کہ فریق مخالف کے وکلاء الگ الگ ایف آئی آر پر زور دے رہے ہیں۔ انہوں نے اس کی مثال دیتے ہوئے کہاکہ اجمل قصاب کی جانب سے ممبئی میں دہشت گرد حملے کئے گئے اس پر اجمل قصاب کے خلاف ہندوستان پر حملے کے مقدمے درج کئے گئے۔ اس واقعہ سے ان کے جذبات مجروح ہوئے ہیں تو کیا پولیس کو ہر شکایت کنندہ کے جذبات کی تحقیقات کرنی ہوگی یا واقعہ کی تحقیقات کرنی ہوگی۔ جسٹس رمیش رنگاناتھن نے سماعت کے اختتام پر فریقین کے وکلاء کو ہدایت دی کہ اپنی بحث کی تائید میں تحریری مواد جامع انداز میں عدالت میں داخل کرے تاکہ انہیں مقدمہ کا فیصلہ سنانے میں آسانی ہوسکے۔ عدالت میںقائد مجلس کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ جناب محمد اسمعیل مقدمہ کی سماعت کے دوران موجود تھے۔

Akbar owaisi hate speech case, highcourt debate on FIR

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں