سہ ماہی ادبِ معلی لاہور کا ایک جائزہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-08

سہ ماہی ادبِ معلی لاہور کا ایک جائزہ

سہ ماہی ادبِ معلی لاہور
مدیر: ڈاکٹر ناصر رانا
مبصر:محمد عبدالعزیز سہیل ریسرچ اسکالر جامعہ عثمانیہ حیدرآباد

سہ ماہی ادب معلی لا ہور پاکستان کا پچیسواں خصوصی شمارہ جنوری تا مارچ 2013 ء مدیر ڈاکٹر ناصر رانا اور نائب مدیرہ فائقہ جنجوعہ کی ادارت میں شائع ہو کر اپنی تمام رعنائیوں اور دل فریب مضامین کے ساتھ جلوہ افروز ہو چکا ہے انہوں نے اپنی خصوصی صلاحیتوں کے ذریعہ اس رسالہ کو ترتیب دیا ہے فہرست ابواب کو مختلف زمروں میں تقسیم کیا گیا ہے جن میں نعتیں ، خطوط، مضامن، غزلیں ، سفرنامے،نظمیں، جاپانی کہانی،افسانے، حاصل مطالعہ وغیرہ شامل ہیں ۔
ڈاکٹر ناصرنے اپنے اداریہ میں لکھا ہے اور یہ احساس دلا یا ہے کہ" دور حاضر میں ادب کے خدمت گاروں کا کام،کام کرو اورکرنے دو والا ہونا چاہے جبکہ المیہ یہ ہے کہ منصب و شہرت کی تلاش میں لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں اور دوسروں کو کسی تقریب میں نہ پا کر حاضر نہ ہونے کی وجوہات دریافت کرتے ہیں اور خود اپناکام کرتے نہیں دوسروں کے کام خراب کرنے میں لگے ہوئے ہیں " ۔
زیرتبصرہ رسالہ کا پہلا زمرہ نعتیں کے عنوان سے شامل کیا گیا ہے ۔ جس میں ڈاکٹر ستیہ پال آنند اور نور خان زادہ کی نعتیں شامل کی گئی ہیں ۔ خطوط کے کالم کے تحت دردانہ نوشین خان(مظفر گڑھ)عبدالقیوم(اٹک)فوزیہ طاہرہ(اسلام آباد)کامی شاہ(کراچی)مشتاق احمد(لا ہور) کے خطوط شامل کے گئے ہیں ۔
مضامین کے زمرے میں پہلا مضمون "ممتازشیریں :اردو کی پہلی نقاد"۔ ابن سلطان نے لکھا ہے ۔ انہوں نے ممتاز شیریں کو اردو ادب کی پہلی خاتون نقاد قراردیا ہے ۔ اور ساتھ ہی فن افسانہ نگاری، ترجمہ نگاری اور تنقید کے شعبہ میں انکی گراں قدر خدمات کومتعارف کروایا ہے ۔
زیرتبصرہ رسالہ کا دوسرا مضمون "حاتم طائی ایک باصفا اور سخی شاعر "کے عنوان پر پروفیسر محمد اویس سرور نے رقم کیا ہے انہوں نے اس مضمون میں حاتم طائی کی سخاوت اور فیاضی کوبیان کیا ہے ساتھ ہی انکی شاعری کو مختلف حوالوں کے زریعہ سے پیش کیا ہے انہوں نے ابن اعرابی کا اقتباس نقل کیا ہے کہ" ان کی سخاوت انکی شاعری کی طرح تھی یعنی جیسے ان کا دل دریا تھا اس طرح ان کے اشعار میں معانی میں سمندر کی حیثیت رکھتے ہیں ان کی شاعری میں امثال، محاورات حکمتوں اور بصیرتوں کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا نظر آتا ہے "۔

اس رسالہ کا تیسرا مضمون "جرائد کے لیے تحقیقی مقالے کے بنیادی لوازمات" کے عنوان پرخالد اقبال نے لکھا ہے یہ مضمون کافی اہمیت کا حامل ہے انہوں نے اس مضمون میں مقالہ نگاری کے لوازمات کو پیش کیا ہے ساتھ ہی ادبی رسائل اور جرائد کی اہمیت کو واضح کیا ہے انہوں نے تحقیق کے اصول تحقیقی مقالہ لکھنے کے اصول و طریقہ کار پر رہنمایانہ خطوط کو شامل کیا ہے ساتھ ہی حوالہ جات کا اندراج مقالہ نویسی کے ارکان وغیرہ کو پیش کیا ہے کافی معلوماتی مضمون ہے ۔

زیرتبصرہ رسالہ کا ایک اور اہم مضمون "شہر یار۔ ۔ دیار یار نہ رہا بزم دوستاں نہ رہی"رانا غلام شبیر نے لکھا ہے انہوں نے ہندوستانی سینما کیلے شہریار کے گیتوں کو دل کی دھڑکن قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ فلم گامن(روانگی)کے لیے جو گیت شہریار نے لکھے تھے اس پر انہیں پلے بیک گلوکار کا اعلیٰ ترین ایوارڈ 1978ء میں دیا گیا رانا غلام شبیر نے شہر یار کے گیتوں کے اشعار کو بھی پیش کیا ۔ انہوں نے شہریار کی شخصیت اورفلمی گیتوں پر بہت ہی اہم معلوما تی اور کافی ضخیم مضمون لکھا ہے جسکے مطالعہ سے شہر یار کی زندگی کے مختلف گوشوں سے واقفیت ملتی ہے ۔
اس رسالہ میں ایک اور اہم مضمون شامل ہے جس کا عنوان "انیسویں صدی کے غیر مسلم شعراء کی رثائی شاعری"ہے ۔ اسے شا کر کنڈان نے تحریر کیا ہے اس مضمون میں مضمون نگار نے مرثیہ نگاری کے سفر کو پیش کیا ہے ساتھ ہی غیر مسلم شعراء کے حالات زندگی اور کلام کو بہترین انداز سے پیش کیا ہے جن شعراء کو انہوں نے اپنے مضمون میں شامل کیا ہے ان میں راجا الفت رائے ؔ، جان رابرٹؔ، بشیر لکھنوی ؔ، راجہ گردھاری پرشاد باقیؔ (حیدرآباد)،روپ کنوار کمارؔی، شادؔ حیدرآبادی، شمیم گوروؔی، سروجنی نائیڈوؔ،فراقیؔ دریاآبادی، جوش ملسیانیؔ، شادمیرٹھیؔ، وحشی کانپوریؔ، تلوک چند محرومؔ، جوان سندیلوی، نانک لکھنویؔ، روشن پانی پتیؔ، انتھونی لال وحشیؔ، بسمل جھانسویؔ، صباجے پوریؔ، آفتاب پانی پتیؔ، منور لکھنویؔ، نانک چندعشرتؔ،امن لکھنویؔؔ شامل ہیں یہ ایک تحقیقی مقالہ ہے جس کے ذریعے غیر مسلم شعراء کے کلام اور حالات زندگی سے واقفیت ملتی ہے ۔
زیر تبصرہ رسالہ کے مضامین کی فہرست میں جنوبی ہند کے دو قلمکار ڈاکڑطیب خرادی اور محمد عبدالعزیزسہیل کی تخلیقات شامل ہیں۔ "کلاسیکی ادب کے مطالعہ کی اہمیت(بحوالہ سب رس)" ڈاکڑطیب خرادی نے اپنے مضمون میں ملا وجہی کی سب رس۱۶۳۵ء کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ" وجہی نے اس میں دکن کی تہذیب کے نقوش کو اچھے انداز میں بیان کیا ہے ساتھ ہی اس کتاب میں حسن و عشق کی داستان بیان کی ہے " مضمون نگار نے عظیم مفکروں کے حوالوں کے ذریعہ کلا سکیت اور رومانیت کے فرق کو واضح کیا ہے انہوں نے وجہی کی سب رس کو اردو نثر کا پہلا نمونہ قرار دیا ہے اور موضوع و تکنیک کے لحاظ سے اس تحریر کو عالمی اردو کیلے ایک مثالی نمونہ قرار دیا ہے ۔
اس رسالہ میں راقم الحروف کا مضمون"مولانا آزاد کی صحافتی خدمات "کے عنوان سے شامل ہے ۔ دیگر اہم مضامین میں "بقلم خود حفیظ جالندھری" سید محمد عبداللہ قادری،"منفرد احساسات اور لفظیات کا شاعر"فائقہ جنجوعہ اور اردو غزل کا المیہ "ڈاکڑسید قاسم جلال،"اقبال کا جمالیاتی شعور "یوسف ملک،" لسانیاتی مطالعہ پر ایک نظر"پروفیسر غازی علم الدین کے مضامین شامل ہیں ۔
افسانوں میں " جیسیکا۔ ۔ شاہیں کاظمی،"آٹوگراف۔ ۔ ڈاکٹر ناصر رانا" ودیگر شامل ہیں۔ حاصل مطالعہ کے تحت "کئی چاند تھے سرآسماں۔ ۔ ڈاکٹر جمال نقوی، "ہم تماشہ بھر پور نقطہ آغاز سہیل احمد صدیقی، "معاصر ادب اور ادیب۔ عبدالقیوم کی نگارشات شامل ہیں ،
بہ حیثیت مجموعی رسالہ ادبِ معلی لا ہور کا یہ پچیسواں خصوصی شمارہ تحقیقی، تنقیدی اور ادبی مضامین سے لیس ہے اس رسالہ کے تمام ہی نگارشات کافی اہم اور معلوماتی ہیں ڈاکٹر نا صر رانا نے اپنی صلاحیتوں سے اس رسالہ کی ترتیب انجام دی ہیں رسالہ کافی ضخیم اور معیاری و قابل مطالعہ ہے۔ اس طرح کے رسائل تمام ریسرچ اسکالرس کے زیر مطالعے ہونے چاہئے تاکہ ادب کے ماضی ،حال اور مستقل سے متعلق اہم تحقیقی ،تنقیدی اور تخلیقی مواد پڑھنے کے لئے دستیاب ہو۔ بیسویں صدی میں جو کام ساقی،ہمایوں ،شب خون ،فنون اور شعر و حکمت جسیے ضخیم معیاری ادبی رسائل کرتے تھے اسی طرح کے یہ کام رسالہ ادب معلی لا ہور کر رہا ہے ۔ اور خوشی کی بات ہے کہ اس میں نئے اور معیاری قلم کاروں کو بھی موقع دیا جا رہا ہے ۔ اردو کی شمع کو نئی نسل کو سونپنا پرانوں کا کام ہے ۔ اور اس لحاظ سے زیر مطالعہ رسالہ اردو کے نئے ادیبوں کے لئے امید کی کرن ثابت ہورہا ہے ۔ اس کے لئے رسالہ کے مدیر اور انتظامیہ کو مبارک باد پیش ہے ۔ امید کے ڈاکٹر ناصر رانا کا یہ سفر اپنی لگن و جستجو سے یوں ہی جاری رہے گا اور ادبِ معلی عالمی اردو کی سطح پر نہ صرف مقبول عام ہو گا بلکہ اپنی انفرادیت کو ثابت کرئے گا۔ اس رسالہ کا زر سالانہ چھ سو روپئے ہے ۔ ملنے کا پتہ: اکادمیات N-391 سمن آباد لا ہور پاکستان . 54500

ایم اے عزیز سہیل

A review on special issue of Adab-e-Moalla Lahore

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں