دہشت گردی کے ملزمین - سرکاری فرقہ وارانہ بھید بھاؤ کا انکشاف - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-08

دہشت گردی کے ملزمین - سرکاری فرقہ وارانہ بھید بھاؤ کا انکشاف

ملک میں مسلمانوں کے ساتھ انصاف کے دوہرے معیاد کا ایک اور ثبوت آج اس وقت سامنے جب دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کئے گئے محکمہ دفاع کے 2 اعلیٰ عہدیداروں میں سے مالیگاؤں 2008ء میں بم دھماکے کے کلیدی ملزم کرنل پرو وہت اب بھی محکمہ دفاع کے ملازم ہیں اور انہیں باقاعدہ ماہانہ تنخواہ حاصل ہورہی ہے جبکہ ممبئی کے ملنڈ بم دھماکہ معاملہ کے ملزم ڈاکٹر انور علی کو باعزت بری کئے جانے کے باوجود بھی محکمہ دفاع نے انہیں دوبارہ ملازمت پر نہیں رکھا بلکہ انہیں نوکری سے ہی برخواست کر دیا۔ حق معلومات کے تحت حاصل کی گئی معلومات کے مطابق کرنل پروہت آج بھی فوج میں کرنل کے عہدہ پر فائز ہے اور انہیں وہ تمام مراعات حاصل ہیں جو فوج کے کسی جوان کو حاصل ہوتی ہے ، ساتھ ہی ساتھ انہیں ماہانہ تنخواہ بھی حاصل ہورہی ہے ۔ باعزت بری کئے جانے کے بعد اور ایک معاملہ میں ضمانت حاصل کرنے کے بعد جیل کی سلاخوں سے رہا ڈاکٹر انور علی نے فوج کے اعلیٰ عہدیداروں سے انہیں دوبارہ نوکری پر رکھنے کی درخواست بھی کی لیکن ان کی نوکری اب تک بحال نہیں کی گئی یہاں تک کے جب انہوں نے محکمہ روزگار حاصل کرنے کیلئے درخواست دی تو اب تک ایک سال سے زائد عرصہ گذر جانے کے باوجود بھی انہیں ایک بھی کال لیٹر یعنی روزگار کا پروانہ حاصل نہیں ہوا۔ موصولہ اطلاعات کے مطابق مہاراشٹرا کے پونے شہر میں واقع نیشنل ڈیفنس اکیڈیمی میں ڈاکٹر انور علی جاوید علی خان لکچر ر کے عہدہ پر فائز تھے ۔ 9!مئی 2003ء ان کی زندگی کا ایک سیاہ باب تھا جہاں سے ان کی برباد زندگی کا آغاز ہوا۔ مہاراشٹرا پولیس کے انسداد دہشت گرد دستہ (اے ٹی ایس) نے انہیں مضافات کی لوکل ٹرین میں ہوئے بم دھماکوں کے معاملہ میں گرفتار کر لیا اور 11مئی 2009ء کو انہیں باقاعدہ ایک ملزم بنا کر ممبئی کی خصوصی مکوکا عدالت میں پھیش کیا گیا۔ عدالت میں پیشی کے دوسرے دن ہی یعنی 12مئی کو انہیں نوکری سے برخواست کر دیا گیا اور یہ جواز دیا گیا کہ ان کی غیر حاضری کے سبب انہیں نوکری سے نکال دیا گیا ہے ۔ دوران گرفتاری ان پر ماہ دسمبر 2003ء میں گھاٹ کوپر بی ایس ٹی بس دھماکوں کا الزام بھی عائد کر دیا گیا اور انہیں ان دھماکوں کی سازش میں شامل ہونے کے الزامات لگائے گئے لیکن 9ماہ بعد پولیس ان کے خلاف عدالت میں کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکی اور خود سرکاری وکیل نے ڈاکٹر انور اور دیگر 8ملزمین کے تعلق سے عدالت میں ایک عرضداشت داخل کی اور عدالت کو بتایاکہ ملزمین کے خلاف متذکرہ معاملہ میں کوئی ثبوت موجود نہیں ہے ، لہذا انہیں معاملہ سے ڈسچارج کیا جائے جس کے بعد خصوصی عدالت نے انہیں باعزت بری قرار دیا لیکن ان پر عائد مصیبتوں کا خاتمہ نہیں ہوا بلکہ ملنڈ بم دھماکوں کا الزام ان کے ماتھے پر لگاہی رہا۔ پونے شہر کے جونے مودی خانہ نامی علاقہ میں معہ اہل و عے یال رہائش پذیر ڈاکٹر انور علی 8 برسوں تک ممبئی کی آرتھر روڈ جیل میں مقید رہے کہ بالآخر فروری 2011ء کو خصوصی پوٹا عدالت نے ناکافی شہادت کی بناء پر انہیں ضمانت پر رہا کئے جانے کا حکم صادر کیا لیکن خصوصی عدالت کے فیصلے کے خلاف تحقیقاتی ایجنسیوں نے ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور عدالت سے درخواست کی کہ وہ ملزم کو حاصل شدہ ضمانت کو منسوخ کر دے لیکن ایجنسیوں کو ہائی کورٹ میں منہ کی کھانی پڑی اور عدالت نے پوٹا عدالت کے فیصلہ کو برقرار رکھتے ہوئے ڈاکٹر انور علی کی ضمانت کو درست قرار دیا۔ فی الوقت ملنڈ بم دھماکوں کا معاملہ التواء میں پڑا ہوا ہے اور آج بھی اس مقدمہ کی سماعت عدالت میں جاری ہے ۔ ڈاکٹر انور علی خود کو بے قصور بتاتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان دھماکوں سے ان کا کوئی تعلق ہی نہیں تھا اور 8 سال انہوں نے جیل میں جو صعوبتیں برداشت کی ہیں نیز اس عرصہ میں ان کے اہل خانہ کو جن تکالیف اور مالی تنگی کا سامنا کرنا پڑا تھا وہ قابل بیان ہے ۔

Accused of terrorism - disclosure of governmental sectarian differences

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں