شہادت بابری مسجد کیس - سی۔بی۔آئی سے سپریم کورٹ کا سوال - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-03

شہادت بابری مسجد کیس - سی۔بی۔آئی سے سپریم کورٹ کا سوال

سپریم کورٹ نے آج الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک حکم کے خلاف اپیل دائر کرنے میں تاخیر پر سی بی آئی سے سوال کیا ہے۔ ہائی کورٹ کے حکم میں کہا گیا تھا کہ بابری مسجد انہدام (شہادت) کیس میں بی جے پی لیڈر ایل کے اڈوانی اور دیگر افراد( ملزمین) پر سازش کے الزام کا اطلاق نہیں ہوگا۔ جسٹس ایچ ایل دتو کی زیر صدارت ایک بینچ نے ہدایت دی کہ مرکزی حکومت کا ایک سینئر عہدیدار قانون، اندرون 2 ہفتے ایک حلف نامہ داخل کرے۔ سپریم کورٹ نے اس بات کا نوٹ لینے کی ہدایت جاری کی کہ (اپیل دائر کرنے میں) 167 دن کی تاخیر، ایک عہدیدار قانون کے سبب ہوئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سابق حکم کی تعمیل میں سی بی آئی نے آج بینچ کے سامنے کیس کی تفصیلات رکھیں۔ ان تفصیلات میں کہا گیا ہے کہ الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل مرتب کرنے میں تاخیر اس وجہ سے ہوئی ہے کہ اس اپیل کا مسودہ، ایڈیشنل سالیسیٹر جنرل کی طرف سے ہوئی ہے اس لئے شخص متعلقہ کے حلف نامہ سے ، اس تاخیر( کی وجہ) کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ اگر ایک حلف نامہ داخل کیا جاتا تو یہ بات آپ کے بہتر مفاد میں ہوگی"۔ سپریم کورٹ نے سینئر عہدیدار قانون سے حلف نامہ داخل کروانے کیلئے سی بی آئی کو 2ہفتوں کی مہلت دی۔ تاہم بنچ نے اپنے حکم میں یہ نہیں کہاکہ کونسا عہدیدار قانون، حلف نامہ داخل کرے گا۔ حکم میں اتنا کہا گیا ہے کہ کوئی سینئر عہدیدار قانون یہ حلف نامہ داخل کرے۔ سپریم کورٹ میں سی بی آئی کی اپیل کی سماعت جاری ہے۔ اس اپیل کے ذریعہ ایک خصوصی عدالت سی بی آئی اور الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلوں کو چیلنج کیا گیا۔ ان دو فیصلوں کے ذریعہ اڈوانی، کلیان سنگھ، اوما بھارتی، ونئے کٹیار اور مرلی منوہر جوشی کے خلاف سازش کا الزام حذف کردیا گیا تھا۔ جن دیگر افراد پر سے سازش کا یہ الزام حذف کیا گیا ہے ان میں ستیش پردھان، سی آر بنسل، اشوک سنگھل، گری راج کشور، سادھوی رتھبرا، وی ایچ ڈالمیا، مہنت اویدیااتھ، آر وی ویدانتی، پرم ہنس رام چندر داس، جگدیش منی مہاراج، بی ایل شرما، نرتیا گوپال داس، دھرم داس، ستیش ناگر اور موریشور ساوے شامل ہیں۔ سی بی آئی نے ہائی کورٹ کے حکم (21مئی2010) کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔ ہائی کورٹ نے ان قائدین کے خلاف سازش کا الزام حذف کرنے، خصوصی عدالت کے فیصلہ کو جائزقرار دیا تھا۔ تاہم ہائی کورٹ نے اُس وقت سی بی آئی کو اجازت دی کہ وہ اڈوانی اور دیگر افراد کیخلاف دیگر الزامات کے تحت رائے بریلی کی عدالت میں کارروائی جاری رکھے کیونکہ کیس، عدالت برائے بریلی کے دائرہ عمل میں آتا ہے۔ یہاں یہ بات بتادی جائے کہ مقدمہ کے 2سیٹس ہیں۔ (ایک) اڈوانی اور ان دیگر افراد کے خلاف جو 6دسمبر 1992ء کو جبکہ بابری مسجد کو منہدم(شہید) کیا گیا تھا، ایودھیا میں رام کتھا کنج میں شہ نشین پر موجود تھے۔ (دو) دوسرا کیس ان لاکھوں نامعلوم "کارسیوکوں" کے خلاف ہے جو (اس تاریخ کو) متنازعہ عمارت میں اور اس کے اطراف موجود تھے۔ سی بی آئی نے اڈوانی اور دیگر 20افراد کے خلاف قانون تعزیزرات ہند کی دفعات 153-A،153-B اور 505 کے تحت چارج شیٹ داخل کیا تھا۔ بعد میں تحت دفعہ 120-B (سازش مجرمانہ) کے تحت الزامات عائد کئے گئے۔ اس اقدام کو خصوصی عدالت نے کالعدم قرار دیا اور خصوصی عدالت کے اس فیصلہ کو ہائی کورٹ نے درست قراردیاتھا۔ شیوسینا لیڈر بال ٹھاکرے کی موت کے بعد اُن کا نام ملزمین کی فہرست سے حذف کردیا گیا۔ خصوصی عدالت کے حکم کو درست قرار دیتے ہوئے ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ سی بی آئی نے عدالت رائے بریلی میں یا اپنی درخواست نظر ثانی کی سماعت کے دوران کسی بھی مرحلہ پر کہیں بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ان قائدین کے خلاف سازش مجرمانہ کا جرم ہے۔

Why delay by CBI in filing appeal in Babri case, asks SC

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں