پولیس - تفتیش اور ٹارچر کا خوف - مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو ختم کر رہا ہے - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-14

پولیس - تفتیش اور ٹارچر کا خوف - مسلم نوجوانوں کی زندگیوں کو ختم کر رہا ہے

رضوان بیگ
ابھی حال ہی میں ایک ایسے نوجوان کی خودکشی کا معاملہ سامنے آیا ہے جو اے ٹی ایس کی پوچھ تاچھ کے مرحلے سے گزر رہا تھا۔ یہ واقعہ اورنگ آباد کا ہے۔ اس نوجوان کا نام مرزا رضوان بیگ ہے اس نے ذہنی تناؤ کے سبب خودکشی کرلی۔ اس کے گھروالوںکا کہنا ہے کہ خودکشی کی وجہ اے ٹی ایس کا ٹارچر کیا جانا ہے۔ اس کے مطابق اے ٹی ایس جس طرح سے اس نوجوان کے ساتھ برتاؤ کررہی تھی اس سے وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار تھا۔ رضوان کے دوست نے اس بات کا انکشاف کیا کہ گذشتہ 16ماہ سے مرزا رضوان بیگ اے ٹی ایس کے دباؤ میں مبتلا تھا۔ اسے بار بار طلب کیا جاتا اور پوچھ گچھ کی حاتی۔ اس وقت متوفی کے گھر والے قصور وار افسران کے خلاف شدید احتجاج کررہے ہیں اور ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ بھی کررہے ہیں۔ یہ واقعہ یقیناً توجہ کا حامل ہے اور اسے یونہی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ رضوان کی خودکشی کی جو وجہ بیان کی جارہی ہے وہ یقیناً ملک کی پولیس و تفتیشی ایجنسیوں کو کٹہرے میں کھڑا کردینے والی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تفتیش کار خودکشی کی اس وجہ کو تسلیم نہیں کریں گے اور دیگر وجوہات بیان کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن واقعہ کی نزاکت کا تقاضا ہے کہ اس کی صحیح طورپر جانچ کرائی جائے۔ اس بات کی بھی کوشش کی جائے کہ جانچ پڑتال میں کسی طرح کی کوئی دھاندلی نہ ہو۔ اگر جانچ سے یہ ثابت ہوجائے کہ اے ٹی ایس کے ٹارچر کے سبب رضوان نے خودکشی کی ہے تو پھر متعلقہ افسران کے خلاف سخت کاروائی ہونی چاہئے کیونکہ تفتیش کار ایجنیسوں کو اس بات کا حق حاصل نہیں ہے کہ وہ کسی کو اتنا زیادہ ٹارچر کریں کہ ملک کا ایک باعزت شہری خودکشی کرنے پر مجبور ہوجائے۔ اس بات سے سبھی واقف ہیں کہ کوئی شخص یونہی نہیں مرنا چاہتا، ہر ایک کو اپنی زندگی سے بے حد پیار ہوتاہے۔ یہی وجہہ ہے کہ اگر انسان بیمار ہوتا ہے تو وہ اپنا خاطر خواہ علاج کرانا چاہتا ہے اور حتی المقدور پیسہ بھی خرچ کرتا ہے۔ ہر شخص اپنا تحفظ چاہتا ہے۔ ایسے میں کسی کو کیا پڑی ہے کہ وہ خود ہی کو مارنے لگے۔ خودکشی کے جوبھی واقعات ہوتے ہیں اس کے پیچھے ضرور ایسی وجوہات ہوتی ہیں جن کے سبب خودکشی کرنے والا یہ انتہائی قدم اٹھا لیتا ہے۔ جہاں تک رضوان کی بات ہے تو وہ بھی ایک انسان تھے اور جینے کی خواہش یقیناً اس کی بھی رہی ہوگی، اس لئے بلاوجہ اس نے خودکشی کی ہوگی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔ اے ٹی ایس یا پولیس اہل کار کی کسٹڈی میں بعض ملزمان اس قدرتنگ آجاتے ہیں کہ وہ زندگی ہی سے مایوس ہوجاتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ رضوان بیگ کے ساتھ بھی ایسا ہوا ہو۔ پولیس یا تفتیشی ایجنسی کے تحت خودکشی کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے بلکہ اس سے قبل بھی اس طرح کے واقعات ہوتے رہے ہیں۔ یہاں اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ زیادہ تر مسلم نوجوانوں کے ساتھ ہی اس طرح کے معاملات کیوں پیش آتے ہیں؟ مسلمانو کی تفتیش کا معاملہ جب بھی سامنے آتا ہے تو ان سے سخت باز پرس کی جاتی ہے اور انہیں قصور وار ثابت کرنے کیلئے کوئی حربہ نہیں چھوڑا جاتا، یہاں تک کہ ان کے خلاف ثبوت بھی گڑھے جاتے ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ چند برسوں کے دوران مختلف دہشت گردانہ دھماکوں کا ملزام ٹھہرا کر انہیں جیلوں میں ڈالا گیا اور پھر ان کے خلاف ڈھیر سارے جعلی ثبوت بھی یکجا کئے گئے۔ جب عدالت نے ان کی تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ سارے ثبوت فرضی تھے اور پولیس یا تفتیشی ایجنسیوں کے گڑھے ہوئے تھے۔ چنانچہ عدالت نے گرفتار شدگان کو بری کردیا۔ یہ واقعہ کسی ایک کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ درجنوں بے قصوروں کو عدالت نے باعزت بری کیا۔ اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اکثر حالات میں پولیس اور خفیہ ایجنسیاں ثبوت گڑھنے کا کام بھی کرتی ہپیں۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایسا عام طورپر سے مسلمانوں کے ساتھ ہی کیا جاتاہے۔ اس کی بہت سی مثالیں دہشت گردانہ واقعات کی تفتیش کے ذیل میں مل جاتی ہیں۔ تفتیش کا محور مسلمانوں ہی کو بنانا اور دیگر تمام امکانات کو نظر انداز کردینا یقیناً تفتیش کے اصولوں کے خلاف عمل ہے۔ خاص طورسے وہ دہشت گردانہ واقعات جو مسلمانوں کے مذہبی مقامات پر ہوئے اور جن میں مسلمانوں کی جانوں کا اتلاف ہوا، ان میں تو کم ازکم ان تنظیموںاور گروہوں کے افراد سے بھی تفتیش کی جانی چاہئے تھی جو مسلمانوں سے بے انتہا دشمنی رکھتے ہیں اور کوئی موقع ایسا نہیں چھوٹے جن میں وہ مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچاسکیں۔ گجرات فساد کے دوران فرقہ پرست گرووہوں نے مسلمانوں کو جس بے دردی کے ساتھ نشانہ بنایا تھا، خواتین کی آبروریزی کی تھی، ان کی املاک کو تباہ کیا تھا اور ان کا قتل عام کیا تھا، ان سے کچھ بعد نہیں کہ وہ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے میں تمام حدوں کو پار کرجائیں۔ افسوسناک بات تو یہ ہے کہ کتنے ہی لیڈران اور حکومت کے ذمہ دار بھی زیادتی کے معاملے میں ملوث نظر آتے ہیں۔ تحقیق کے مطابق گجرات کے وزیراعلیٰ مودی نے فسادیوں کو مسلمانوں کے قتل عام کی اجازت دی تھی جس کا پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے فرقہ پرستوں نے گجرات کے کتنے ہی خاندانوں کو اجاڑ ڈالا تھا، کتنی ہی عورتوں کو بے عزت کیا تھا اور کتنے ہی معصوم بچوں کو بے دردی سے قتل کرڈالا تھا۔ لیکن مودی اور شرپسندوں کے خلاف جس طرح کی تحقیق و تفتیش ہونی چاہئے تھی وہ نہیں ہوئی اور متاثرین کو اب بھی انصاف کا انتظار ہے۔ غور طلب ہے کہ جن عناصر نے ایک ہی خاندان کی بہو، ماں، باپ، نانی، نانا، بہن اور بھانجی کو نذر آتش کیا ہو، بہن اور بھانجی کوقتل کرنے سے پہلے ان کی عصمت دری کی ہو، دیڑھ سالہ بچہ پر ظلم و بربریت کی انتہا کرڈالی ہو، اسی طرح جن درندوں نے حاملہ عورتوں کا پیٹ چاک کیا ہو، بچہ کو سنگینوں پر اچھالا ہو، کیا وہ قصور وار نہیں ہیں۔ کیا ان سے بھی بڑھ کر کوئی دہشت گردیا قصور وار ہوسکتاہے؟ پھر جب دہشت گردی کے واقعات کہیں رونما ہوتے ہیں تو ایسے خونخواروں اور دہشت گردوں یا جن تنظیموں سے وہ جڑے ہوئے ہیں ان سے پوچھ گچھ کیوں نہیں کی جاتی، کیوں ان پر شک کی سوئی نہیں جاتی؟کیوں انہیں تفتیش سے الگ رکھا جاتاہے؟ اس کے برعکس وہ سیدھے سادھے لوگ جن کا ریکارڈ صاف ستھرا ہوتا ہے، ان سے سخت باز پرس کی جاتی ہے اور انہیں تک تفتیش کے دائرے کو محدود رکھا جاتاہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب تک دہشت گردانہ واقعات کے ذمہ داروںکو پابند سلاسل کرنے کیلئے تمام ممکنہ پہلوؤں پر توجہ نہیں دی جائے گی اس وقت تک اصلی دہشت گردوں کو گرفتار نہیں کیا جاسکتا اور جب تک اصل دہشت گرد گرفتار ہوکر اپنے انجام کو نہیں پہنچ جاتے اس وقت تک دہشت گردی کے سدباب میں کامیابی نہیں مل سکتی۔ فعال سکیورٹی نظام اور منظم خفیہ ایجنسیوں کی غیر جانبدارانہ تفتیش کے ذریعہ ہی رونما ہونے والے دہشت گردانہ واقعات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اندھا دھند لوگوں کو گرفتار کرنا اور محض کسی ایک فرقہ کو تفیش کا محور بنانا ہرگز ملک میں بڑھتی دہشت گردی کا حل نہیں ہے۔ پولیس او رتفتیش کے نظام کو بہتر بنانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ جب تک یہ دونوں محکمے درست نہیں ہوں گے، پولیس والے اپنی حرکتوں سے باز نہیں آئیں گے اور تفتیش کار انصاف سے کام نہیں لیں گے اس وقت تک ایسے واقعات روشنی میں آتے رہیں گے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ اس طرح کے معاملوں کی حساسیت کو پیش نظر رکھتے ہوئلے پولیس اور تفتیش کار ایجنسیوں کو درست بنانے کی کوشش کرے۔

اسرار الحق قاسمی

Muslim youth fears about police, investigation and torture - Article : Asrar ul Haq Qasmi

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں