سب ایڈیٹر- ایک گمنام صحافی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-09

سب ایڈیٹر- ایک گمنام صحافی

صحافت کے ابتدائی دور میں اخبار کا مالک ہی ایڈیٹر، پرنٹر اور پبلشر ہوا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ اخبار کے آفس کی صفائی ستھرائی کا کام بھی اسی کے ذمہ ہوتا تھا کیونکہ ان دنوں صحافت صرف خدمت کے دائیرے میں تھی ابھی صنعت میں تبدیل نہیں ہو پائی تھی مگر آج صحافت ایک دلکش صنعت میں تبدیل ہو گئی ہے ۔ اس لئے اخبار کی ترتیب و اشاعت کیلئے کئی ایک تربیت یافتہ افراد وابستہ ہوتے ہیں جو اپنے اپنے شعبہ میں مہارت رکھتے ہیں ۔
اخبار کے مختلف شعبوں میں شعبہ ادارت کو خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس کے بغیر اخبار کا وجود ہی ختم ہو جائے گا۔ صحافتی مواد جیسے خبریں، اطلاعات، مضامین، ادارے، فیچر، کالم اور دیگر موادکی ترتیب و تہذیب کا کام شعبہ ادارت کے ذمہ ہوتا ہے عموماً اس کا سربراہ ایڈیٹر یا چیف ایڈیٹر ہوتا ہے ۔ عموماً اردو اخبارات میں ایڈیٹر ہی اخبار کے مالک، پرنٹر اور پبلشر ہوتے ہیں جبکہ انگریزی اور دوسری بڑی زبانوں کے بڑے اخبارات میں ایڈیٹر خود ملازم ہوتے ہیں ۔
اخبار کے دفتر میں اشاعت کیلئے بہت سا مواد حاصل ہوتا ہے جن میں خبریں، اطلاعات، رائیں، مضامین اور خطوط وغیرہ حاصل ہوتے ہی فوری چھپنے کیلئے نہیں بھیجا جاتا ہے بلک منتخب مواد کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے ۔ پھر اس کے متن کی نوک پلک سنواری جاتی ہے ۔ سرخی تیار کی جاتی ہے ۔ ابتدائیہ لکھا جاتا ہے ۔ صفحہ اور کالم کا تعین ہوتا ہے ۔ تب کہیں وہ خبر کتابت یا کمپوزنگ شعبے کو روانہ کی جاتی ہے ۔ مواد کے حصول اور اشاعت سے قبل کے تمام مراحل کو ادارت کا نام دیا گیا ہے جسے Subbing بھی کہتے ہیں Subbing کی ذمہ داری سب ایڈیٹر کے سپرد کی جاتی ہے ۔ عام طور پر Sub Editor کو Sub کے نام سے پکارا جاتا ہے ۔ Subbing کے عمل کو Copy reading بھی کہا جاتا ہے ۔ اردو میں سب ایڈیٹر کو نائب مدیر کہتے ہیں۔

سب ایڈیٹر صحافتی دنیا کا ایک گمنام اور مظلوم کارکن ہوتا ہے جو دن رات اخباری صفحات پر بہتر سے بہتر مواد کو بکھیرتا ہے ۔ صفحہ کی ترتیب و تزئین کا ہمیشہ خیال رکھتا ہے مگر اس کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ سب ایڈیٹر اس گمنام مزدور جیسا ہے جس نے نہایت کمال اور فن سے اپنے ہاتھوں سے تاج محل کی تعمیر توکرتا ہے مگر اس کا نام تاریخ کے صفحات میں کہیں نہیں ملتا بلکہ تاج محل بنوانے والے کا نام ہی زندۂ جاوید ہو گیا۔ سید اقبال قادری سب ایڈیٹر سے پوری پوری ہمدرد ی دکھاتے ہوئے لکھتے ہیں ۔
"نائب مدیروں کی یہ بدقسمتی ہے کہ نہ تو ان کے نام اخبار کے صفحات پر شائع ہوتے ہیں اور نہ ہی انہیں قارئین سے ذاتی طور پر تبادلہ خیال کا موقع ملتا ہے ۔ یہ گمنام ستاروں کی سی زندگی بسر کرتے ہیں حالانکہ کسی بھی اخبار کی ترتیب اور اشاعت میں نائب مدیروں کی محنت کا بڑا دخل رہتا ہے مگر علانیہ طور پر نہ تو ان کی عزت افزائی ہوتی ہے اور نہ ان کی کارکر دگی پر انعامات یا اعزازات کی بارش ہوتی ہے کبھی کبھی اچھی اور اہم خبروں کی خصوصی رپورٹوں کے ساتھ نامہ نگار کے نام بھی دیئے جاتے ہیں مگر کبھی یہ شائع نہیں کیا جاتا کہ فلاں مواد کی ادارت فلاں سب ایڈیٹر کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے ۔ نائب مدیر وہ سورماہیں جن کی صلاحیت کے گن گائے نہیں جاتے اور جن کی کوی تہنیتی تقریب منائی جاتی ہے اس معاندانہ رویہ کے باوجود نائب مدیر پوری ایمانداری اور سنجیدگی سے اپنی ادارتی ذمہ داریاں نبھاتے ہیں اور عملی صحافت کا پرچم بلند رکھتے ہیں "۔

ایک اخبار میں کئی ایک سب ایڈیٹر مقرر ہوتے ہیں ۔ اخبار کے مختلف صفحات جس کی موضوعاتی تقسیم عمل میں آتی ہے ۔ جیسے مقامی خبروں کا صفحہ، قومی صفحہ، بین الاقوامی صفحہ، غیرملکی خبروں کا صفحہ، کھیلوں کا صفحہ، خصوصی ضمیمہ وغیرہ ہر صفحہ کا ایک انچارج مقرر ہوتا ہے ۔ بعض اخبارات میں چیف سب ایڈیٹر دو یا دو سے زائد صفحات کا انچارج ہوتا ہے ۔ ہر چیف سب ایڈیٹر کے پاس کم از کم ایک سب ایڈیٹر ضرور ہوتا ہے ۔ بڑے اخبارات میں کئی سب ایڈیٹر مقرر ہوتے ہیں ۔

موجودہ دور ابلاغیات کا دور ہے ۔ اس لئے آج ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کی سخت ضرورت ہے ۔ اخباری دفتر میں بھی مختلف علوم یا میدان میں مہارت رکھنے والے افراد کو بحیثیت سب ایڈیٹر تقرر کیا جاتا ہے تاکہ وہ اپنے مخصوص میدان سے متعلق خبروں اور مضامین کی بہتر طور پر ادارت کا فریضہ انجام دے سکے ۔
اخبار نویسی کے ابتدائی دور میں ایک ہی فرد اخبار کے جملہ امور طئے کرتا تھا وہی اخبار کا مالک وہی ایڈیٹر وہی رپورٹر یا سب ایڈیٹر بلکہ طابع و ناشر بھی وہی ہوا کرتا تھا۔ ان دنوں دراصل خبروں کے حصول کے ذرائع کافی محدود تھے ۔ ایک شہر کی خبر دوسرے شہر پہنچنے تک دنوں بلکہ ہفتوں مہینوں درکار ہوتے تھے اس طرح سے اخبار میں ایک آدھ خبر اور اس پر رائے بلکہ ایک بھرپور مضمون شامل ہوا کرتا تھا۔ اخبار پڑھنے والوں کی تعداد کافی کم تھی۔ اخبار کی ترتیب و تزئین پر کوئی دھیان نہیں دیا جاتا تھا، لیکن زمانے کی ترقی، علم کابڑھتا رحجان اور مسابقتی دوڑنے صحافت کی کایا پلٹ دی ہے ۔ آج بے شمار ذرائعوں سے خبریں وصول ہوتی ہیں ۔ اخبار کا اپنا نیٹ ورک ہوتا ہے ۔ قارئین تازہ تازہ خبریں پڑھنے کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔ بہتر مواد اور خوبصورت پیشکش میں گویا ایک مسابقت شروع ہو گئی۔ ہر اخبار یہی چاہتا ہے کہ وہ قارئین کی پسند کا خیال رکھے ۔ خبروں میں صداقت اور اس کی پیشکش اتنی دلکش ہو کہ قارئین کو اخبار پڑھنے میں کوئی دقت پیش نہ آئے ۔

آج اخبار کے دفتر کو بے شمار خبریں، اطلاعات، مضامین اور قارئین کے خطوط موصول ہوتے ہیں ۔ اخبار کے اپنے نامہ نگار بھی رپورٹنگ کرتے ہیں ۔ بے شمار صحافتی مواد موصول ہوتا ہے لیکن اخبار کے صفحات کم ہوتے ہیں ۔ موصول شدہ مواد میں سے قابل اشاعت مواد کو منتخب کرنا، کانٹ چھانٹ کرنا، نوک پلک سنوارنا، عنوانات طئے کرنا اور صفحہ میں جگہ کا تعین کرنا غرض کئی ایک مراحل ایسے ہیں، جس کی تکمیل میں وقت اور افراد کی ضرورت پڑتی ہے ۔ اخبارات میں عموماً یہ تمام مراحل و مسائل کو حل کرنے میں ایک فرد ناکافی ہوتا ہے ۔ ایسے میں اخبار کے ایڈیٹرکو اپنے لئے معاونین کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ ایسے ہی تربیت یافتہ افراد سب ایڈیٹر کہلاتے ہیں ابتداء میں سب ایڈیٹر کا کوئی رواج نہیں تھا لیکن آج کوئی بھی اخبار بغیر سب ایڈیٹرز کے وقت مقررہ کے اندر شائع نہیں ہو سکتا۔ اخبار جتنا بڑا ہوتا ہے وہاں سب ایڈیٹر کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں ۔ Subbing کا عمل ایک فن ہے جس میں اہلیت اور قابلیت کے ساتھ ساتھ مہارت کی بھی ضرورت ہوتی ہے ۔

جب بھی کوئی مواد اخبار کے دفتر کو برائے اشاعت موصول ہوتا ہے تو سب سے پہلے نیوز ایڈیٹر مواد کو چکھتا ہے اور اس کے معیار کا تعین کرتا ہے اور یہ بھی فیصلہ کرتا ہے کہ یہ مواد قابل اشاعت ہے یا نہیں ؟ اگر موصولہ مواد قابل اشاعت ہو تو مواد کے موضوع اور تنوع کے لحاظ سے اسے متعلقہ چیف سب ایڈیٹر کے حوالے کرتا ہے ۔ یہیں سے سب ایڈیٹر کا کام شروع ہوتا ہے ۔ مواد کا نوک پلک سنوارنا سب ایڈیٹر کا کام ہے ۔ ابتدائیہ لکھنا، سرخی تجویز کرنا، پیراگرافوں کی تقسیم، لہجے درست کرنا تعقید لفظی کو دور کرنا، ناموں کی صحت پر توجہ دینا، زبان اور قواعد کی رو سے عبارت کی تصحیح کرنا، طویل خبر کو مختصر کرنا، خبر کے اہم اجزاء کو روشن کرنا وغیرہ سب ایڈیٹر کے فرائض میں شامل ہیں ۔ خبر کی اہمیت کے لحاظ سے اس کی تزئین و آرائش کالے آوٹ بنانا بھی سب ایڈیٹر کا کام ہے ۔ بعض اخبارات میں خبر کو اہمیت کے لحاظ سے صفحات کا تعین کرنا بھی سب ایڈیٹر کی ذمہ داری میں شامل ہے ۔ عام طور سے سب ایڈیٹر اپنے کام میں نیلی روشنائی یا نیلا قلم استعمال کرتے ہیں اسی لے سب ایڈیٹنگ کی کار روائی کو Bule Pencelling بھی کہا جاتا ہے ۔
سب ایڈیٹر کا کام دودھ کا دودھ پانی کا پانی جیسا ہوتا ہے کیونکہ وہ موصولہ مواد میں سے غیر ضروری الفاظ اور کردار یا واقعات کو کاٹ دیتا ہے صرف وہی چیزیں لیتا ہے جو اخبار کے صفحات کے زینت بننے کے قابل ہوں بعض ا خباروں میں اداریے بھی سب ایڈیٹر لکھا کرتے ہیں اور ترجمہ کا کام بھی سب ایڈیٹر انجام دیتے ہیں ۔

سید اقبال قادری نے اپنی تصنیف رہبر اخبار نویسی میں سب ایڈیٹر کی اہمیت پر یوں رائے دی ہے ۔
"نائب مدیر ایک تیز مبلع صحافی ہوتا ہے جسے ہر فن مولا ہونا ضروری ہے ۔ اس کے ہر رویہ میں جولانی ادارت کے فرائض سے اس کا میلان ہونا ضروری ہے ۔ کبھی و ہ معماروں کی کانفرنس کی تفصیلات پڑھ رہا ہوتا ہے تو کبھی پہلوانوں کے مسائل آئی ہوئی خبروں کو وضع قطع بخش رہا ہوتا ہے ۔ کبھی امریکہ کے صدر تقریر کو دلچسپ طریقہ پر پیش کرنے کی کوشش میں مگن ہے تو کبھی کسی اسپورٹس انجمن کے انتخابات کے نتائج کو جگہ دینے کیلئے غوروفکر میں مصروف رہتا ہے کبھی وہ ٹیگور پر کسی ماہر ادیب کی تقریر کا خلاصہ تیار کر رہا ہے تو کبھی ماہی گیروں کے مسائل کی فہرست میں کانٹ چھانٹ میں مشغول ہے اپنی تعلیمی قابلیت استعداد اور تجربہ کی روشنی میں کامیاب نائب مدیر ہر معاملہ سلجھانے میں طاق ہوتا ہے اور ہر واقعہ کو ایک خبری مزاج سے مزین کرین بہتر سے بہتر طریقے پر اخبار کے صفحات پر عیاں کرنے میں مصروف رہتا ہے "۔

اس طرح سے ادارتی شعبے کا تقریباً کام سب ایڈیٹر ہی انجام دیتا ہے ۔ اس کی اہمیت اور ضرورت مسلم ہے آج کے دور میں سب ایڈیٹر کے بغیر کسی اخبار کو جاری کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ محال ہے ۔ روزناموں کے دفاتر میں کام عموماً دو شفٹ یا تین شفٹ میں ہوتا ہے عموماً ایک شفٹ 8 گھنٹوں پر مشتمل ہوتی ہے ۔ ایک سب ایڈر کسی ایک شفٹ میں کام کرتا ہے اس طرح مختلف صفحات کے چیف سب ایڈیٹر کے ماتحت کئی ایک سب ایڈیٹر دن رات کام کرتے ہیں "لی" ٹیبل پر تمام سب ایڈیٹر اپنے اپنے کام میں مصروف ہو جاتے ہیں ۔ سب ایڈیٹر کی اس قدر عرق ریزی اور مغزپاشی کے باوجود وہ گمنام ہی رہتا ہے اخبار کے کسی صفحے پر بھی اس کا نام نہیں ہوتا۔
اخبار کے دفتر میں عموماً پڑھے لکھے افراد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن لیکن ہر پڑھا لکھا شخص عملہ ادارت میں شامل نہیں ہو سکتا۔ سب ایڈیٹر کیلئے صرف پڑھا لکھا ہونا ہی شرط نہیں ہے بلکہ اسے کئی ایک اوصاف کا مالک ہونا ضروری ہے ۔ اگر کسی شخص میں یہ اوصاف یا خوبیاں نہ پائی جاتی ہوں تو اسے اکتساب کے ذریعہ ان خوبیوں کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہئے ورنہ وہ سب ایڈیٹر جیسے محنت طلب اور صبرآزما کام کیلئے قطعی اہل نہیں ہو سکتا۔ سب ایڈیٹر کیلئے درج ذیل اوصاف یا صلاحیتوں کا حامل ہونا ضروری ہے ۔

وسیع النظری اورخود ذوقی کے اوصاف سب ایڈیٹر کیلئے بہت ضروری ہیں ۔ خبر اور مضمون کی اہمیت اور خوبی کا صحیح اندازہ کرنے کیلئے صاف ستھرے اور سلجھے ہوئے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ حالات و واقعات کی سطحی اور ظاہری صورت سے متاثر نہ ہو بلکہ ہر بات اور ہر واقعہ کی اہمیت کو جانچنے اور پرکھنے کیلئے اس کے پس منظر کو سمجھنے کی کوشش کرے ۔ ایسا شخص جو ناپختہ ذہن اور خام خیال کا مالک ہوتا ہے وہ دوسروں کے خیالات کو سمجھنے اور اچھے خیالات کو قبول کرنے قطعی تیار نہیں ہوتا۔ ایسے تنگ نظر لوگ ادارت کا کام انجام نہیں دے سکتے کیونکہ وہ عقل و شعور کے بجائے جذبات کا سہارا لیتے ہیں ۔ صحافتی میدان میں تنگ نظر، جذباتی اور انتہاء پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ انتہاء پسندی کے بجائے توازن اور اعتدال کا راستہ اسے اپنانا چاہئے کیونکہ زبان سے نکلا ہوا لفظ اور کمان سے نکلا ہوا تیر کبھی واپس نہیں آتا۔ پھر قلم سے نکلے ہوئے الفاظ کی اہمیت اور تاثیر کہیں زیادہ ہوتی ہے ۔ قلمکار کی کاٹ تلوار کی کاٹ سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے ۔ اس لئے سب ایڈیٹر کو ذہین، فطین اور اچھی سوجھ بوجھ کا مالک ہونا ضروری ہے ۔ وہ اپنے ذاتی نظریات، خیالات اور اپنی پسند و ناپسند کو بالائے طاق رکھے ۔ تعصب اور انتہاء پسندی کو اپنے قریب پھٹکنے نہ دے ۔ سب ایڈیٹر کی ذاتی عقل و شعور اور فہم و ادارک کا خبروں اور مضامین میں حسن اور عمدگی پیدا کرنے میں بڑا دخل ہوتا ہے ۔ اس لئے اسے متوازن اور فہیم شخصیت کا مالک ہونا ضروری ہے ۔
سب ایڈیٹر کے کام کی نوعیت، وسعت اور تسلسل، سب ایڈیٹر سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ متحمل مزاج ہو۔ خبروں کے انتخاب اور ان کی اہمیت کے مطابق جگہ اور مقام دینے کیلئے قوت فیصلہ اور قوت تمیز کی ضرورت ہوتی ہے ۔ اسے ایک جج کا کردار نبھانا چاہئے کیونکہ مختلف مذہب، طبقہ اور پیشہ سے تعلق رکھنے والے افراد اپنی اپنی خبریں یا اطلاعات لے کر آتے ہیں اپنی اور ان کی پسند اور شوق کا لحاظ رکھتے ہوئے خبر یا واقعہ کی اہمیت کا اندازہ لگائے اور اس کے مطابق صفحات میں جگہ کا تعین کرے ۔

اخبار میں صرف خبریں ہی شائع نہیں ہوتیں بلکہ ہر طرح کی معلومات اور ہر طرح کے افکار خیالات شائع کئے جاتے ہیں ۔ فنون لطیفہ، ادب، فلسفہ، نفسیات، سائنس، مذہب، اقتصادیات، سیاسیات، غرض یہ کہ ہر طرح کے مضامین اور زندگی کے ہر شعبے کے بارے میں اطلاعات، اخبارات میں جگہ پاتی ہیں ۔ سب ایڈیٹر رنگارنگ واقعات اور موضوعات کی خبریں اور مضامین شائع کرنے کے کام کا نہ صرف نگران اور ذمہ دار ہوتا ہے بلکہ انہیں بہتر اور مکمل بنانے کیلئے وہ ان میں ترمیم اور اضافے بھی کرتا ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب سب ایڈیٹر مختلف علوم و فنون سے واقف ہو۔ وسیع معلومات عامہ رکھتا ہو۔ جغرافیائی اور تاریخی حقائق سے آشنا ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ سب ایڈیٹر تمام علوم کا ماہرہو بلکہ وہ ان سب علوم کے بارے میں کچھ نہ کچھ واقفیت رکھتا ہو۔ سب ایڈیٹر کا مطالعہ جتنا وسیع ہو گا اس کے کام میں اتنی ہی عمدگی اور پختگی پیدا ہو جائے گی۔ سب ایڈیٹر پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ قومی اور بین الاقوامی سیاسیات کا درک رکھے ۔ وہ عوامی رجحانات اور حالات حاضری سے پوری طرح آگاہ ہو کیونکہ اخبار کے دفتر میں مسائل حاضرہ سے متعلق مواد موصول ہو گا اگر سب ایڈیٹر خود ان مسائل سے پوری طرح آگاہ نہ ہو گا تو وہ ان کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے گا اور نہ ہی ان میں اصلاح و ترمیم کے قابل ہو گا۔
اخبار اپنے قارئین کے رجحانات و میلانات ان کی خواہشات و جذبات اور اس معاشرے کی مذہبی، سماجی اور سیاسی رسوم و روایات سے پوری طرح باخبر ہو اس سلسلے میں اس کی ذراسی بے علمی اور غفلت بھی کسی بڑے ہنگامے کا سبب بن سکتی ہے ۔
اخبار کی زبان صاف سادہ اور آسان ہونی چاہئے ۔ اس میں ادبی، چاشنی اور رنگینی کی نہیں بلکہ فصاحت و بلاغت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ سب ایڈیٹر کو اپنی زبان پر اس قدر عبور ہونا چاہئے کہ وہ ہر طرح کے خیالات کو باآسانی ادا کر سکے اور دوسروں کی تحریر شائع کرنے سے پہلے قابل فہم بنا سکے ۔ اگر سب ایڈیٹر کے پاس ذخیرہ الفاظ کی کمی اور زبان پر مکمل قدرت نہ ہو تو اسے قدم قدم پر مشکلات سے دوچار ہونا پڑے گا جن کی وجہ سے اخبار کا معنوی حسن مجروح ہو جائے گا اور غیرواضح زبان و بیان سے غلط فہمیاں پیدا ہونے کا اندیشہ رہے گا۔ صحافتی زبان ادبی چاشنی سے عاری ہوتی ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ ادب سے بے بہرہ بلکہ وہ ادب کی تاریخ اور ادباء شعراء کے بارے میں بھی معلومات رکھتا ہو کیونکہ یہی معلومات انداز بیان پر اثر انداز ہو سکتی ہیں ۔
سب ایڈیٹر کو ترجمے کے مرحلے سے بھی گذرنا پڑتا ہے ۔ اس لئے اسے ایک سے زائد زبانوں پر مکمل قدرت رکھنا لازم ہے ۔ خصوصاً انگریزی زبان میں اسے ماہر ہونا چاہئے کیونکہ خبروں کی ایجنسیاں صرف انگریزی زبان میں ہی خبریں بھیجتی ہیں ۔ انگریزی زبان اس کی قواعد اور اس کے مزاج و تہذیب سے بہت حد واقفیت لازم ہے ۔ سب ایڈیٹر جتنی زیادہ زبانوں سے واقف ہو گا۔ اس کی تحریر میں اتنی ہی زیادہ پختگی پیدا ہو گی۔ اس کے علاوہ ترجمے کے اصول و ضوابط سے واقفیت بھی لازمی ہے ۔

کہا جاتا ہے کہ صحت مند جسم میں صحت مند دماغ کی تخلیق ہوتی ہے ۔ اس لئے سب ایڈیٹر کو بھی اپنی جسمانی صحت پر کافی توجہ دینی پڑتی ہے ۔ اسے سخت ذہنی اور اعصابی دباؤ برداشت کرنا پڑتا ہے وہ مسلسل ساتھ آٹھ گھنٹے ایک جگہ بیٹھ کر کاکام کرتا رہتا ہے جو عرق ریزی اور مغز پاشی کا کام یقیناً تھکا دینے والا ہوتا ہے ۔ ایسے میں اسے جسمانی طورپر فٹ ہونا چاہئے ۔ کاہلی، تساہلی، ٹال مٹول اور حیل وحجت کے عادی افراد سب ایڈیٹر کی ذمہ داری نہیں اٹھا سکتے ۔ سب ایڈیٹر پر کام تیز رفتاری اور چابکدستی سے کرتا ہے ۔ اس کا ذہن اس کی آنکھیں اس کے ہاتھ اور اس کا قلم سبھی چاق و چوبند رہتے ہیں ۔ اس کے پاس اتنا وقت نہیں رہتا کہ وہ اپنی تھکن کو دور کرنے کیلئے تھوڑی دیر آرام کرے یا کچھ دیر سستانے کیلئے بیٹھا رہے اسے بے شمار اخبار مود کی تصحیح، ترجمہ تلخیص کرنا بھی پوری خبر کو ازسرنو خود ہی لکھنا پڑتا ہے اور یہ تمام کام وقت مقررہ کے اندر اندر مکمل کرنے ہوتے ہیں اسی لئے سب ایڈیٹر کو جسمانی طور پر تندرست اور صحت مند ہونا لازم ہے ۔

صحافی کا ہر دن امتحان کا دن ہوتا ہے اسے ایک محدود وقت میں بہت سا کام کرنا پڑتا ہے ۔ نائب مدیر چونکہ اخباری صفحات کے ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتا ہے اس لئے اسے ذہنی و جسمانی طور پر تندرست رہنا چاہئے ۔ سب ایڈیٹر صحافتی دنیا کا ایک سرگرم کارکن ہوتا ہے اس لئے اس میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور قابلیتوں کا ہونا ضروری ہے اسے عام قوانین خاص کر صحافت سے متعلق جملہ امور سے واقفیت لازم ہے تاکہ اس سے کوئی لغزش سرزد نہ ہو سکے جو قانون کی نظر میں جرم و خطاء ہو تو توہین عدالت اور ازالہ حیثیت عرفی کے قوانین سے واقفیت ضروری ہے ۔
سب ایڈیٹر کو اپنے کام اور پیشے سے متعلق بھی بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے ترجمہ کرنا، خبر کی ہیئت اور ترکیب، سرخی لگانا، کاپی جوڑنا، میک اپ اور صحافتی اصطلاحات وغیرہ سے واقفیت لازم ہے ۔ فن صحافت کے مختلف گوشوں سے واقف ہونا ضروری ہے گوکہ وہ عملی طور پر مختلف میدان میں اپنے جوہر نہیں دکھاتا لیکن اس کے ٹیبل پر صحافت کے مختلف گوشوں اور پہلوؤں سے متعلق اراد اور ان کی رپورٹوں سے اسے سابقہ پڑتا ہے یہ مکن نہیں کہ کسی سب ایڈیٹر میں یہ تمام اوصاف خوبیاں، صلاحیتیں اور لیاقتیں موجود ہوں بلکہ وہ اپنی سمجھ بوجھ وسیع مطالعہ، مشاہدہ اور تجربے کی بنیاد پر مختلف فنی پہلوؤں سے آشنا ہو سکتا ہے اور اپنے فن میں طاق ہو سکتا ہے یہ اسی وقت ممکن ہے جب سب ایڈیٹر میں کچھ سیکھنے اور آگے بڑھنے کا جذبہ موجود ہو اور وہ اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا کوئی مقصد طئے کرے اور ان مقاصد کے حصول کیلئے صحیح ڈھنگ سے جدوجہد کرے کیونکہ انسان گود سے گور تک طالب علم ہی ہوتا ہے اس لئے سب ایڈیٹر میں ہمیشہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کا جذبہ ہونا چاہئے ۔

اخباری دفتر کو روزانہ مختلف نیوز ایجنسیوں، رپورٹر نامہ نگار اور مختلف افراد سے کئی ایک خبریں اور اطلاعات موصول ہوتی ہیں گوکہ یہ سارا مواد قابل اشاعت نہیں ہوتا اگر اشاعت کے لائق بھی ہو تو اس میں بے شمار خامیاں ہوتی ہیں جس میں زبان، اعداد و شمار مقامات کی غلطیوں کے علاوہ زبان اور قواعد کی غلطیاں بھی ہوتی ہیں ان سب خامیوں کودور کرنا اور موصولہ خبر کو آسان اور دلچسپ بنانے کی ذمہ داری سب ایڈیٹر پر ہوتی ہے ۔
خبریں کئی ہوتی ہیں لیکن ہر خبر اخبار میں شائع نہیں ہو سکتی۔ اخبار کی پالیسی، مزاج اور اہمیت کو مدنظر رکھ کر خبروں کا انتخاب کیا جاتا ہے ۔ اگرچہ اخبار کے دفتر میں خبر کے انتخاب کا کام نیوز ایڈیٹر یا چیف سب ایڈیٹر کے ذمہ ہوتا ہے، لیکن وقت کی کمی اور مواد کی بہتات کی وجہ سے اکثر نیوز ایڈیٹر چیف سب ایڈیٹر خبروں کے انتخاب کا معاملہ سب ایڈیٹر کے حوالے کر دیتا ہے اس لئے سب ایڈیٹر کو خبروں کے انتخاب کا سلیقہ اور فن آنا چاہئے کیونکہ بہت سی خبروں میں خبریت کا پہلو نہیں ہوتا ایسی خبریں شامل اشاعت نہیں ہو سکتیں خبروں کے انتخاب کے بعد اس کی اہمیت کا تعین کرنا بھی سب ایڈیٹر کے فرائض میں شامل ہیں کونسی خبر کس صفحہ پر اور کتنے کالموں پر محیط ہو گی اس کا فیصلہ سب ایڈیٹر ہی کرتا ہے یا اسے اپنے باس سے مشورہ کرنا پڑتا ہے ۔

سب ایڈیٹر کا اہم فریضہ خبر کی صحت کی جانچ پڑتال ہے ۔ خبر واقعات پر مشتمل ہے ۔ وہ صحیح ہے یا نہیں اس میں دیئے گئے نام، اعداد و شمار اور مقامات صداقت پر مبنی ہیں یا نہیں ؟ خبریں خواہ نیوز ایجنسیوں، رپورٹروں اور نامہ نگاروں سے موصول ہوں تب بھی اس میں غلطی کا احتمال ہوتا ہے ۔ مستند ذرائعوں پر آنکھ بند کر کے بھروسہ نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس کی صداقت کی جانچ پڑتال ضروری ہوتی ہے خبروں کی جانچ پڑتال کا آسان طریقہ یہ ہے کہ شہر میں رونما ہوا کوئی اہم واقعہ کی رپورٹ دو تین ذرائع سے حاصل ہوتی ہے ۔ جن میں نیوز ایجنسی یا اسٹاف رپورٹر ہوتا ہے ۔ ایک ہی واقعہ کی مختلف رپورٹوں کو تجزیہ اور تقابل کیا جاسکتا ہے ۔ مزید اطمینان کیلئے اسٹاف رپورٹر سے ربط پیدا کر کے اپنے شک کو دور کر سکتا ہے ۔

بعض موصولہ خبروں میں ذاتی رائے یا تبصرہ بھی شامل ہوتا ہے جبکہ خبر کسی دلچسپ واقعہ کے فوری اور بے لاگ بیان کا نام ہے ۔ رپورٹر خبروں کو بے لاگ بنانے کی اپنی طور پر پوری کوشش کرتے ہیں ۔ اس کے باوجود کبھی کبھی لاشعوری طور پر رپورٹر کی ذاتی رائے خبر میں شامل ہو جاتی ہے ۔ خبر میں اس کی ذاتی پسند اور ناپسند کی جھلک بھی عیاں ہوتی ہے ۔ سب ایڈیٹر کو لازم ہے کہ وہ خبر کا اہم عنصر معروضیت کا مکمل لحاظ رکھے اور رپورٹر کی ذاتی پسند و ناپسند اور اس کی رائے سے خبر کو پاک کرے ۔ خبروں میں ذاتی رائے اور تبصروں کی شمولیت کے طرح مبالغہ آمیزی کا احتمال بھی ہوتا ہے ۔ عموماً مختلف اشخاص، عمارات، اجتماع وغیرہ کی صفات بیان کرتے ہوئے مبالغہ آمیزی سے کام لیا جاتا ہے ۔ چنانچہ خبر کو مبالغہ آمیزی سے پاک کر کے اور مکمل طور پر صحیح اور معروضی خبر بنانا سب ایڈیٹر کا کام ہ۔
بہت سی خبریں سرکاری، نیم سرکاری یا نجی اداروں کے پریس نوٹ کی صورت میں آتی ہے اس کے علاوہ سیاسیجماعتیں اور ادبی و ثقافتی انجمنیں اپنی روداد روانہ کرتی ہیں ۔ اس قسم کے مواد میں پروپگنڈہ اور بپلسیٹی کا عنصر شامل ہوتے ہیں ۔ یہ پروپگنڈہ اور پبلسٹی یا تشہیری مواد کچھ اتنا زیادہ ہوتا ہے خبریت کا پہلو کہیں گم ہو جاتا ہے۔ بعض ذہین افسران تعلقات عامہ اشتہاری مواد کو خبروں یا فیچروں کی شکل دے کر بھیجتے ہیں ۔ سب ایڈیٹر کا فرض ہے کہ وہ اس چالبازی کو محسوس کرے اور وہ خبروں یا اطلاعات میں سے ایسے مواد کو حذف کرے جو اشتہار کے دائرے میں آتے ہوں اور وہی مواد شائع کرے جس میں خبریت کا پہلو پوشیدہ ہوتا ہے ۔
خبروں میں عموماً ملکوں کے ناموں کے بجائے ان کے دارالحکومت کا نام استعمال ہوتے ہیں ۔ جہاں سے خبر موصول ہوتی ہے اس خبر کی ابتداء میں شہر کا نام ہوتا ہے جسے ڈیٹ لائن کہتے ہیں بعض شہر غیر معروف ہوتے ہیں ۔ پوری خبر پڑھنے کے بعد بھی یہ اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ آخر خبر کونسے ملک کی ہے اس لئے سب ایڈیٹر کو چاہئے کہ وہ شہر کے نام کے بعد ملک کا نام بھی قوسین میں درج کرے تاکہ قارئین کو خبر سے متعلق کوئی شک و شبہ کی گنجائش یا، افہام و تفہیم میں دقت پیش نہ آئے ۔ خبروں میں غیرملکی کرنسی کا بھی ذکر آتا ہے عموماً خرید وفروخت یا غیرملکی امداد کے سلسلے میں ڈالر یا پاونڈ یا ریال یا درہم کا تذکرہ ہوتا ہے ۔ اکثر قارئین دی گئی غیرملکی کرسنی اوزان و پیمانہ جات کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں ۔ سب ایڈیٹر کو اختیار ہے کہ وہ غیرملکی کرنسی یا اوزان و پیمانے کو ملکی کرنسی یا اوزان و پیمانے کو تبدیل کرے تاکہ عام قارئین کو اعداد و شمار کو صحیح انداز ہو سکے ۔
سب ایڈیٹر کا اہم فرض خبروں کو جامع بنانا ہے ۔ بعض خبریں تشنہ ہوتی ہیں چھ کاف کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتی ہیں ۔ ایسی خبروں کی خامیوں کو دور کرنا اور انہیں جامع بنانا ضروری ہوتا ہے ۔ انگریزی یں اس عمل کو Plug The Holes کہا جاتا ہے ۔ خبریں نہ صرف جامع
ہوں بلکہ مؤثر بھی ہوں چونکہ خبریں مختلف ذرائع سے آتی ہیں ان کا اسلوب بیان غیرمؤثر بھی ہو سکتا ہے اس لئے سب ایڈیٹر نہ صرف خبروں کو جامع بنائے گا بلکہ انہیں مؤثر بھی بنائے گا خبروں کو مؤثر بنانے کا یہ مطلب نہیں کہ شعری یا افسانوی انداز میں پیش کیا جائے بلکہ وہ اسلوب اختیار کیا جائے جس سے اخبار کے قارئین کو خبر پڑھنے اور سمجھنے میں کوئی دقت نہ ہو اور خبر کا اثر ان کے ذہن پر چھا جائے ۔

سب ایڈیٹر کو خبر کی زبان بھی درست کرنی ہوتی ہے ۔ یہ ضروری نہیں کہ ہر خبر یا رپورٹ میں زبان کی غلطیاں ہوتی ہوں ۔ چنانچہ اسے یہ دیکھنا چاہئے کہ خبریں یا دوسرا مواد صحیح، آسان اور قابل فہم زبان میں ہو اس میں تقیل الفاظ یا مشکل تراکیب ہوں تو اسے آسان لفظوں سے بدلنا چاہئے جملے پیچیدہ نہیں ہونے چاہئیں ۔ زبان میں سادگی، اختصار اور جامعیت ہو۔ طول کلام نہ ہو اور تکرار و اعادہ نہ ہو سب ایڈیٹر کو یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ خبر مطلوبہ ہیئت کے مطابق ہیکہ نہیں یعنی ڈیٹ لائن، ذرائع کا حوالہ ابتدائیہ پھر واقعہ کی تفصیل اور خبر کی اہمیت سے متعلق سرخی بھی ہے یا نہیں ؟ اگر کچھ کمی و بیشی ہو تو سب ایڈیٹر اس کو ٹھیک کر دیتا ہے ۔
خبریں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے ان میں متعلقہ شعبے کی اصطلاحات بھی استعمال ہونی چاہئیں کیونکہ علم و فن کی مخصوص اصطلاحات ہوتی ہیں جب تک ان کا صحیح استعمال نہیں ہوتا تب تک علم و فن کے مختلف پہلو واضح نہیں ہوتے ۔ اگر ان اصطلاحات کا اردو متبادل ہوتو اسے استعمال کرنا چاہئے اگر نہ ہوں تو جوں کی توں اصطلاح استعمال کی جاسکتی ہے ۔ غرض سب ایڈیٹر صرف زبان کی اصلاح ہی نہیں کرتا بلکہ اسے مؤثر بنانے کیلے اصلاح سازی یا موجودہ اصطلاحات کا استعمال بھی کرتا ہے ۔ ہر خبر کے مختلف نکات کو الگ الگ پیرا گراف میں پیش کرنا بھی خبر کی تحریر کا اہم طریقہ ہے ۔ عموماً خبر رساں اداروں سے آنے والی خبریں مسلسل ہوتی ہیں کوئی پیراگراف کا استعمال نہیں کیا جاتا ایسے موقعوں پر خبر کی پیراگراف میں تقسیم کرنا سب ایڈیٹر کا کام ہے ۔ پیراگراف نہ ہوں تو طویل خبریں مطالعہ کرنے میں اکتاہٹ اور بے زارگی کا احساس پیدا ہوتا ہے ۔
سب ایڈیٹر کا اہم فرض خبروں کی سرخیاں بنانا ہے ۔ ہر وہ خبر جس کی وہ ادارت کرتا ہے یا جس کا ترجمہ کرتا ہے اس پر موزوں سرخی بھی بنانا ضروری ہے ۔ کامیاب سب ایڈیٹر وہی کہلاتا جو صحیح اور موزوں سرخی بنا سکتا ہے کیونکہ سرخی میں اتنی جاذبیت ہوتی ہے کہ قارئین محض سرخی کی وجہ سے پوری خبر پڑھنے پر مائل ہوتا ہے ۔ ابتدائیہ نگاری اور سرخی بنانے کے مختلف طریقوں سے اسے واقف ہونا چاہئے تاکہ خبر جامع اور مؤثر لگے ۔
ریڈیو اور ٹی وی کی خبروں کو بھی اخبار کی زینت بنایا جاتا ہے کیوں کہ کچھ خبریں ریڈیو اور ٹی وی پر پیش ہوتی ہیں مگر اخبار کو موصول نہیں ہوتی ہیں ۔ اس لئے اکثر سب ایڈیٹر ہی مختلف ممالک کے ریڈیو اور ٹی وی کی خبروں کو بھی تحریر کرتے ہیں تاکہ اخبار کا قاری کسی دلچسپ خبر سے محروم نہ ہو۔ اس کیلئے سب ایڈیٹر کو ریڈیو مانیٹرنگ جاننا ضروری ہے ۔ ریڈیو سے خبریں تیز پڑھی جاتی ہیں ۔ جب کہ ٹی وی پر دکھائی جاتی ہیں اس لئے ان خبروں کو تحریر کرنے کیلئے زودنویسی اور مہارت کی ضرورت ہوتی ہے ۔
خبر رساں ادارے انگریزی میں ٹیلی پرنٹر کے ذریعہ خبریں ارسال کرتے ہیں ۔ ٹیلی پرنٹر ایک ایسا آلہ ہوتا ہے جو ٹائپ رائٹر سے ملتا جلتا ہے یہ دو قسم کا ہوتا ہے ۔ ٹرانسمیٹر اور ریسور۔ خبر رساں اداروں کے دفاتر میں ٹرانسمیٹر نصب ہوتا ہے جس میں کی بورڈ ہوتا ہے جس کا کام خبروں کی ترسیل ہے جبکہ ریسور اخباروں کے دفاتر میں لگا ہوتا ہے اس کا کام محض خبروں کی وصولی ہے ۔ ٹیلی پرنٹر کے ذریعہ خبریں بھیجنے کو Creed ہر کوئی کریڈ پڑھ سکتا جب تک اس کے رموز و اسرار اورعلامتوں سے واقف نہ ہو۔
ہر اخبار کے دفتر ٹیلی پرنٹر نصب ہوتے ہیں ۔ یہ میشن چوبیس گھنٹے چلتی رہتی ہیں ۔ ہر میشن میں کاغذ کا ایک استوانہ نما پلندہ لگا ہوتا ہے
جب کوئی خبر نہیں آتی ہے تو مشن خاموش رہتی ہیں جب خبر آتی تو ٹک ٹک شروع ہو جاتی ہے ۔ ہر خبر کے اوپر اس کی قسم اور نمبر لگا ہوتا ہے اور آخر میں بھیجنے کا وقت اور ٹائپ کرنے والوں کے نام کے ابتدائی حروف درج ہوتے ہیں ۔ اگر اس خبر میں کوئی غلطی نظر آئے تو سب ایڈیٹر خود درست کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ اگر کوئی سطر غائب ہو یا دو سطریں خلط ملط ہو گئی ہوں تو سب ایڈیٹر متعلق ایجنسی کو فون کرتا ہے اور خبر کی قسم اور نمبر کا حوالہ دے کر کہتا ہے کہ متعلقہ سطر لکھا دی جائے اگر سب ایڈیٹر ٹرانسمیٹر کے کلیدی بورڈ کے نقشہ سے واقف ہو یا وہ کلیدی بورڈ اسے ازبر ہوں تو وہ ازخود ان ہندسوں اور علامتوں کو حروف میں منتقل کر کے الفاظ بنا لیتے ہیں ۔ یہ کلیدی بورڈ عام ٹائپ رائٹر کے کلیدی بورڈ سے بالکل مختلف ہوتا ہے کیوں کہ ٹیلی پرنٹر میں سارے حروف Capital ہوتے ہیں ۔
جیسے جیسے خبریں کریڈ ہوتی ہیں وہ چیف سب ایڈیٹر کے میز پر پہنچا دی جاتی ہیں ۔ وہ ان خبروں پر ایک نظر ڈال کر اندازہ کرتا ہے کہ یہ چھپنے کے قابل ہے یا نہیں اگر قابل اشاعت ہو تو مکمل دی جائے یا تلخیص؟ اگر تلخیص مقصود ہے تو کس قدر؟ ابتدائیہ لایا جائے کہ نہیں، خبر کی اہمیت کس قسم کی سرخی کی محتاج ہے ؟ پھر مختلف ہدایتیں زبانی یا تحریری دیتے ہوئے متعلقہ خبر کو سب ایڈیٹر کے حوالہ کر دیا جاتا ہے اور سب ایڈیٹر حسب ہدایت ترجمہ یا تلخیص کرتا ہے ابتدائیہ لکھتا ہے اور سرخی بناتا ہے گویا خبر کی ادارت کے فرائض انجام دیتا ہے ۔

سب ایڈیٹر کو صحافت کا جلاد بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ موصولہ اخباری مواد پر بغیر قینچی چلائے اشاعت کے لے نہیں بھیجتا اسے ایسا کرنا ضروری بھی ہے کیونکہ ہر چیز اخبار میں شائع نہیں ہو سکتی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سب ایڈیٹر کو اخبار کا محور یا اخبار کی ریڑھ کی ہڈی بھی کہا جاتا ہے وہ خبروں کو صحیح، جامع ‘مؤثر اور پرکشش بناتا ہے ۔ خبروں کے علاوہ اخبار میں چھپنے والا بیشتر مواد خبروں پر ہی مبنی ہوتا ہے ۔ یعنی کالم، ادارے، شذرات، مضامین یا فیچروں کی صورت میں خبروں کا پس منظر، پیش منظر اور تہ منظر ہوتا ہے سب ایڈیٹر کو ان تمام مشمولات پر بھی نظر رکھنی پڑتی ہے ۔
مضامین کی زبان اور اسلوب فیچرز سے مختلف ہوتے ہیں ۔ مضامین میں دلائل اور اعداد و شمار پر زیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔ مضامین کی زبان معیاری ہوتی ہے لیکن سب ایڈیٹر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے مضامین یا مقالات کی زبان کو اخبار کے قارئین کے معیار کے مطابق کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ متعلقہ موضوع کے اصطلاحات پر توجہ دینا بھی لازم ہے ۔ یعنی سب ایڈیٹر صرف خبریں ہی نہیں بلکہ ہر مواد پر اپنی رائے دیتا ہے اور اس کی قطع و برید کر کے اسے اخبار میں اشاعت کے لائق بناتا ہے ۔

اخبارات و جرائد میں قارئین کے خطوط کی اشاعت بھی ایک مسلمہ صحافتی روایت رہی ہے چوں کہ یہ خطوط بنام مدیر کے کالم میں شائع ہوتے ہیں اور یہ کالم ادارتی صفحہ پر دیا جاتا ہے ۔ ادارتی صفحہ کی ساری ذمہ داری ایڈیٹر پر عائد ہوتی ہے حالانکہ آج کل اخبار کا کوئ ایڈیٹر بھی اداریے نہیں لکھتا اور ادارتی صفحہ کو مرتب کرتا ہے اس کے باوجود ادارتی صفحہ کی ضمن میں ایڈیٹر ہی جواب دہ ہوتا ہے ۔
عموماً ان خطوط میں اخبارات کے مندرجات، خبروں، اداریوں، فیچروں، مضامین، تصاویر اور کارٹون وغیرہ پر تنقید کی جاتی ہے ۔ ان کی تعریف یا حمایت یا ان پر نکتہ چینی کی جاتی ہے ۔ کبھی کبھی تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ غرض یہ خطوط اخبار کیلئے نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ اصولی طور پر مدیر کو ہی ان خطوط کو پڑھنا چاہئے اور اشاعت کے لائق خطوط کا انتخاب کرنا چاہئے لیکن ایسا ہوتا نہیں اس کام کیلئے مدیر کی نظر معاون مدیر یا سب ایڈیٹر پر ہی پڑتی ہے ۔
خطوط کے انتخاب کے بعد ان ادارت کا مرحلہ درپیش ہوتا ہے ۔ بیشتر مراسلہ نگار اپنی مشکلات و مسائل کے اظہار کیلئے قلم اٹھا تے ہیں کچھ نیم خواندہ ہوتے ہیں وہ اظہارخیال پر قدرت نہیں رکھتے اور کچھ لوگ متعلقہ کالموں کے تقاضوں، صحیح اسلوب بیان اور اختصار کا علم نہیں رکھتے وہ جو کچھ جی میں آئے لکھ بھیجتے ہیں چنانچہ ایسے خطوط کو من و عن نہیں چھاپا جاسکتا ان کو نہ صرف مختصر کرنا پڑتا ہے بلکہ ان کی زبان بھی اصلاح طلب ہوتی ہے اگر کوئی خط غیر معمولی طور پر دلچسپ ہو معلوماتی ہو یا کسی ممتاز شخصیت نے لکھا ہو تو اس پر اختصار کے اصول کا اطلاق کم کرنا چاہئے لیکن اگر ایسے خطوط زیادہ طویل ہیں تو انہیں مضمون کی صورت میں چھاپا جاسکتا ہے گم نام خطوط کو شائع نہیں کرنا چاہئے اور ایسے خطوط بھی شامل اشاعت نہیں ہونے چاہئیں جو کسی کی ذاتی زندگی پر کیچڑاچھالتے ہوں اگر شائع ہونے والے مراسلات کے جواب میں خطوط موصول ہوں تو انہیں ضرور شائع کرنا چاہئے تاکہ تصویر کے دونوں رخ سامنے آ سکیں ۔
مراسلات کے کالموں میں بعض معاملات و مسائل پر بحث بھی شروع ہو جاتی ہے اور خطوط کے کالم تحریری مباحثے کی صورت اختیار کر جاتے ہیں اس قسم کے مباحث کو جاری رکھنا چاہئے البتہ اس بحث کو زیادہ طویل نہیں دینا چاہئے ایسے خطوط جو اخبار کی پالیسی یا مندرجات پر اختلافات رکھتے ہوں تو انہیں بھی شامل اشاعت کرنا چاہئے اصول اور قاعدہ یہی ہے کہ خطوط مراسلہ نگاروں کی زبان اور الفاظ ہی میں چھپیں ۔ سب ایڈیٹر کو چاہئے کہ وہ خطوط کو اتنا مختصر نہ کر دے کہ ان کا مفہوم ہی بدل جائے اور اہم نکات خلط ملط ہو جائیں بلکہ مندرجات واضح اور عام فہم ہونے چاہئے اگر کسی اہم مسئلہ پر دوچار خطوط موصول ہو ں تو اخبار کو چاہئے کہ اپنے رپورٹر کو اس مخصوص مسئلہ کی چھان بین کیلئے بھیجیں اور حقیقت پر مبنی رپورٹ کو چھاپیں تاکہ اخبار کے قارئین کی الجھن دور ہو سکے ۔

سب ایڈیٹر پر لازم ہے کہ وہ خطوط کے کالم کو زیادہ سے زیادہ متنوع بنانے کی کوشش کرے ۔ خبروں کی سرخیوں کی طرح خطوط پر عنوانات جماتے وقت احتیاط اور توجہ سے کام کرے۔ سرکاری محکموں سے متعلق خطوط کے تراشے متعلقہ محکمہ تک بھیجے جاتے ہیں ۔ ایسی صورت میں متعلقہ محکمہ بھی جوابی خط ارسال کرتا ہے ۔ ایسے خطوط کو نمایاں طور پر شائع کرنا چاہئے کبھی کبھار اخباروں میں شائع شدہ خطوط کی گونج اسمبلی کے ایوانوں میں بھی گونجتی ہے ۔ اس لئے خطوط بنام مدیر کو بہت اہمیت دی جانی چاہئے ۔
علم تمام انسانوں کا ورثہ ہے اس لئے علم کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور جاری رہے گا۔ اس وقت دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں علمی ادبی اور سائنسی مواد کو ایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرنے کا انتظام موجود نہ ہو عام علمی، ادبی اور فنی مواد کا ترجمہ ہو کہ خبروں کا ترجمہ اس کیلئے کچھ رہنمایانہ اصول مقرر ہیں چونکہ اخبار خصوصاً اردو اخباروں میں ترجمے کا کام سب ایڈیٹر کرتے ہیں اس لئے سب ایڈیٹر کو صحافتی ترجمے کے بنیادی قاعدوں سے واقفیت لازمی ہے ۔
کوئی شخص اس وقت تک مکمل ترجمہ نہیں کر سکتا جب تک اسے دونوں زبانوں پر عبور حاصل نہ ہو دونوں زبانوں سے جتنی زیادہ واقفیت ہو گی ترجمہ اتنا ہی صحیح ہو گا۔ اردو اخبارات میں ترجمہ کا کام تیزی سے کیا جاتا ہے کیونکہ وقت کی اہمیت کا احساس اخبار کے دفتر میں کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے اور خبری مواد سیاسی، اختصادی، سائنسی، فنی، معاشرتی، علمی غرض کئی طرح کا ہوتا ہے ۔ کبھی کبھی ایک ہی مترجم کو حادثات، جرائم، کھیلوں، عدالتوں، جلسوں اور جلوسوں کی خبر کا ترجمہ کرنا پڑتا ہے ۔ ہر قسم کی خبر کا صحیح اور موزوں ترجمہ کرنے کیلئے اس شعبہ سے واقفیت اور متعلقہ اصطلاحات کا علم ضروری ہے صحافتی مترجم ایک عام مترجم سے زیادہ واقفیت عامہ رکھتا ہو اور وہ زندگی اور معاشرہ کے تمام پہلوؤں اور علوم فنون کی مختلف شاخوں کے بارے میں تھوڑی بہت واقفیت رکھتا ہے ۔ اس کے علاوہ صحافتی مترجم کیلئے مفہوم کو کم سے کم الفاظ میں بیان کرنا، مفہوم کی پیچیدگی کو واضح کرنا اور خبر کا پس منظر دینا ضروری ہے ۔ اس طرح مترجم کو خبری اقدار سے باخبری اور خبریت کے شعور سے بہرہ ور ہونا لازمی ہے ۔

موجودہ دور ایجادات کا،تغیرات کا دور ہے ۔ ایجادات اور تبدیلیاں اپنے ساتھ نئے نام اور اصطلاحات لاتی ہیں ۔ چنانچہ مترجم کون ان ناموں اور اصطلاحات کو اپنی زبان میں ڈھالتے وقت اپنی زبان میں نئی موزوں اصطلاحات وضع کرنی پڑتی ہے ۔ اس لئے سب ایڈیٹر کو اصطلاح سازی کے قواعد اور غیر زبانوں کے الفاظ کو اپنانے کے اصولوں سے باخبر ہونا بھی ضروری ہے ۔ اصطلاحات کا لفظی ترجمہ مضحکہ خیز بن جائے گا چنانچہ اصطلاح میں ہونا چاہئے اس سلسلے میں متعلقہ علوم و فنون کا اصطلاحات پر مشتمل کتابیں یا لغات سے استفادہ کیا جانا چاہئے صحافتی ترجمے اور تکنیک پر بحث کرتے ہوئے مولانا عبدالمجید سالک کا کہنا ہے کہ :
"اخباری ترجمے میں سب سے مقدم مصلحت یہ ہے کہ مطلب، بالکل واضح اور عبارت قطعی طور پر سیلس ہو جائے تاکہ عام پڑھنے والوں کو کوئی الجھن نہ ہو اس کے لئے اپنی زبان کا محاورہ سب سے بہتر اور معاون ہوتا ہے ۔ اگر اخباری مترجم سادگی، سلاست اور محاورہ اردو کو مدنظر رکھ کر ترجمہ کریں تو خود بھی آرام سے رہیں گے اور پڑھنے والوں کے ذہن بھی نہ الجھیں گے ان کو چاہئے کہ جہاں انگریزی فقرے کی ترکیب پیچیدہ اور طویل پائیں وہاں اس کی چیر پھاڑ کر دیں ۔ پیچیدہ فقروں کو چند سادہ فقروں میں تقسیم کر دیں اور ترجمہ کرنے کے بعد ایک دفعہ پڑھ کر دیکھ لیں کہ آیا اس کا مطلب ادا ہو گیا اگر ہر پہلو سے مطلب ادا ہو گیا ہو تو سبحان اللہ ورنہ ادھر ادھر کی بیشی کر کے اس کو پورا کر دیں ۔ ڈکشنری مترجم کا سب سے بڑا ہتھیار ہے اس کو ہر وقت ساتھ رکھنا چاہئے اور کبھی اس غلط فہمی میں نہ رہنا چاہئے کہ ہم بڑے انگریزی داں اور بڑے اردو داں ہیں کیونکہ ممکن ہے وقت پر کسی لفظ کا صحیح اور موزوں ترجمہ نہ سوجھے اور ڈکشنری دیکھنے سے کوئی ایسا نفیس لفظ ہاتھ آ جائے جو فقرے میں جان ڈال دے ۔ ترجمے کے اصول و ضوابط اور مترجم کے اوصاف کے بارے میں آپ ترجمے کے کورس کی کتاب میں تفصیل سے مطالعہ کر سکتے ہیں جو آپ کے نصاب میں شامل ہے ۔
صحافت اور صحافی کا بنیادی مقصد لوگوں کو معلومات فراہم کرنا ان کو تعلیم دینا ان کی رہنمائی کرنا اور انہیں تفریح فراہم کرنا ہے"۔

پاکستان کے مشہور صحافی مسٹر احمد بشیر ایڈیٹر اسوسی ایٹیڈ پریس آف پاکستان لا ہور نے معاشرے میں صحافی کا کردار کا جائزہ اس طرح لیا ہے ۔ "میرا دائرہ کار پوری دنیا میں محیط ہے ۔ میری سرگرمیوں کے میدان متنوع اور مختلف ہیں اور میرے قلم کی طاقت ایسی ہے کہ خدا تعالیٰ نے بھی اس کی قسم کھائی ہے میں کسی شخص، ادارے، معاشرے یا قوم کو بنا اور بگاڑسکتا ہوں ۔ اسی تناسب سے میری ذمہ داری بھی بے حد عظیم ہے "۔
اخباری دفتر میں سب ایڈیٹر کا کام کلیدی حیثیت رکھتا ہے اور رپورٹر، نامہ نگار اور نمائندگان خصوصی کی حاصل کردہ خبروں یا دوسرے متعدد ذرائع سے آئی ہوئی خبروں کی چھان بین اور ان کو قابل اشاعت بنانے کی ذمہ داری سب ایڈیٹر کی ہوتی ہے اس لئے اسے نہایت احتیاط اور باریک بینی سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس کی ذرا سی لغزش بڑی بڑی غلط فہمیاں پیدا کر سکتی ہے ۔ توہین عدالت یا ازالہ حیثیت عرفی جیسے مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، مالکان اخبار کا عتاب عموماً سب ایڈیٹر پر گرتا ہے اور اس کی برسوں کی محنت اور تجربہ کو یکلخت نظرانداز کر دیا جاتا ہے اور فوری ملازمت سے بھی برطرف کر دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ سب ایڈیٹر کو سچائی، غیر جانبداری، اخبار کی پالیسی اور شائستگی کا پورا پورا لحاظ رکھنا پڑتا ہے ۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سب ایڈیٹرز کے مسائل پر توجہ کی جانی چاہیے۔ انہیں ان کا مقام دینا چاہیے تاکہ وہ گمنامی کے دائرے سے باہر نکل سکیں ۔ ان کے مشاہیرہ پر خصوصی توجہ دی جاے اور انہیں وہ تمام سہولتیں دستیاب ہونی چاہیے جو ایک صحافی کو دی جاتی ہیں ۔

***
dramsf[@]yahoo.com
مکان نمبر: 537-9-16 ، نزد واٹر ٹینک ، قدیم ملک پیٹ ، حیدرآباد - 500036۔
ڈاکٹر فضل اللہ مکرم

Newspaper Sub-Editor, an Anonymous journalist. Article: Dr. Fazlullah Mukarram

1 تبصرہ: