میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:8 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-05

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:8


اپنی توہین کی پرواہ کئے بغیر میں اردو کو ڈھونڈتا رہا۔ دواخانہ، دواخانہ، کلینک کلینک، مختصر یہ کہ خیراتی دواخانے سے لے کر میں کینسر ہاسپٹل تک گیا۔ اس بیچ میں آرتھوپیڈک ہاسپٹل آتا ہے لیکن پہلے پہل مجھے خیراتی ہاسپٹل کا خیال اس لئے آیا کہ شاید کسی نے اُس کے حال پر ترس کھاکر اُسے خیراتی ہاسپٹل میں شریک کروادیا ہو۔ یہ خیال بجائے خود ایک بڑے المیے سے کم نہ تھا اور جب خیال شبے میں بدل جائے تو ہزاروں وسوسے دل میں پیدا ہوتے ہیں اور آدمی کا دم اندر ہی اندر گھنٹے لگتاہے۔ میں دوڑا دوڑا خیراتی دواخانے کے اندر اس طرح داخل ہوا جیسے جنگل کا آدمی ہوں اور ابھی بھی شہر آیا ہوں۔ بہرحال میں نہیں جانتا اُس وقت دیکھنے والوں نے مجھے دیکھ کر میرے بارے میں کیا سوچا ہوگا اور مجھے کیا سمجھا ہوگا لیکن ایک سچا عاشق شائد ایسی ویسی باتوں پر غور نہیں کرتا۔ جیسے ہی میں خیراتی دواخانے کے کسی نئے وارڈ میں داخل ہوتا تو میرے دل کے کسی گوشے میں ایک عجیب و غریب خواہش ابھرتی کہ اردو سے میری ملاقات اس دواخانے میں نہ ہو۔ میں اُسے بری حالت میں دیکھ نہ سکوں گا۔ سارے مریض فرش پر پڑے ہوئے تھے اور چند لوہے کے ٹوٹے پھوٹے پلنگوں پر اس طرح دراز تھے جیسے ابھی ابھی چند ثانیوں پہلے ان کا انتقال ہوا ہے۔ ایسی زندہ میتیں میں نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھیں۔ اردو کا یہاں کوئی تصور نہیں کرسکتا۔ میں نے سوچا۔ بھلا وہ کون مکروہ شخص ہوگا اردو کو یہاں لایا تھا یا لاسکتا تھا کم ازکم میں کسی ایشے شخص کا تصور نہیں کرسکتا یہ میرا صرف شبہ ہی تھا جو مجھے خیراتی دواخانہ لے گیا۔ ورنہ کہاں اردو اور کہاں خیراتی دواخانہ! کیا اردو اتنی گئی گزری ہوگئی کہ اُسے بھیک منگوں کے دواخانے میں شریک کروایا جائے جب کہ اس کے نام پر اردو کے ادیب اور شاعر، مشاعروں اور سیمناروں میں شرکت کیلئے ہوائی جہازوں سے سفر کرتے ہیں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں میں قیام فرماتے ہیں اور وٹامنس سے بھرپور ڈنر کھاتے ہیں۔ میں نہیں کہتا اردو کے نام لیوا اُسے شدید علالت میں تنہا چھوڑدیں گے۔ نہیں، نہیں ایسا کبھی نہیں ہوسکتا۔ خواہ مخواہ اس طرح آگیا ہوں۔ یہاں تو لاوارثوں کو شریک کیا جاتا ہے اور جن کی موت پر دو آنسو ٹپکانے والا بھی کوئی نہیں ہوتا۔ دواخانے کے یا میونسپلٹی کے غسال ہی مردے کے مذہبی نظریے کے مطابق مردے کو یا تو جلاتے ہیں یا دفن کردیت ہیں اگر اس کی شناخت ہوجائے۔ ورنہ کون جاتاہے کہ لاش ہی کو غائب کرکے اس کے ڈھانچے کے پیسے وصول کرلیتے ہیں اور جسے میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ بڑے شوق سے خریدتے ہیں اور بیچنے والے منہ مانگے دام وصول کرتے ہیں۔مرد کا ڈھانچہ…… ایک ہزارروپئے، عورت کا ڈھانچہ ……ایک ہزار روپئے۔ اردو کا ڈھانچہ ……؟ بھئی اردو تو بڑی عجیب و غریب شئے ہے۔ اس کا ڈھانچہ ہزاروں میں نہیں لاکھوں میں بک سکتا ہے۔ دنیا کی کسی بھی لیباریٹری میں بغرض ریسرچ اسے رکھا جاسکتا ہے اور بعد میں کسی نیشنل میوزیم میں بغرض نمائش محفوظ کیا جاسکتا ہے تاکہ دنیا کی تمام زبانیں بولنے والے آئیں اور دیکھیں اور عبرت حاصل کریں اور خلوص دل کے ساتھ اردو پر فاتحہ پڑھیں اور اس کی بے چین روح کو ثواب پہنچائیں مگر توبہ ، توبہ میں اردو کے تعلق سے کیسی کیسی اوٹ پٹانگ باتیں سوچ رہا ہوں۔ خدا مجھے نیک توفیق دے!



A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-8

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں