وکی لیکس - اندرا گاندھی کی بھٹو کو نیوکلئیر تکنالوجی میں شراکت داری کی پیشکش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-12

وکی لیکس - اندرا گاندھی کی بھٹو کو نیوکلئیر تکنالوجی میں شراکت داری کی پیشکش

خفیہ انٹرنیٹ سائٹ وکی لیکس نے ایک اور سنسنی خیز انکشاف کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستان کی سابق وزیراعظم اندرا گاندھی نے 1974ء میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو ایٹمی ٹکنالوجی دینے کی پیشکش کی تھی لیکن بھٹو نے اسے ٹھکرادیا تھا۔ پاکستانی اخبار کے مطابق پوکھران میں جب ہندوستان نے پہلا ایٹمی تجربہ کیا تو گاندھی نے بھٹو سے کہاکہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان اعتبار قائم ہوجاتاہے تو ہندوستان اپنی ایٹمی ٹکنالوجی پاکستان کے ساتھ بانٹ سکتا ہے۔ خبر کے مطابق وکی لیکس نے امریکی کیبل کے حوالے سے بتایا کہ گاندھی نے کہا "میں پاکستان کے وزیراعظم بھٹوکو لکھے اپنے خط میں ایٹمی تجربہ کی پرامن مقصد کی اطلاع دی ہے اور ساتھ ہی اس کا معاشی فائدہ اٹھایا ہے"۔ میں نے انہیں کہا ہے کہ اگر ہند۔پاک کے درمیان اعتماد کا رشتہ قائم ہوتا ہے تو ہندوستان اپنی ایٹمی ٹکنالوجی پاکستان کے ساتھ بانٹنے کو تیار ہے۔ قبل ازیں وکی لیکس نے ہندوستان کے سابق وزیراعظم راجیو گاندھی کے بارے میں یہ بتاکر کہ وہ انڈین ایر لائنز میں کام کرتے ہوئے سویڈن کی ایک کمپنی کیلئے بچولئے کا م کرتے تھے پورے ملک میں تہلکہ مچادیاتھا۔ ایک انگریزی اخبار نے وکی لیکس کے حوالے سے بتایاکہ گاندھی 1970ء کی دہائی میں سویڈن کی ایک کمپنی ساب ستانیا کے لئے کام کرتے تھے۔ گاندھی، سویڈن کی جس کمپنی کے ساتھ وابستہ تھے وہ کمپنی ہندوستان کو جنگی جہاز فروخت کرنا چاہتی تھی حالانکہ کمپنی کے ساتھ یہ سودا نہیں ہوسکا تھا۔ اس دوڑ میں برطانوی کمپنی جیوگار نے بازی ماردی تھی۔ وکی لیکس نے سابق وزیر دفاع اور سماج وادی لیڈر جارج فرنانڈیز کے بارے میں یہ بھی بڑا انکشاف کیا ہے۔ وکی لیکس کو ملے امریکی کیبل کے مطابق خود کو امریکہ مخالف بتانے والے فرنانڈیز نے ایمرجنسی کے دوران امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے سے مدد مانگی تھی۔ وکی لیکس کا دعوی ہے کہ سی آئی اے سے پیسہ لینے پر بھی فرنانڈیز کو اعتراض نہیں تھا۔ سابق وزیراعظم اندراگاندھی کی لگائی گئی ایمرجنسی سے لڑنے کیلئے فرنانڈیز نے فرانسیسی حکومت سے بھی مدد مانگی تھی۔

Indira Gandhi offered to share nuclear technology with Pak: WikiLeaks

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں