ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:10 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-11

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:10


خلاصہ فصل - 8
نوبل صاحب ابن الوقت کو رفارمر بناتے ہیں

نوبل صاحب نے ابن الوقت کے سامنے حکومت اور رعایا کے درمیان آپسی تعاون کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے بیان کیا کہ جب تک ہندوستان کے لوگ انگریزوں کے ساتھ مانوس نہیں ہوں گے انگریزی حکومت ایک منٹ کیلئے بھی قابل اطمینان نہیں۔ اس میں دونوں کا قصور ہے۔ انگریز حکومت کے غرور میں ہندوستانیوں کی طرف توجہ نہیں کرتے، اسی طرح ہندوستانی، نادانی کی وجہہ یس انگریزوں سے دور رہتے ہیں۔ یعنی ایسے دوآمیوں میں کس طرح اتحاد ہوسکتا ہے جن کی نہ زبان ایک، نہ مذہب ایک، نہ عادت ایک۔ اور پھر اس وقت غدر یا بغاوت نے بخوبی ثابت کردیا کہ جس سلطنت کو انگریزوں نے تلوار کے زور پر حاصل کیا ہے اس کو وہ تلوار کے زور پر قائم رکھن پر قدرت بھی رکھتے ہیں اس کو دور کرنے کیلئے نوبل صاحب یہ تجویز رکھتے ہیں کہ انگریز اور ہندوستانی ایک دوسرے کی طرف جھکیں۔ غدر کا نتیجہ شاید یہی تھا کہ دونوں کو اپنی اپنی غلطی کا احساس اُس وقت نہ ہوا، بعد میں ہوا۔ نوبل صاحب کی رائے میں ہندوؤں کا کفر مدتو ں سے جاکر ٹوٹے گا کیونکہ ان کے پاس رسم و رواج کے سوائے مذہب کچھ نہیں۔ ہاں مسلمانوں کے مذہبی اصول اکثر اچھے ہیں ان میں اور انگریزوں میں آپسی اتحاد ہوجانا کچھ زیادہ مشکل نہیں۔ دراصل اس بارے میں اجنبیت کی وجہہ سے کسی نے کوشش ہی نہیں کی۔ مثال کے طورپر نوبل صاحب چاہتے ہیں کہ انگریزی سوسائٹی میں ابن الوقت کا تعارف کراتے وقت اُس کی خیر خواہی کے جذبے کو پیش نظر رکھیں لیکن اس کے باوجود وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ابن الوقت کو اپنی حالت کچھ بدلنی پڑے گی۔ اس تجویز کیلئے ابن الوقت سے توقع رکھتے ہیں کہ وہ سب سے پہلے کھلے مکان میں رہا کریں۔ ایسی جگہ نہیں جہاں بگھی نہیں جاسکتی۔ اس کے علاوہ صاحب لوگ کی آسائش کیئلے میز کرسی وغیرہ موجود ہو۔ ابن الوقت کی نظر میں تنگ نظر مسلمان ایسے ہیں کہ ہمارا آپ کا دوستانہ اور تعلق پسند نہیں کرتے جب کہ آپ لوگ اہل کتاب ہیں اور اہل کتاب کے ساتھ ملنے جلنے اور ساتھ کھانے کی اجازت ہمارے پاس موجود ہے لیکن میں کنبے والا آدمی اور یہ جاہل مسلمان مل کر مجھ کو برادری سے خارج نہ کردیں۔ اس کا جواب نوبل صاحب اس طرح دیتے ہیں کہ جب بات کو عقل کی تائید اور مذہب کی سند نہیں وہ محض جہالت ہے۔ آپ استقلال کے ساتھ ایک طرز کو اختیار کریں گے تو لوگ آہستہ آہستہ اس کے فائدے محسوس کرکے اپنی اصلاح کرلیں گے۔ اس کے علاوہ غدر کے نقصانات کا بھی اُن کو اندازہ ہوجائے گا۔ نوبل صاحب مسلمانوں کی تعریف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ لوگ سختی اور مصیبت کو برداشت کرتے ہیں ۔ ان کا تعلق قاہے خدمت سرکاری سے ہو ، حکام ہوں یا تاجر پیشہ ہوں، مسلمان ہمیشہ بہتر پائے گئے ہیں۔ نوبل صاحب مسلمانوں کے مزاج میں مذہباً ایک سپاہیانہ مزاج پاتے ہیں۔ اُس کی وجہہ شاید یہ ہو کہ مدتوں اس قوم میں سلطنت رہی ہے یہ تمام صفات اُسی کے آثار ہیں مسلمانوں کی نسلوں کو بگاڑ سے روکنے کیلئے ضرورت سے رفارمر کی اس طرح نوبل صاحب ابن الوقت سے چاہتے ہیں کہ وہ مسلم قوم کیلئے رفارمر بن جائے۔ مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ جن کو آپ پیغمبر کہتے ہیں وہ اپنے وقت کے رفارمر تھے۔ ابن الوقت کے اس خیال کو کہ قوم کے دلوں کا پھیر دینا قدرت کے ہاتھ میں ہوتاہے، ترمیم کرتے ہوئے نوبل صاحب نے کہاکہ قدرت کی مرضی ہمشیہ اسباب ظاہری کے ذریعہ سے ہوا کرتی ہے۔ لہذا ہمارا آپ کا اس بارے میں تذکرہ کرنا بھی ہوسکتا ہے اس کام کی ابتداء ہو دنیا کے بڑے واقعات چھوٹے کاموں سے پیدا ہوتے ہیں۔ لہذا اس زمانے میں رفارم (Reform) یعنی اصلاح کا کام ایسا مشکل نہیں کیونکہ موجودہ زمانے میں چھاپے (Press) ڈاک(Post) اور ریل (Rail) نے ساری سہولتیں ہمیں عطا کردی ہیں۔ لیکن ابن الوقت اس بات پر اڑے رہے کہ یہ کام اکیلے آدمی کا نہیں، اس کیلئے مدد کرنے والوں کی ایک جماعت چاہئے۔ کیونکہ ہندوستانی مسلمان بہت مشکل سے کسی بات کو ماننے والے ہوتے ہیں۔ جب کہ اہل یورپ کی عظمت یہ ہے کہ انہوں نے علوم کے ذریعہ ایجاد یں کیں، ریل، تار، برقی اور ہزارہا کاریں بناڈالیں۔ اور دوسرے ممالک کے لوگوں پر سبقت لے جاکر روئے زمین کی دولت اپنے ملک میں گھیسٹ لائے۔ خلاصہ یہ کہ جس طرح کے ہنر اور کمال اہل یوروپ کے ہیں ممکن نہ تھا کہ ان کو سلطنت نہ ہو اگرچیکہ سلطنت ان کے کمالات کی قیمت نہیں ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ہندوستانیوں کے مقابلے میں انگریزی کو بڑی تنخواہ ملتی ہے۔ کیونکہ وہ دور دراز سفر کے اختلاف آب و ہوا کو جھیلتے گویا سخت امتحان دیتے ہیں۔ اپنا دیس اور اپنے عزیز اور اپنوں کو چھوڑ کر کالے کوسوں نوکری کو نکل آتے ہیں۔ ان کا اصول زندگی ہے کہ ہر انسان کو اپنے قوت بازوسے کمال کرنا چاہئے۔ لیکن یہی تمام حالات ہندوستانیوں کے ہوں تو شاید گھر سے نکلنے کا نام نہ لیں اگرچہ پیداوار اور معدنیات کے اعتبار سے یوروپ کسی طرح ہندوستان کا مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن ہندوستان کے لوگ نئے علوم سے نا واقف ہیں۔ خدا کی دی ہوئی پیداوار سے فائدہ اٹھانے کا سلیقہ نہیں رکھتے۔ لہذا ہندوستانیوں کی ترقی کا راز اسی میں ہے کہ ان میں علوم جدیدہ کو پھیلایا جائے انگریزی زبان کو رواج دینا بھی ضروری ہے۔ خیالات میں آزادی، ارادے میں مضبوطی، حوصلے میں پختگی، معاملات میں صاف گوئی یہ تمام ترقی کے راز ہیں ۔ جس کیئلے رفارمر کا ہونا نہایت ضروری ہے۔ ابن الوقت نوبل صاحب کے دلیلوں سے قائل ہوا لیکن اُس نے پوچھا کہ اس کی ابتداء کیسے کی جائے؟ نوبل صاحب نے کہاکہ رفارمر جو کیفیت لوگوں میں پیدا کرنی چاہتا ہے پہلے خود اُس کیفیت کو اپنالے اور اپنا نمونہ دکھا کر لوگوں کو تقلید کی ترغیب دے۔ غرض ابن الوقت نے اس کام کو شروع کرنے کا ارادہ کرلیا اور توقع کی کہ نوبل صاحب اس کے مددگار رہیں گے۔ ان باتوں میں گیارہ بجے کے بیٹھے چار بجا دئیے۔ ظہر کی نماز کے بعد محلے کی مسجد کے نمازی آپس میں تذکرہ کرنے لگے کہ ابن الوقت کرسٹان ہوگئے۔ ایک نمازی نے کہاکہ وہی انگریز جو ابن الوقت کے ہاں غدر میں چھپا تھا یہ اس کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں۔ آج اس کے ساتھ کھانا کھایا اور یہ نتیجہ اخذ کرلیا کہ انگریز کے ساتھ کھاکر ہم لوگوں کے ساتھ کھاکر ہم لوگوں کے ساتھ کھانا پینا نہیں رکھنا چاہئے تھا۔ شاید روزے اور نماز سب کی قضا لازم آئے گی۔ امام مسجد سے مسئلہ پوچھا گیا تو کہاکہ انگریز کے ساتھ کھانے سے آدمی عیسائی نہیں ہوجانا۔ مگر یہ قول کہ جو شخص کسی قوم کے ساتھ مشابہت پیدا کرے وہ بھی انہی میں سے ہے کہ مطابق مسلمان کو اس سے بچنا چاہئے۔ ابن الوقت لوٹ کر گھر آیا تو ہر طرف سے انگلیاں اٹھنے لگیں اور جو صاحب سلامت رکھتے تھے وہ ابھی آنکھیں پھیرنے لگے۔ جب ابن الوقت نے مردانے میں پاؤں رکھا، زنان خانے سے عورتوں نے دیوڑھی میں آکر جھانکنا شروع کیا۔ یہ دیکھ کر ابن الوقت جی ہی جی میں کھٹکھا ۔ لیکن اندر سے پھوپھی صاحبہ کی طلب ہوئی اور کہاکہ سننے سننے کان بہرے ہوگئے کہ دشمنوں کو انگریزوں نے اپنے مذہب میں ملالیا۔ (مشہور ہے کہ ہمیں کسی اپنے کی طرف کوئی بُری بات کہنی ہوتو کہتے ہیں کہ دشمنوں کے مزاج کیسے ہیں!) جواب میں ابن الوقت نے کہا کہ وہ نوبل صاحب کے پاس گیا تھا کھانے کا وقت تھا انہوں نے اصرار کرکے اُس کو میزپر بٹھالیا۔ کھایا تو کیا ہوا؟ یہ وہی نوبل صاحب ہیں جو پورے تین مہینے ہمارے گھر مہمان تھے۔ ابن الوقت نے قرآن سے دلیل دیتے ہوئے کہاکہ ایک انگریز کے ساتھ کھانا کھالینے کے علاوہ بے دینی کی کوئی بات اُس سے سرزد نہ ہوئی۔ وہ بدستور نمازپڑھتا ہے۔ صبح کی تلاوت کو اُس نے کبھی ناغہ ہونے نہیں دیا۔ وہ نہیں جانتا کہ مسلمان میں اور کیا سرخاب کا پر لگا ہوتاہے۔ خدانخواستہ اگر وہ کرسٹان ہونا چاہے تو کون اُسے روک سکتاہے۔ مذہب اس کے سوا کچھ نہیں کہ بندے کا معاملہ خدا کے ساتھ ہوتاہے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا کے اعتبار سے غریبوں سے نکل کر امیروں میں جا ملوں یا بے عزتوں سے عزت والوں میں۔ مگر وہ بھی کیسا مذہب جس پر دنیا کا لالچ یا خوف اثر کرسکے۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-10

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں