ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:9 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-04

ابن الوقت - ڈپٹی نذیر احمد - قسط:9


خلاصہ فصل - 7
ایک ڈپٹی کلکٹر انگریزوں کی مدارات کا شاکی

ابن الوقت کے ایک نسبتی بھائی ڈپٹی کلکٹر تھے۔ وہ مزاج کے تیز مشہور تھے۔ کسی حاکم سے ان کی نہیں بنتی تھی۔ بے چارے ہر برس تبادلے کی تکلیف برداشت کرتے۔ انہوں نے کبھی دولت جمع نہیں کی۔ تنخواہ میں گذارہ کر لیتے۔
ابن الوقت نے ان سے ایک دن پوچھا کہ آخر اس کا کیا سبب ہے کہ آپ کو برس دن بھی کہیں جم کر رہنا نصیب نہیں ہوتا۔ جب کہ دوسرے ڈپٹی بھی ہیں برسوں سے ایک جگہ جمے بیٹھے ہیں۔
جواب دیا کہ میں کوشش تو کرتا ہوں کہ حکام کو راضی کر لوں مگر گردش کچھ ایسی ہوتی ہے کہ نا اتفاقی ہو ہی جاتی ہے۔ لوگ میرا نام سن کر پکار اٹھتے ہیں "اجی وہ لڑاکو ڈپٹی کلکٹر!" شبہ ہو سکتا ہے کہ شاید میں رشوت لیتا ہوں گا لیکن صاف بات ہے کہ میں رشوت نہیں لیتا۔ انگریزوں میں رشوت نہیں چلتی۔ مگر ان کے حصے کی ان کے اردلی، خدمت گذار پیشی میں رہنے والے لے مرتے ہیں۔
اگر کوئی شخص میری طرح ان چھوٹے لوگوں کو راضی نہیں رکھ سکتا تو کتنا ہی بڑا عہدیدار کیوں نہ ہو اُسے عزت نہیں ملتی۔ میں اپنے خرچ خوش دلی سے کرتا ہوں لیکن ان چھوٹے لوگوں پر مجھ سے ایک روپیہ بھی خرچ نہیں کیا جاتا۔ اس کے علاوہ میں انگریز سے ملتا ضرور ہوں مگر مجبوری سے یا ضرورت کے تحت۔ میں ان کی ملاقات سے گھبراتا ہوں۔ جن انگریزوں نے مجھے فائدے پہنچائے ہیں ان کی ساتھ بھی میں نے زیادہ راہ و رسم نہیں رکھی۔ کبھی کسی افسر سے ملنے بھی گیا تو افسروں کے نخرے برداشت نہیں کر پاتا یعنی انتظار کرنا۔ صاحب مصروف ہیں۔ کپڑے بدل رہے ہیں، کھانے کی میز پر ہیں۔ بڑی دیر کے بعد چپراسی نے خبر دی کہ سر رشتہ دار کو رپورٹ خوانی کیلئے بلایا ہے۔
مایوس ہوکر یہ ڈپٹی صاحب یہ کہتے ہوئے اٹھے کہ صاحب سے میرے آنے کی اطلاع کر دینا۔ چپراسی نے کہا کہ میں اطلاع کر دیتا ہوں۔ خفا ہوں گے تو آپ ذمہ دار۔
غرض صاحب سے ملاقات ہو بھی جائے تو صاحب کی وہ بے دلی نظر آتی ہے کہ سرجھکائے کوئی کاغذ یا کتاب دیکھ رہے ہیں یا پھر مجھے جان بوجھ کر کھڑا رکھا ہو یعنی میرے آنے کی شاید بہت پہلے سے ان کو خبر تھی کیونکہ بنگلے میں چاروں طرف آئینے کے کواڑ جو ہیں۔ خیر صاحب کی مجھ سے آنکھیں چار ہوئیں تو اپنے مقابل دوسری طرف کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اتنے میں چپراسی نے سر رشتہ دار کے آنے کی اطلاع دی۔ سر رشتہ دار آ گیا۔ میری طرف دیکھ کر گرمی کی شکایت کرنے لگے یعنی مقصد نہیں پوچھا کہ کس لئے آیا ہوں۔
پھر سر رشتہ دار ہے کہ بستہ کھول کر کاغذ پھیلا رہا ہے۔ تب صاحب مجھ سے اشارتاً پوچھتے ہیں کہ آپ کو کچھ کہنا ہے؟ یہ سنتے ہی میں یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا کہ نہیں! میں تو صرف سلام کیلئے حاضر ہوا تھا۔ بہت دن ہو گئے جی ملنے کو چاہتا تھا۔ پھر حاضر ہوں گا حالانکہ کسی مسخرے کا جی ملنے کو چاہتا تھا؟

باہر آکر سوچتا ہوں کہ صاحب مجھے سے ایک بات بھی نہ کرتے مگر سر رشتہ دار اور چپراسیوں کو میرے الٹے پاؤں لوٹ آنا معلوم نہ ہوتا! مجھے اس پر بھی شکایت نہ تھی مگر میری توہین ان لوگوں کی نظر میں ہوئی جو عزت میں میرے برابر نہ تھے۔ باہر نکلا تو چپراسیوں اور خدمت گاروں کا ہجوم موجود تھا جو مجھے فرشی سلام کرنے لگا۔ مجھے ان کی یہ تعظیم بہت دیر بعد سمجھ میں آئی کہ چونکہ میں صاحب سے مل کر آ رہا ہوں اس لئے یہ سرکاری پیادے اس کا جرمانہ وصول کرنا چاہتے ہیں۔
میں بہانے بنانے لگا کہ مکان پر آنا۔ تنخواہ پر دیکھا جائے گا۔ عید قریب ہے اس میں لے لینا۔ ایسی ہی بے اعتباری ہے تو ایک آدمی میرے ساتھ چلو ایک آدمی تیار سا ہوا کہ مجھ سے پہلے میری بگھی کے آگے بیٹھ لے۔ اتنے میں جمعدار نے پنسل اور کاغذ نکال میرے ہاتھ دیا کہ حضور ناظر کو لکھ دیں یعنی انعام کی رقم۔ پھر یہ بھی بے چینی کہ کتنی رقم لکھتے ہیں۔

بڑھتے بڑھتے میں اپنی بگھی تک جا پہنچا سائیس پٹ کھولے کھڑا ہی تھا لپک کے پائیدان پر پاؤں رکھ بگھی کے اندر بیٹھ گیا۔ سائیس نے پٹ بھیڑ دیا۔ گھوڑا آہٹ پاتے ہی چل نکلا۔ میں نے کوچوان سے لے کر کاغذ کے پرزے میں ایک روپیہ رکھ پڑیا بنایا اور اردلیوں کو دکھا کر نیچے پھینک دیا۔ ایک چپراسی نے پڑیا اٹھائی ، ایک روپیہ دیکھ کر یقیناً بہت ہی بگڑے ہوں گے۔
بگھی کے اندر بیٹھ کر میں نے اطمینان کا سانس لیا۔ بار بار خیال آتا کہ سر رشتے دار اور چپراسیوں کی نظر میں میری کیا عزت رہی۔ اب یہ لوگ تمام شہر میں اس کا ڈھنڈورا پیٹیں گے۔ ایسی بے حرمتی سے روٹی کمانے کا کیا فائدہ؟
اسی سوچ میں گھر پہنچا۔ چند آدمی منتظر ملاقات بیٹھے تھے۔ مگر نہ وہ ڈپٹی تھے اور نہ میں کلکٹر کہ برآمدے میں محتاجِ اطلاع بیٹھے ہوں۔ مجھ کو دیکھا تو مختلف لوگ مختلف انداز میں میری تعریف کرنے لگے۔ کوئی کہتا ڈپٹی صاحب آج تو کلکٹر صاحب سے خوب گاڑھی چھنی۔
کوئی کہتا آج بندے کا ارادہ بھی کلکٹر کے سلام کو جانے کا تھا۔ معلوم ہوا کہ آپ تشریف لے گئے ہیں۔
کوئی کہتا مدت سے جدید تحصیل داری قائم ہونے کی خبر تھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آج اسی انتظام کے مشورے میں اتنی دیر لگی۔ میں یہ سب باتیں سن کر دل ہی دل میں خوش ہوتا کہ خدا کرے لوگ ایسی ہی غلط فہمی میں مبتلا رہیں۔

یہاں اس موقع پر یہ دکھانا مقصود ہے کہ انگریزوں نے ہندوستان میں کس انداز کی دفتر شاہی قائم کر رکھی تھی۔ حالانکہ یہ دفتر شاہی بادشاہوں کے زمانے سے چلی آتی تھی لیکن یہاں حاکم انگریز اور محکوم ہندوستانی تھے۔


Urdu Classic "Ibn-ul-Waqt" by Deputy Nazeer Ahmed - Summary episode-9

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں