جنوبی ایشیا میں ہر سال 15 لاکھ افراد امراض قلب کا شکار - عالمی ادارہ صحت - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-09

جنوبی ایشیا میں ہر سال 15 لاکھ افراد امراض قلب کا شکار - عالمی ادارہ صحت

صحت کے عالمی ادارہ ڈبلیو ایچ او نے رپورٹ جاری کرتے ہوئے کہاکہ جنوبی ایشیاء میں ہر سال 15لاکھ افراد ہائی بلڈ پریشر سے فوت ہورہے ہیں۔ یہ وبا ہندوستان میں تیزی سے پھیلتی جارہی ہے۔ اس خطرہ سے نمٹنے کیلئے ہر متاثرہ شہری کو اپنی طرز زندگی بدلنی ہوگی۔ طرز زندگی کی تبدیلی سے ہائی بلڈ پریشر پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مثلاً متوازن غذ، کھانے پینے کے عادات و اطوار، نمک کا کم استعمال، روزانہ کی مکمل ورزش، شراب اور تمباکو سے مکمل اجتناب اور بلڈ پریشر کی پابندی کے ساتھ چیکنگ کے ذریعہ اس پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے علاقائی ڈائرکٹر برائے جنوب مشرقی ایشیاء ڈاکٹر شامنی، پلین بنگ چنگ نے یہ بات بتائی۔ ساری دنیا میں 7اپریل کو منائے گئے یوم عالمی صحت کے موقع پر عالمی ادارہ صحت نے ہائی بلڈ پریشر کو جنوبی ایشیاء کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔ ہندوستان میں یہ وباء تیزی سے پھیلتی جارہی ہے۔ خاص طورپر نوجوانوں کو ہائی بلڈ پریشر کی بیماری زیادہ ہورہی ہے۔ بالعموم نوجوانوں کو اس کا شعور بھی نہیں ہوتا اور وہ اکثر اس سے غفلت برتتے ہیں۔ 2002ء میں ہندوستان میں ہائی بلڈ پریشر سے متاثرہ نوجوانوں کی تعداد 118 ملین تھی۔ اب اندیشہ ہے کہ 2025ء تک یہ تعداد 2013 ملین تک پہنچ جائے گی۔ ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہونے والوں میں 25 سال سے زیادہ عمر والے نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ عالمی سطح پر جمع کئے گئے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہائی بی پی کا تناسب بہت زیادہ ہے۔ ڈاکٹر سیلیش موہن نے یہ بات بتائی جوکہ سینئر سائنٹسٹ اور اسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ شہروں کی بہ نسبت دیہی علاقوں میں ہائی بلڈ پریشر کے واقعات نوجوانوں میں بہت کم پائے جارہے ہیں۔ یہ ایک عالمی مسئلہ بن گیا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک سیاسی قرار داد بھی منظور کی گئی تھی جس میں غیر وبائی امراض پر قابو پانے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا عہد کیا گیاتھا۔ یہ نشانہ طے کیا گیا تھا کہ 2025ء تک ہائی بلڈ پریشر کا تناسب 25فیصد تک کم کیا جائے۔ بارہویں پنچ سالہ منصوبہ میں بھی اس پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔

Hypertension kills nearly 1.5 mn every year in SE Asia: WHO

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں