ڈی-ڈی-اردو کو بدنام اور بند کرنے کی سازش - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-12

ڈی-ڈی-اردو کو بدنام اور بند کرنے کی سازش

ڈی۔ڈی۔اردو کو بدنام اور بند کرنے کی سازش
"ٹیسٹ کی بات ہے" عنوان سے جاری پروگرام میں خنزیر کا گوشت پکائے جانے کی ترکیب بتائے جانے سے ناظرین میں ناراضگی

حکومت ہند اور اردو دنیا کی کوششوں سے ان دنوں پرسار بھارتی کا سٹلائٹ چینل ڈی ڈی اردو پروان چڑھ رہا ہے لیکن کچھ شرپسند طاقتوں نے اس چینل کو بدنام اور بند کرنے کی منظم سازشیں بھی شروع کردی ہیں، جن پر قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ گذشتہ 9؍اپریل کو ڈی ڈی اردو کے "ٹیسٹ کی بات ہے" نامی پروگرام میں خنزیر کا گوشت پکانے کی ترکیب بیان کی گئی، جس یس اردو حلقہ میں کافی غم و غصہ ہیل نیزاس پروگرام کی سخت مخالفت کی جارہی ہے جبکہ اردو کے پروفیسران کا ڈی ڈی اردو کے ذمہ داران کو مشورہ ہے کہ وہ اس قسم کے پروگرام سے احتیاط برتیں تاکہ اس چینل کی ترقی میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ واضح رہے کہ ڈی ڈی اردو پر تمام پروگراموں کی طرح بروز منگل کو "ٹیسٹ کی بات ہے" کے عنوان سے کھانا پکانے کی ترکیبیں بتائی جاتی ہیں۔ یہ 30منٹ پر مبنی پروگرام ہے جو 8:30 بجے سے 9:00 بجے رات تک دکھایا جاتاہے۔ گذشتہ 9اپریل کو "ٹیسٹ کی بات ہے" میں خنزیر(سور) کا گوشت پکانے کی ترکیب بتائی گئی اور پکنے کے بعد یہ کتنا اچھا ہوتاہے، اس کا بھی ذکر کیا گیا، چونکہ ڈی ڈی اردو دیکھنے والوں کی بڑی تعداد مسلمانوں کی ہے اور مسلمانوں کی نظر میں شرعی اعتبار سے خنزیر کا گوشت حرام ہے، لہذا اسے کسی بھی صورت میں استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہہ ہے کہ جب یہ پروگرام ڈی ڈی اردو پر نشر کیا گیا تو اردو کے ایک بڑے طبقے نے شدید ردعمل ظاہر کیا، نیزاس پروگرام کی سخت مخالف کی اور ڈی ڈی اردو کے ذمہ داران سے جواب بھی طلب کیا ہے۔ یاد رہے کہ ان دنوں ڈی ڈی اردو تیزی سے فروغ پارہا ہے۔ اس میں کئی اچھے پروگرام بھی شروع ہوئے ہیں۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ ڈی ڈی نیوزکے ڈائرکٹر جنرل ایس ایم خان کی نگرانی میں ڈی ڈی اردو پر اردو نیوز بلٹین بھی شروع کیا گیا ہے جو کافی پسند کیا جارہا ہے، تاہم اس قسم کے پروگرام ناظرین کو گمراہ کرنے کی سازش بھی کررہے ہیں۔ شعبہ اسلامیات جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ بحیثیت مسلمان میں یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ ڈی ڈی اردو پر خنزیر کا گوشت پکانے کی ترکیب پر مشتمل پروگرام بہت ہی تکلیف دینے والا ہے کیونکہ یہ ہماری مذہبی حسیت کا معاملہ ہے جس کی وجہہ سے ہمارے جذبات کو ٹھیس پہینچتی ہے۔ اس لئے میرا خیال ہے کہ ذرائع ابلاغ کو بہت ہی احتیاط سے کام لینا چاہئے تاکہ کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے۔ انہوں نے کہاکہ یہ حقیقت ہے کہ ڈی ڈی اردو صرف مسلمانوں کیلئے نہیں ہے تاہم اس کو دیکھنے والوں کی اکثریت مسلمانوں کی ہے، اس لئے بھی احتیاط سے کام لینا ضروری ہے تاکہ شروع ہونے والے چینل کی مخالفت نہ ہو۔ انہوں نے کہاکہ ہم حکومت سے یہ مطالبہ کرسکتے ہیں کہ وہ احتیاط سے کام لے لیکن یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ پروگرام بند کردئیے جائیں۔ سابق صدر شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی پروفیسر صادق نے کہاکہ یہ سچے ہے کہ اردو کسی ایک مذہب کی زبان نہیں ہے لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ ڈی ڈی اردو دیکھنے والوں کا بڑا طبقہ مسلم طبقہ سے تعلق رکھتا ہے، شاید یہی وجہہ ہے کہ اس کی مخالفت ہورہی ہے اس لئے میں صرف یہ کہوں گا کہ ڈی ڈی اردو کے ذمہ داران کو احتیاط سے کام لینا چاہئے۔ انہو ں نے کہاکہ جب انہیں معلوم ہے کہ یہ اردو کا پروگرام ہے تو انہیں اس طرح کے پروگراموں کو پیش کرنے سے بچنا چاہئے تاکہ کسی قسم کا انتشار پیدا نہ ہو۔ انہوں نے کہاکہ جن لوگوں نے اس قسم کے پروگرام بنائے ہیں ان سے جواب بھی طلب کرنا چاہئے کہ آخر انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ سابق صدر شعبہ ارد الہ آباد یونیورسٹی پروفیسر علی احمد فاطمی نے کہاکہ ہم ترقی پسند فکر کے لوگ ہیں اور اس نقطہ نظر سے یہ کہا جاسکتا ہے کہ ہر چیز کی آزادی ہونی چاہئے، لیکن یہ خیال رہے کہ یہ ہندوستان ہے اور یہ بھی خیال رہے کہ ڈی ڈی اردو دیکھنے والوں کی اکثریت وہ ہے جس کے مذہب میں خنزیر کا گوشت حرام ہے اس لئے میرا مشورہ ہے کہ ڈی ڈی اردو کے ذمہ دار اگر یہ چاہتے ہیں کہ یہ چینل فروغ پائے تو انہیں بہت ہی احتیاط سے کام لینا پڑے گا۔ انہوں نے کہاکہ ترقی پسندی اپنی جگہ لیکن ہم یہ کہیں کہ نہیں جو ہم کہہ رہے ہیں وہی درست ہے، یہ نہیں چلے گا۔ انہوں نے کہاکہ ایسے پروگرام بنائے جائیں جس سے کسی کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے کیونکہ اردو جوڑنے کی زبان ہے توڑنے والے پروگرام کو روکا جانا چاہئے۔ پروگراموں کو ٹیلی کاسٹ کرنے سے قبل ان پر کسی ذمہ دار کے ذریعہ نظر ثانی ضروری ہے۔


DD-Urdu - conspiracy to malign and closing

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں