اولاد کی تربیت - دینی و ملی فریضہ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-12

اولاد کی تربیت - دینی و ملی فریضہ

انسان کو اﷲ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نواز ہے اور ان نعمتوں میں سے ایک عظیم نعمت اولاد بھی ہے۔ عام دستور ہے کہ نکاح کے بعد ہر مردو عورت کی خواہش ہوتی ہے کہ ہماری اولاد ہو، اس کیلئے دعائیں مانگی جاتی ہیں لیکن اﷲ تعالیٰ جسے چاہتا ہے اسے اس نعمت سے نواز دیتا ہے، کسی کو لڑکا اور کسی کو لڑکی اور کسی کو دونوں جبکہ بعض کو اپنی کسی حکمت کی بناء پر اولاد نہیں دیتا۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : "جس کو چاہتا ہے بیٹیاں عطا فرماتا ہے اور جس کو چاہتا ہے بیٹے عطا فرماتا ہے یا ان کو جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتا ہے"۔ (سورہ الشوریٰ :۴۹۔۵۰)۔ اولاد کے متعلق شریعت کا حکم ہے: "اے ایمان والو تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) آگ سے بچاؤ"۔ (سورہ التحریم:۶) دین اسلام کی خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ اسلام انسانی زندگی کیلئے ایک ایسا جامع نظام پیش کرتا ہے جو ہر دور کیلئے قابل عمل ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے پیروکاروں کی ہر مرحلہ پر رہنمائی بھی کرتا ہے۔ ہر باشعور انسان یہ جانتا ہے کہ مستقبل میں معاشرے کی تخلیق اور ترقی میں بنیادی کردار نئی نسل کا ہی ہے۔ یہی وجہہ ہے کہ اسلام نے اولاد کی صحیح تربیت کرنے کو ایک قابل تحسین بلکہ حد درجہ ضروری قرار دیا ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بے شمار فضائل آئے ہیں، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاد کی صحیح تربیت، ان کی دیکھ بھال اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا والدین کیلئے ضروری ہے اور یہ ایسا پاکیزہ عمل ہے جو والدین کو جنت میں لے جانے کا باعث بنتا ہے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشاد فرمایا : "جو شخص دو بچیوں کی بالغ ہونے تک کفالت کرے گا تو وہ قیامت میں اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ اس طرح ہوں گے اور آپؐ نے اپنی انگلیوں کو ملاکر اشارہ کرکے بتلایا"۔ (مسلم: ج:۲ ص: ۳۳۰) جب ملت اسلامیہ اپنے مقصد حقیقی سے پیچھے ہٹ گئی اور ملحدین کے نرغے میں آگئی تو پورامعاشرہ متاثر ہوا اور وہ مسلمان جو کل تک توحید کی امانت کو سینے میں لے کر پوری دنیا پر حکمرانی کا فریضہ انجام دے رہا تھا آج وہی مسلمان اپنے دین و مذہب کے دفاع کیلئے بھی غیروں کا محتاج ہوکر رہ گیا ہے۔ آج اگر ہم معاشرے کے زوال کے اسباب پر نظر دوڑائیں تو منجملہ اور اسباب کے ایک بڑا سبب یہ بھی نظر آتا ہے کہ مسلمان اسلامی تعلیمات سے ہٹ گئے ہیں، انہیں یہ احساس ہی نہیں کہ اسلام زندگی کے تمام شعبوں کیلئے واضح لائحہ عمل رکھتاہے۔ تاریخ کا مطالعہ کیجئے تو معلوم ہوگا کہ وہی قومیں کامیاب ہوتی ہیں جو مستقبل کے معماروں کی تربیت اور اصلاح پر توجہ دیتی ہیں کیونکہ نئی نسل ہی قوم کا مستقل ہوا کرتی ہے۔ ہم میں سے ہر ایک جب اس بات کا خواہاں ہے کہ ایک مثالی معاشرہ وجود میں آئے جس کے اثرات و ثمرات سے پوری دنیا میں امن و امان کا بول بالا ہوتو اس کیلئے ضروری ہے کہ ہم ان اسباب کو اپنائیں جو مثالی معاشرے کی تخلیق کا باعث ہوں۔ اس سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری ان والدین کی بنتی ہے جو آنے والی نسل کے سربراہ ہیں۔ وہ اولاد کی ایسی تربیت کریں کہ آگے چل کر یہ نسل معاشرے کیلئے مفید ثابت ہو۔ آج اگر ہم ان کی ایسی تربیت کریں گے جو اسلامی اصولوںکے عین مطابق ہوگی تب ہی بہتری کی امید رکھی جاسکتی ہے ورنہ حسرت ہی رہ جائے گی۔ تربیت کرنے والے کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی کیا کیا ذمہ دارایاں ہیں۔ جب مربی اپنی ذمہ داریوں سے واقف ہوگا تب ہی وہ اپنی ذمہ داری کو پوری طرح نبھا پائے گا۔ انہیں گھر کے اندر ایسا دینی ماحول فراہم کیا جائے جس میں وہ پروان چڑھ سکیں اور ساتھ ساتھ اپنے مذہب اور دین کے بارے میں بھی آگاہ ہوسکیں۔ اسی طرح والدین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنے بچے کی تعلیم کے ساتھ اس کے اخلاق اور سیرت و کردار پر بھی توجہ دیں، اس لئے کہ جناب کریمؐ کا ارشادگرامی ہے: "کسی باپ نے اپنے بیٹے کو عمدہ اور بہترین ادب سے زیادہ اچھا ہدیہ نہیں دیا"۔ (مسند احمد:ج۱۲، ص:۱۶۰) حضرت عبداﷲ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرمؐ نے ارشادفرمایا: "اپنے بچوں کا اکرام کرو اور انہیں اچھی تربیت دو"۔ (سنن ابن ماجہ، ج:۴ص:۱۸۹) غور کیجئے کہ جناب نبی کریمؐ نے کس قدر سہل انداز میں بچوں کی تربیت کے متعلق زریں ارشادات فرمائے ہیں۔ یقینا جو کوئی آپؐ کے فرمودات کی روشنی میں اس عزم کے ساتھ اپنی اولاد کی تربیت کرے گا کہ حضوراکرمؐ کے یہ فرامین ہماری اولاد کی بہترین تربیت میں مددگار ثابت ہوں گے تو انشاء اﷲ امید رکھی جاسکتی ہے کہ آنے والا وقت برکتیں لے کر آئے گا۔ آج آپ دیکھ رہے ہیں کہ صحیح تربیت نہ ہونے کی وجہہ سے ہمارے مستقل کے یہ معمار اعداء اسلام کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں اور ان کی تہذیبوں سے ثقافتوں سے پوری طرح باخبر ہوتے ہیں جبکہ اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ اور نا آشنا ہوتے ہیں۔ شاید انہوں نے یہ سمجھ لیا ہے کہ ترقی کی علامت یہی ہے کہ ملحدین کی نقالی کی جائے، ان کی بیہودہ اور غیر اسلامی تہذیبوں اور ثقافتوں کو اپنایا جائے۔ یہی وجہہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل اہل باطل سے مقابلہ کرنے سے قبل ہی خود اپنی شخصیت اور ارادے سے شکست کھاچکی ہے جس کی وجہہ سے اہل مغرب کو آج کی نوجوان نسل سے کوئی خطرہ لاحق نہیں، کیونکہ وہ اس بات کو جانتے ہیں کہ آج کا مسلمان ہم سے اس درجہ متاثر ہوچکا ہے کہ وہ ہماری تہذیب اور ثقافت کو اپنانے میں ذرا سی بھی عار محسوس نہیں کرتا ہے۔ والدین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ خود بھی ایسے کاموں سے اجتناب کریں جن کا غلط اثر ان کی اولاد پر پڑسکتاہے اور اپنی اولاد پر بھی نظر رکھیں اس لئے کہ بچہ اپنے ارد گرد کے ماحول کا اثر فوری قبول کرتا ہے۔ اسی طرح والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ابتداء ہی سے بچے کی دینی اور اخلاقی تربیت ایسی کریں کہ جن کاموں سے اﷲ اور اس کے رسولؐ نے منع کیا ہے ان کاموں سے خود بھی رکیں اور اپنی اولاد کو بھی شروع سے یہ بات سمجھائیں اور اس چیز کا خوف ان کے دلوں میں بٹھائیں کہ وہ کام جن کے کرنے سے اﷲ اور اس کے رسولؐ نے منع فرمایا ہے، ان کاموں سے بچو، ورنہ اﷲ تعالیٰ ناراض ہوجائیں گے۔ والدین بچوں کی تربیت سے متعلق دینی کتابوں کا مطالعہ کریں تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ شریعت مطہرہ نے بچے کی نفسیات کو کس بہتر انداز میں سمجھ کر اس کے متعلق مختلف ایسے حکیمانہ اسلوب وضع کئے ہیں جن کی روشنی میں بچے کی تربیت بہت سہل انداز میں کی جاسکتی ہے۔ الغرض یہ تمام تر وہ ذمہ داریاں ہیں جو والدین حضرات پر عائد ہوتی ہیں لہذا والدین حضرات اپنی ذمہ داری محسوس کریں اور سمجھیں کہ اس پر فتن دور میں جو ذمہ داری اولاد کی تربیت کے حوالے سے ان کے کاندھوں پر عائد ہوتی ہے اس کا ادراک نہایت ضروری ہے، اگر ہم آج اس ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے اپنا فرض نبھائیں گے تو انشاء اﷲ آنے والے وقت ہمارے لئے سکون و اطمینان اور برکتیں لے کر آئے گا۔

Children's education muslim religious duty

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں