میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:9 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-04-12

میں کتھا سناتا ہوں۔ عاتق شاہ - قسط:9


ڈیر ڈارلنگ اردو!میں نے تمہاری شان میں گستاخی کی ہے۔ میری یہ مجال کہ ایسی غلط باتوں کو اپنے دل اور دماغ میں جگہ دوں۔ لیکن یہ جو کچھ بھی ہوا تم جانتی ہوکہ تم سے بے پناہ محبت کے نتیجے میں ہوا۔ مجھے احساس ہے کہ آدمی کو جذبات کی اس سطح پر انہیں آنا چاہئے کہ اُس کی سوچ ٹہر جائے۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ عقل اور جذبے کے بیچ میں کچھ فاصلہ ہونا چاہئے لیکن میں کیا کروں، دل سے مجبور ہوں۔ سچ تو یہ ہے کہ تم میری کمزروی بھی ہو اور طاقت بھی اور تم جانتی ہو کہ میں تمہارے بغیر کسی شئے کا تصور ہی نہیں کرسکتا۔ اگر تمہیں کوئی تیڑھی نظر سے دیکھے تو میں بُرا مان جاتا ہوں۔ حدیہ کہ میں اپنی بیوی کو بھی ڈانٹ پلاد یتاہوں حالانکہ میری بیوی نے کبھی تمہارے خلاف نہیں کہا لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ وہ تمہیں اپنی سوت سمجھتی ہے اور مجھے غصہ اسی بات پر آتا ہے کہ جو عورت یہ نہ سمجھے کہ محبوبہ اور بیوی میں کیا فرق ہوتا ہے وہ محبت کی اس سطح تک کیسے پہنچ سکتی ہے جہاں سے میں تم سے مخاطب ہوں۔ خیر ہٹاؤ اس بات کو لیکن میرے ملنے جلنے والے سبھی میرے اس پاگل پن سے واقف ہیں۔ اگر کوئی مجھے شخصی یاذاتی سطح پر گالی دے تو میں کچھ نہیں کہوں گا بلکہ جواب میں مسکرادوں گا اور سننے والوں پر فیصلہ چھوڑ دوں گا کیونکہ یہی میرے بہترین ججس ہیں۔ اگر جواب میں میں بھی گالی دو تو اُن میں اور مجھ میں کیا فرق باقی رہ جائے گا؟ لیکن ایک پل کیلئے بھی میں اس بات کو برداشت نہیں کرسکتا جب کوئی تمہارے خلاف بولے یا حقارت آمیز انداز میں تمہارا ذکر کرے یہی وہ نازک لمحہ ہوتا ہے جب میں بے حد جذباتی ہوجاتا ہوں اور میرا بلڈ پریشر یک دم بڑھ جاتا ہے۔ اب تک تمہاری تائید میں نہیں تمہاری محبت میں نہ جانے میں نے کتنی لڑائیاں لڑیں لیکن مجھے دکھ ہے کہ میں نے ان میں سے ایک لڑائی بھی نہیں جیتی۔ مجھے اپنی شکست کا کوئی دکھ نہیں بلکہ دکھ اس بات کا ہے کہ تمہارے لئے لڑتے ہوئے میں کیوں نہ مارا گیا؟ شاید تم سوچوگی کہ مجھے شہید کہلانے کا کتنا شوق ہے یا ہیرو بننے کا۔ بخدا ایسا نہیں ہے۔ یقین کرو کہ خود کو مطمئن کرنے کیلئے میں ایسی بات سوچتا ہوں۔ اس سے پہلے بھی کئی بار میں نے سوچا کہ تمہاری راہ میں مرجانا کتنا شاندار ہوگا۔ کم ازکم ایسی فضول اور بے کار سی زندگی کا کچھ مطلب تو نکل آئے گا جو میں گزار رہا ہوں۔ یہ ساری باتیں تمہارے سامنے اس لئے نہیں رکھ رہا ہوں کہ تمہیں متاثر کروں اور اپنے تعلق سے تمہارے دل میں کوئی گوشہ عافیت بنالوں اور نہ اس لئے کہ میں اپنی چاہت کے عوض تم سے داد طلب کرسکوں، جیسا اردو کا شاعر مقطع سناتے ہوئے ہمیشہ کرتا ہے۔ شاید اس لئے اردو غزل بدنام ہوگئی ہے۔ اس لئے بھی کہ شاعر بڑی روایتی محبت کا اظہار کرتا ہے جب کہ محبوبہ کا دور دور تک پتہ نہیں ہوتا۔ بڑی مصنوعی اور غیر فطری محبت کااظہار ہوتاہے۔ اس تفصیل کا مقصد صرف یہی ہے کہ تم بھی میرے بارے میں کوئی ایسی ویسی بات نہ سوچ لینا میں کوئی امیتابھ بچن قسم کی ایکٹنگ تو نہیں کررہا ہوں اور نہ عام شعراء کی طرح اپنی محبت جتا رہاہوں۔ میڈم! دل سے جو بات نکلتی ہے وہ دل تک پہنچتی ہے۔ یہ کیوں بھولتی ہو کہ یہی غزل میرؔ، غالبؔ سے لے کر فیضؔ کے ہاتھوں میں پہنچنے تک کتنی خوبصورت ہوجاتی ہے کیونکہ یہ دل کی بھٹی میں تپ کر باہر نکلی ہے۔ اس لئے سننے والوں کے دل و دماغ پر اثر کرتی ہے۔ یہاں جو بات میں کہنا چاہتا ہوں وہ صرف اتنی ہی ہے کہ میں تمہارا روایتی قسم کا عاشق نہیں ہوں۔ میں تمہارے لئے کچھ بھی کرسکتا ہوں۔ ابھی میں نے کہا نا کہ جب کوئی تمہارے خلاف بولتا ہے تو میں صرف جذباتی ہی نہیں ہوتا بلکہ جی چاہتا ہے کہ اُس کا قتل کردوں لیکن میں قتل نہیں کرسکتا۔ ایک ہزار سال زندہ رہ کر بھی میں قتل نہیں کرسکتا کیونکہ تم کو چاہنے والا کبھی بھی درندگی کی سطح پر نہیں آسکتا تم تو پیار کی، محبت کی، دوستی کی اور امن کی علامت ہو۔ بھلا تمہارا عاشق خون خرابے کیسے کرسکتا ہے۔ قتل کرنا تو دور کی بات ہے، میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ مجھے معاف کردو۔ میں نے یہ جو لفظ استعمال کیا ہے کوئی بُری نیت سے نہیں میں کیوں کسی کو مارنے جاؤں گا۔ اصل میں جب میں نے یہ لفظ استعمال کیا تو اُس وقت میرے تحت الشعور میں غالبؔ کا ایک شعر تھا اور اس شعر کا ایک ایک لفظ پرندے کی طرح پھدک پھدک کر میرے شعور کی سطح پر آگیا اور بڑے ہی بھونڈے انداز میں میں نے اُسے اُگل دیا۔ ویسے تم بھی شعر سن لو۔ بات صاف ہوجائے۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
غالبؔ کے بعد اردو شعراء نے اس قتل کی اتنی پبلسٹی کی کہ اب مشعوق سے ڈر ہونے لگا ہے۔ بھئی تم اپنے شاعروں سے کہتی کیوں نہیں کہ بس ہوچکا۔ اب حتم کرو۔ معشوق نہ ہوئی کسی فوجی دستے کی کمانڈ کرنے والی کرنل ہوگئی۔ حد ہوگئی۔ دنیا اور دنیا کی زبانیں کہاں سے کہاں پہنچ گئیں اور تمہاری زبان کا شاعر اب تک محبوبہ کے انتظار میں رات رات بھر جاگ کر صبح کی خبر لارہا ہے۔ افسوس صدافسوس! کیا شاعر کو کچھ کام کاج نہیں ؟ مجھے معاف کردو۔ شاعروں کی کسی بھی بھول اور ان کے غیر حقیقت پنسدانہ روئے کی بھلا تم کیسے ذمہ دار ہوسکتی ہو اور نہ میں ایسا سمجھتا ہوں۔ میرا کہنا اتنا ہی تھا کہ ذرا تم ان سب کی تنبیہ کرو، ویسے تمہاری مرضی! ان ساری تفصیلات کا مقصد اپنی جان بازی کا اظہار نہیں صرف یہ عرض کرنا تھا کہ تمہاری خوشنودی کی خاطر کی خاطر میں سب کچھ کرسکتا ہوں کہوتو فرہاد کی طرح تمہارے لئے ایک نہر کھود دوں۔ ذرا حکم تو دے کر دیکھو۔



A bitter truth "Mai Katha Sunata HuN" by Aatiq Shah - episode-9

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں