امریکی خارجہ پالیسی میں خواتین کو مرکزی حیثیت کیوں؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-08

امریکی خارجہ پالیسی میں خواتین کو مرکزی حیثیت کیوں؟

امریکہ کے سکریٹری آف اسٹیٹ کی حیثیت سے اپنے پہلے ہفتے کے دوران مجھے برما کی جرأت مندانہ خواتین کے ایک گروپ سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔ اس گروپ میں 2 خواتین سابق سیاسی قیدی تھیں اور ہر چند کہ وہ اپنی زندگیوں میں ناقابل یقین صعوبتوں میں ثابت قدم رہی تھیں وہ آگے بڑھنے کی پابند عہد نظر آئیں ۔ وہ لڑکیوں کو تعلیم و تربیت فراہم کرا رہی ہیں ، بے روزگاروں کیلئے روزگار تلاش کر رہی ہیں ، اور معاشرتی زندگی میں خواتین کی وسیع تر شراکت داری کی وکالت کر رہی ہیں ۔ مجھے ذرابھی شبہ نہیں کہ وہ تبدیلی کے طاقتور پیامبر کے طورپر اپنا سفر جاری رکھیں گی اور آنے والے برسوں میں اپنے ملک اور اپنے فرقوں کو ترقی سے ہمکنار کراتی رہیں گی۔ اس طرح کے مواقع ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ خواتین اور لڑکیوں کے حقوق کے تحفظ اور پیش قدمی کیلئے امریکہ کا دنیا بھر میں حکومتوں ، تنظیموں اور الگ الگ لوگوں کے ساتھ مسلسل کام کرنا انتہائی ضروری کیوں ہے ۔ اس کے باوجود ہمارے اپنے ملک کی طرف دنیا کے انتہائی اہم اور ضروری اقتصادی، سماجی اور سیاسی مسائل خواتین کی مکمل شرکت کے بغیر آسانی سے حل نہیں کئے جاسکتے ۔ عالمی اقتصادی فورم کے مطابق وہ ممالک جہاں مرد و خواتین کو مساوی حقوق حاصل ہیں ، اقتصادی طورپر اُن ممالک سے کہیں آگے جہاں جنسی تفریق کے سبب خواتین اور لڑکیوں کو طبی دیکھ ریکھ، تعلیم، منتخب اداروں اور بازاروں تک محدود رسائی ہے یا بالکل رسائی نہیں ہے ۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی تنظیم برائے خوراک و زراعت کا اندازہ ہے کہ اگر خاتون کاشت کاروں کو ویسے ہی بیج، کھاد اور ٹکنالوجی میسر ہوں جیسے مرد کسان استعمال کرتے ہیں تو و ہدنیا میں ضرورت سے بہت کم غذا ملنے والے 150ملین لوگوں کی تعداد کم کر کے 100ملین کر سکتی ہیں ۔ بہت سے معاشروں میں اور بہت سے گھروں میں عورتوں اور لڑکیوں کی کم قدری ابھی بھی کی جاتی ہے ۔ انہیں اسکول جانے کا موقع فراہم نہیں کیا جاتا اور کم سنی میں ہی شادی کرنے پر مجبور کر دیا جاتا ہے ۔ جنس کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کے نتیجے میں بہت سی زندگیاں ضائع ہو گئی ہیں یا ہمیشہ کیلئے برباد ہو گئی ہیں ۔ 2بیٹیوں کے باپ ہونے کے ناطئے میں نربھئے کے نام سے پہنچانی جانے والی میڈیکل کی 23سالہ طالب، جس کی صرف عورت ہونے کی وجہہ سے نئی دہلی میں ایک بس میں جان لے لی گئی اس کے والدین کے درد اور پاکستانی لڑکی ملالہ یوسف زئی جو اسکول جانے کیلئے بس میں سوار ہوئی تھی کے والدین کے صدمے کو سمجھ سکتا ہوں ۔ میں اپنے کاز کے تئیں ملالہ کے بیباک عزم اور موت سے لڑتے ہوئے اپنے قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے نربھئے کے پختہ ارادے اور ان دونوں کے والدین کی اپنی بیٹیوں اور تمام خواتین کی جانب سے بولنے کی ہمت سے متاثر ہوں ۔ کوئی بھی ملک اپنی نصف آبادی کو پیچھے چھوڑکر ترقی نہیں کر سکتا۔ یہی سبب ہے کہ امریکہ اس بات میں یقین رکھتا ہے کہ خوشحالی، استحکام اور امن کے ہمارے مشترکہ مقاصد کے حصول کیلئے جنسی مساوات اہم ہے اور امریکی خارجہ پالیسی کو آگے بڑھانے کیلئے دنیا بھر میں لڑکیوں اور عورتوں پر خرچ کرنا ضروری ہے ۔ ہم خاتون کاروباریوں کو تربیت اور صلاح دینے پر رقم خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ نہ صرف اپنی فیملی کو ترقی سے ہمکنار کر سکیں بلکہ اپنے ملکوں کی اقتصادی نشو ونما میں بھی مدد کر سکیں ۔ ہم لڑکیوں کی تعلیم پر رقم خرچ کرتے ہیں تاکہ وہ کم سنی کی شادی پر مجبور کئے جانے سے بچ سکیں ، افلاس کے سلسلہ کو ختم کر سکیں اور کمیونٹی لیڈر کے طورپر ابھریں اور شہریوں کے ساتھ خدمات انجام دیں ۔ لڑکیوں اور عورتوں میں تعلیم کو فروغ دینے اور وسائل تک اُن کی رسائی سے آئندہ نسل کی صحت اور تعلیم بھی بہتر بنائی جاسکتی ہے ۔ ہم زچہ کی صحت کو بہتر بنانے ، خواتین کاشت کاروں کو مستحکم کرنے اور جنس کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کو روکنے اور اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے دنیا بھر میں شراکت داروں کے ساتھ کام کرتے ہیں کیونکہ جب خواتین صحت مند، محفوظ ہوتی ہیں تو تمام معاشرے کو اس کا فائدہ ہوتا ہے ۔ خواتین اپنی محنت و مشقت، قیادت اور اختراعی صلاحیت سے عالمی معیشت میں اپنا حصہ ادا کر سکتی ہیں ۔ امریکی سفارتکار ہر جگہ امن مذا کرات اور سلامتی کی کوششوں میں خواتین کو شامل کرتے ہیں کیونکہ مذا کرات کی میز پر خواتین کے تجربات، ان کی فکر اور ان کی بصیرت کو مستقبل کے تنازعات کو روکنے اور زیادہ پائیدار امن قائم کرنے میں معاون ہو سکتے ہیں ۔ آج عالمی یوم خواتین خوشی کا دن ہے ۔ یہ وہ دن ہے جب ہم سب کو عدم مساوات کو ختم کرنے کیلئے تجدید عہد کرنا چاہئے ۔ عدم مساوات ہمیں دنیا کے ہر گوشہ میں ترقی سے روکتی ہے ۔ ہم اسے ختم کرنے کا عہد کر سکتے ہیں بلکہ ہمیں عہد کرنا چاہئے تاکہ ہماری ہر بیٹی کسی خوف کے بغیر اسکول جانے کیلئے بس پر سوار ہو سکے ، ہماری تمام بہنیں اپنی غیر معمولی صلاحیت کو بروئے کار لاسکیں اور ہر عورت اور ہر لڑکی اپنی تمام تر توانائی اور طاقت کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کر سکے ۔

Why are women center stage in U.S. foreign policy?

John Kerry: Malala's vital lesson for US foreign policy

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں