تاریخ کا رخ موڑنے والی خواتین کو سلام - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-08

تاریخ کا رخ موڑنے والی خواتین کو سلام

میں نے وعدہ کیا تھا آج کا آرٹیکل ہندوستان میں حق اور انصاف کے نفاذ کی خامیوں پر محیط رہے گا، لیکن آج میں نے اپنا موضوع بدل کر 8 مارچ کے تعلق سے خواتین پر مرکوزکرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ 8مارچ کو یوم خواتین اور یکم مئی کو لیبر ڈے منانے کا کیا فائدہ ہے ۔ خاص طورپر ایسے حالات میں جب عورتوں کے حقوق پر مسلسل بحث ہورہی ہے ۔ کیا یہ بات درست ہے کہ 19ویں اور 20ویں صدی کی انسانیت سوزی کی داستانیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں ؟ ہم کو آج سماجی رویہ پر غور کرنا ہو گا۔ خاص طورپر شادی پر ہونے والے اخراجات کی تفصیل پر غور کریں گے تو ہم کو اندازہ ہو گا، جہیز کا لین دین خوب ہورہا ہے ، اس سے تلخ بات یہ ہے کہ ذات برادری کی طرف یہ ایک برائی ایسی ہے جو ایک خاص فرقہ میں ہی مروج ہو اور جس کا فائدہ صرف ہندوؤں کے رمد ہی اٹھا رہے ہیں مردوں کی بالادستی صرف ہندو سماج میں ہی رائج نہیں ہے ۔ چند سال قبل پڈوکوٹائی (تاملناڈو) کی میری دوست شریفہ داؤد نے عورتوں کیلئے ایک خصوصی مسجد بنانے کی کافی کوشش کی۔ نتیجتااًن کے خلاف جہیز سے متعلق کئی کیس مقامی جماعت کے سامنے تصفیہ کیلئے آئے ۔ جب عورتوں کی اس کوشش کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمدنہیں ہوا تو ان خواتین نے قرآن ہاتھ میں لے کر عورتوں کیلئے خصوصی جماعت قائم کر لی۔ میری بہنیں مجھ سے سوال کرتی ہیں کہ ہمارے سماج میں عورتوں میں شنکر آچاریہ، مولوی یا پادری کیوں نہیں بنائے جاتے ہیں اور جہیز کا لین دین ہمارے مکاتب فکر، مذاہب یا جدید نظریات والے سماج میں کیوں ممنوع قرار نہیں دیا جاتا۔ ہم کو آج بھی ان تلخ سوالات کے جواب کا انتظار ہے ۔ فرقہ وارانہ تشددکے خلاف میری جدوجہد کی وجہہ سے مجھے کافی محبت ملی ہے ۔ میری یہ خوش بختی رہی کہ میرے والد کو اپنی دونوں بیٹیوں پر فخر تھا۔ میرے والد نے ہمیشہ مشکل وقت میں میرا ساتھ دیا۔ مجھ کوآج میرے شریک حیات اور ساتھی کی رفاقت حاصل ہے ۔ مہاراشٹرا اور گجرات کے ایجوکیشن بورڈ کے نتائج میں لڑکیوں نے غیر معمولی کارکر دگی کا مظاہرہ کیا ہے اور آج مراٹھی، گجراتی اور سنسکرت جیسے مضامین میں شاندار کارکر دگی کا مظاہرہ کر رہی ہیں ۔ لیکن آج ہم جس سماج اور دنیا میں رہ رہے ہیں وہاں لڑکیوں کے ساتھ جانبدارانہ سلوک کیا جا رہا ہے ۔ رحم مادر میں لڑکیوں کو مار دیا جاتا ہے ۔ عورتوں اور لڑکیوں کے ساتھ پولیس اور مردوں کا کیا سلوک ہوتا ہے ، اسی کا افسوسناک مظاہرہ دسمبر 2012ء میں راجدھانی اور چند روز قبل پنجاب نیزدہلی میں ایک دلت عورت کے ساتھ ہوئے واقعات میں سامنے آ چکا ہے ۔ لیکن گھٹا ٹوپ اندھیرے میں عزم اور روشنی کی کرن دکھائی دیتی ہے ۔ ان میں سے ایک 14سال کی غزالہ کی مثال ہمارے سامنے ہے ، جس کے باپ کو فرقہ وارایت کے نشہ میں بدمست ہجوم کی بربریت کا شکار ہونا پڑا۔ اس مشتعل ہجوم کی قیادت کوئی اور نہیں بلکہ ایک خاتون ممبر اسمبلی مایا کوڈنانی کر رہی تھی جو پیشہ سے ایک ڈاکٹر بھی تھی۔ اس ہجوم نے 127افراد کی جان لی۔ اگر آپ غزالہ کا رپورٹ کارڈ دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ امتحانات میں اس کے نمبر 80فیصد سے کم نہیں آئے ۔ اسی طرح شکیلہ تھی، جس کو 28فروری 2002ء کو ماں باپ کے سائے سے محروم کر دیا گیا۔ شکیلہ، فرزانہ، جنت، فریدہ اور آمینہ نے نرودہ پاٹیہ کا بہیمانہ قتل عام اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔ 29!اگست 2012ء کو پھر تاریخ رقم کی گئی اور آئین کی بالادستی کے سبب 31افراد کو 28سال کی قید کی سزا سنائی گئی۔ جن افراد کو سزا دی گئی اس میں مایا کوڈنانی بھی شامل ہے ۔ اس معاملہ پر 18،20ماہ کی سماعت کے دوران عدالت کا درجہ حرارت کافی گرم رہا، میری تنظیم اور میرے خلاف بدترین الزامات عائد کئے گئے ۔ ہمارے وکیل راجو شیخ کو بھی کھلی عدالت میں بجرنگی نے دھمکی دی، لیکن عدالت نے دباؤ قبول نہیں کیا۔ اس انتہائی اہم معاملہ میں عدالت کا 1900 صفحات پر مشتمل فیصلہ ہندوستان کے کریمنل لاء کے طالب علم کیلئے اہم فیصلہ ہے ۔ 2002ء کے فسادات سے خوفزدہ 3ہزار بچے اپنے خاندان کے بچے ہوئے رشتہ داروں اور مجموعی طورپر اپنے فرقے کے عزم کا نمونہ ہیں ۔ ان کی زندگی کی داستانیں ہمارے لئے اہمیت کی حامل ہیں ۔ اسی طرح ہمارے سامنے ایک بیوہ کی کہانی ہے ، جس نے انصاف کیلئے 28سال جدوجہد کی اور اس کے باوجود بھی اس کو انصاف نہیں ملا۔ آج قومی راجدھانی کی ہنگامہ آرائیوں میں ترلوک پوری کو کون پوچھتا ہے ، ہمارے سیاسی طبقہ کو ان کی بازآبادکاری میں دلچسپی نہیں ہے ۔ ترلوک پوری میں یکم اور 2!نومبر 1984ء کو قتل عام کے بدترین واقعات پیش آئے تھے ۔ وحشیانہ فرقہ وارانہ تشدد کے بعد گھیٹو ائزیشن کے مسائل کھڑے ہوتے ہیں ۔ گذشتہ 3دہائیوں میں ہماری آبادی سخت سرحدوں میں تقسیم رہی ہیں جہاں ذات پات کی وحشتناک سرحدوں نے 21فیصد آبادی کو حاشیہ پر رکھا ہے ۔ آج ہر شہر میں سرحدیں ایک اور تقسیم کا خط کھینچ رہی ہیں ۔ 1984ء میں بھیونڈی، ممبئی 1992-93 میں احمد آباد، 1991ء میں احمد آباد اور 2002 میں گجرات کے پرافسوسناک واقعات ہیں ، جن پر میں نے لکھا ہے اور تفصیلات جمع کی ہیں ۔ ان فسادات کا افسوسناک مقصد فرقوں کے مابین تفریق اور تقسیم پیدا کرنا ہے ۔ میری نظر سے وشوا ہندو پریشد کا وہ نقشہ بھی گذرا ہے جس میں پرانے شہر کو ہرے اور لائن کی دوسری طرف کی آبادی کو گیروے رنگ سے دکھایا گیا ہے ۔ جولائی 1991ء کی رتھ یاترا کے دوران تشدد کے زخم خاں صاحب کے چہرے پر واضح دکھائی دیتے ہیں ، جنہوں نے نورنگ پورہ کی کھلی فضا میں سانس لینے کی جرات کی۔ گھیٹو ائزیشن کی تصویر کا ایک رخ اور بھی ہے ۔ ہمارے ایک دوست فیروز صاحب جو 1992-93 کے فرقہ وارانہ فسادات کے بعد ایک مسلم محلہ میں رہنے کیلئے مجبور ہو گئے تھے ، ان کی بیوی اور بیٹی تو ایسا لباس پہننے کیلئے مجبور کیا جاتا تھا جس میں وہ بے آرام دہ محسوس کرتے تھے ۔ ڈریس کوڈ اور پرائیویسی کے فقدان کی مجبوریوں نے ان کو پریشان کیا، روزگار حاصل کر کے اقتصادی طورپر خود کفیل ہونے کی کوشش ہماری بیٹیوں ، بہنوں اور ماؤں کو بالکل کھلے آسمان کے نیچے بے یارومددگار چھوڑدیتی ہے ۔ ہم کو دنیا کو محفوظ بنانے کیلئے متحدہ طورپر کوشش کرنی ہو گی اور ہم کو ایسا نہ بتایا جائے کہ ہمارے لئے یہی بہتر ہے کہ ہم گھر کے اندر ہی رہیں جہاں وہ محفوظ ہیں ۔ عورتیں نصف آسمان کو تھامے ہوئے ہیں ، عورتوں کو با اختیار بنانے کی تحریک عزت، حق رائے دہی اور مساوی اجرت کے اپنے جائز حق کا مطالبہ کرتی ہیں ۔ میں جب بھی عورتوں کیلئے ان حقوق کا مطالبہ کرتی ہوں تو عورتوں پر ڈھائے گئے مظالم کے خلاف آواز بلند کرنے والے مظاہروں میں خواتین حصہ نہیں لیتی ہیں ۔ جب تک خواتین خود ہماری اس جدوجہد میں شریک نہیں ہوتی ہیں ہم جیت نہیں سکتے ہیں ۔ میں یہ سوچتی ہوں کہ میری بہن کیا گھروں میں چھپ کر رہ گئیں ، جب نرودہ پاٹیہ، گلبرگ، سردار پور، اود، وڈودرا، پندھاوب، وندھیور سبنجیلی میں آج تک کے 11سال بعد تک عورتوں کو افسوسناک طریقہ سے نشانہ بنایا گیا۔ ذکیہ آپا، شکیلہ، روپا، بلقیس، شبانہ، فرزانہ، بشیر بی یا دیگر نصف درجن دیگر عورتیں ہوں ، مزاحمت کی آوازیں ہیں ۔ یہ اٹھنے والی آوازیں ہماری جدوجہد کا اہم حصہ ہیں ۔ یہ خواتین ایک ایک اینٹ رکھ کر تاریخ کا رخ موڑنے کی کوشش کر رہی ہیں ۔ آج یوم خواتین کے موقع پر تاریخ کا رخ موڑنے والی ان عورتوں کو میرا سلام۔

Salute to history turning women. Article: Teesta Setalvad

Our world, Our story: Teesta Setalvad on Women's Day 2013

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں