داراشکوہ - تاریخ اورزمانۂ حال کے تناظر میں - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-24

داراشکوہ - تاریخ اورزمانۂ حال کے تناظر میں

"داراشکوہ : تاریخ اورزمانۂ حال کے تناظر میں" بین الاقوامی سمینار کا انجمن ترقی اردو میں افتتاح
داراشکوہ کے علمی وادبی کارناموں کو فراموش نہیں کیا جاسکتامقررین کا اظہار خیال

انجمن ترقی اردو ہند ،نئی دہلی کے زیراہتمام راؤزایونیو، واقع اردوگھرمیں بعنوان "داراشکوہ:تاریخ اورزمانۂ حال کے تناظر میں" بین الاقوامی سمینار کا افتتاح عمل میں آیا۔استقبالیہ تقریب کی صدارت جدیدیت کے امام شمس الرحمن فاروقی نے کی ۔مہمان خصوصی کی حیثیت سے جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے شرکت کی ،جب کہ مہمان ذی وقار ممبر سکریٹری آئی سی ایچ آرپروفیسر نعیم الرحمن فاروقی، ڈاکٹرعشرت عالم، مدعوتھے۔کلیدی خطبہ عرفان حبیب نے پیش کیا۔جب نظامت ڈاکٹررضاحیدر نے کی۔اس موقع پر داراشکوہ کی علی ادبی خدمات کا احاطہ کیاگیا۔مقررین کے مطابق سلطنتوں میں داراشکوہ واحد ایک ایساحکمراں تھا، جس نے ادب کی خدمت کی۔استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے انجمن ترقی اردو کے چیئرمین پروفیسر صدیق الرحمن قدوائی نے کہاکہ داراشکوہ مغل دور کے ناقابل فراموش شخصیت میں سے ایک ہے،وہ سیاسی جنگ ہار گیا مگر اس نے جو علمی سرمایہ چھوڑا ہے وہ قابل اعتراف ہے۔ صوفی شاعر سرمد سے کافی قربت رکھتاتھا۔کیوں کہ داراشکوہ بذات خود صوفی صفت تھا۔فارسی،اردو کے علاوہ سنسکریت پر یدطولی رکھتاتھا،تراجم کے جو کارنامے انجام دیے وہ قابل تعریف ہیں۔کلیدی خطبہ دیتے ہوئے پروفیسر عرفان حبیب نے کہاکہ 1615ء میں داراشکوہ کی پیدائش ہوئی اورمحض 44برس کی عمر میں 1659ء میں قتل کردیا گیا۔اورنگزیب سمیت لوگوں نے داراشکوہ پر الزام لگایاکہ وہ کافر ہوچکاہے۔جب کہ اکبر اور داراشکوہ میں موازنہ کیاجائے تو اکبر کے یہاں سبھی مذاہب کادخل تھا مگر داراشکوہ کے یہاں صرف ہندومذہب ہی دیکھا جاسکتاہے۔جب کہ داراشکوہ کے مذہبی جذبات ان باتوں سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ داراشکوہ جہانگیر پر تنقید کرتے ہوئے کہتاہے کہ علماء ومشائخ کی قدر نہیں کرتے اور انہیں سزادیتے ہیں جو کہ غلط ہے۔داراشکوہ کا ابتدائی دور صوفیوں کی ارادت میں گزراہے۔رسالۂ حق نما،مجموعہ البحرین ،اپنیشید کا ترجمعہ جیسے لازوال کارنامے انجام دیے۔ وجوہات،عقل ،دانش اورسائنس ان کی تحریروں میں نہیں تھی جوکہ ان کی تحریروں کی سب سے بڑی کمزوری تھی ۔پروفیسر نعیم الرحمن فاروقی نے کہاکہ 44برس کی عمرمیں انہوں پانچ کتابیں لکھیں جو کہ کافی اہم سرمایہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔کیوں کہ کسی بھی سلطنت کے حکمرانوں نے اتنے علمی وادبی کام انجام نہیں دیے۔داراشکوہ کے نظریات لوگوں تک پہنچانا حالات حاضرہ کی اہم ضرورت ہے۔آخرمیں سرسوتی سمان یافتہ شمس الرحمن فاروقی نے داراشکوہ کے مختلف نظریات کا پرمغز احاطہ کیا۔مزید انہوں نے کہاکہ داراشکوہ ایک سنجیدہ شاعر تھے اورقادری تخلص کیاکرتے تھے۔پروگرام کے اختتام پر اطہر فاروقی نے اظہار تشکرادا کیا۔شرکاء میں پروفیسراسلم پرویز،شاہد ماہلی،پروفیسر علی احمد فاطمی،شریف الحسن نقوی،پروفیسر ابن کنول،سوامی اگنی ویش،شاہد مہدی،ڈاکٹر خالد علوی،پروفیسر محمد ذاکر،پروفیسر شریف حسین قاسمی،نصرت ظہیر،فاروق ارگلی،عتیق مظفرپوری،عبد الرحمن ایڈ وکیٹ،محمد ساجد،ڈاکٹر جاوید رحمانی، کے علاوہ بڑی تعداد میں تاریخ کے طلباء نے بھی شرکت کی۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں