نئے پرانے چراغ اجلاس - تیسرے روز کی روداد - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-24

نئے پرانے چراغ اجلاس - تیسرے روز کی روداد

افسانہ پیش کرتے نورین علی حق
نئی نسل کے کچھ لوگوں کی وجہ سے اردو ادب کا مستقبل تاریک نہیں روشن ہے:ابن کنول
اردو اکادمی دہلی کے مشہور پروگرام "نئے پرانے چراغ" کا سلسلہ بہ دستور جاری

اردو اکادمی دہلی کے زیراہتمام "نئے پرانے چراغ" کے تیسرے روزکے پہلے اجلاس کی صدارت ڈاکٹر مظہر احمداور ڈاکٹر شیخ عقیل احمدنے کیجب کہ نظامت کے فرائض دانش حسین خان نیانجام دئے ۔صدارتی خطبہ کہتے ہوئے ڈاکٹر مظہر احمد نے کہا کہ جس طرح یہاں آج اردو کے نئے دیوانے اپنے مقالات پیش کر رہے ہیں۔ اسی طرح کے اجلاس میں ہم لوگوں نے بھی مقالے پڑھے ہیں۔پرانی اورنئی نسل میں جو تال میل ہونی چاہئے اس کا اب فقدان ہے۔صحیح تربیت صحبت کے ذریعہ ممکن ہے سائبر دنیا کے ذریعہ ہرگز نہیں۔نئی نسل کے لوگوں کو چاہئے کہ اپنا مطالعہ وسیع کریں اس کے بعد قلم کو جنبش دیں تو کچھ اچھی باتیں سامنے آئیں گی۔سبھی مقالے لاجواب تھے ۔ڈاکٹر مظہر احمد نے کہاکہ سبھی مقالات قابل تعریف تھے،مزید مشقت کرنے کی ضرورت ہے۔ مقالہ نگاروں میں ساجد ذکی فہمی،جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے عبدالرحیم نے "حسین الحق کی افسانہ نگاری" پر ، دہلی یونیورسٹی سے سفینہ نے "اردو ادب میں طنز ومزاح کی روایت" ، جامعہ ملیہ اسلامیہ کے زمرد مغل نے "عرفان صدیقی کے شعری امتیازات" ، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی سے شگفتہ یاسمین نے "منٹو کے فکشن میں عورت کا تصور"، دہلی یونیورسٹی کی عالیہ نے "رفیع الدین بہ حیثیت مرتبِ خطوطِ اقبال" اورجواہر لعل نہرو یونیورسٹی کی رحمت یونس نے "غضنفر کا مانجھی ایک تجزیاتی مطالعہ" اورناہیدہ نے پیش کیا۔ تخلیقی اجلاس کی صدارت شعبہ اردو دہلی یونیورسٹی کے سابق صدر اور معروف افسانہ نگار پروفیسر ابن کنول اور نئی نسل کے افسانہ نگار ڈاکٹر احمد صغیر نے کی ۔جب کہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ابو ظہیر ربّانی نے فرائض انجام دیے ۔ اس اجلاس میں نور ین علی حق نے اپنا افسانہ "ایک سہما ہوا آدمی"، ڈاکٹر طاہرہ منظور نے "حقیقتِ جاوداں"، ڈاکٹر پرویز شہریا نے "پانی قدرت کا ایک انمول خزانہ"، تبسم فاطمہ نے "سیاہ لباس"، غیاث الرحمن نے "وہ رات"، ایم رحمن نے "درد کی صلیب"، نعیمہ جعفری نے "تحلیل "اور ڈاکٹر شعیب رضا خاں وارثی نے اپنا انشائیہ "بے حیائی تیرا آسرا" جب کہ انجم عثمانی نے "شگفتگی کی تلاش میں" کے عنوان سے ایک فکاہیہ پیش کیا۔صدراجلاس پروفیسر ابن کنول نے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے نہایت پُرمغز گفتگوکی،انہوں نے کہاکہ ہمارے بعد کی نسل کے نوجوانوں میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں۔ جو کسی افسانہ نگار کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اردو اکادمی اس طرح کا پروگرام پیش کرتی ہے جس میں تنقید کے ساتھ تخلیق کی بھی قدر وقیمت ہوتی ہے۔فکشن کو پہلے درجے پر ہونا چاہئے تھا مگر اسے دوسرے درجے پر رکھا گیاہے۔نئی نسل میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے کہاکہ جاسکتاہے کہ اردو ادب کا مستقبل تاریک نہیں روشن ہے۔نورین نے جو افسانہ لکھا ہے اسے نہیں لکھنا چاہئے تھا مگر اس نے بے باکی سے افسانہ قلم بند کیااور پڑھا بھی ہے۔وہ آئندہ بھی اچھے افسانے لکھتا اورپڑھتارہے گا۔ مجلس صدارت کے دوسرے رکن ڈاکٹر احمد صغیر نے کہاکہ نورین کا افسانہ ایک سہماہوا آدمی اچھا ہے۔ان کے افسانے میں کئی رسائل میں پڑھ چکا ہوں وہ اچھے افسانہ نگار کے طورپر ابھرنے والے ہیں۔بھی تمام تخلیقات پر اپنے خیالات کااظہار کیا اور تمام لکھنے والوں کو مبارکباد پیش کی۔

سید عینین علی حق

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں