دینک جاگرن اور بہار سرکار کی جانب سے پٹنہ میں دو روزہ لٹریری فیسٹول - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-25

دینک جاگرن اور بہار سرکار کی جانب سے پٹنہ میں دو روزہ لٹریری فیسٹول

بہار سرکار کے محکمہ تہذیب و ثقافت اور دینک جاگرن کے اشتراک سے مقامی تازہ منڈل میں منعقد دو روزہ "پٹنہ لٹریچر فیسٹول" میں دوسرے دن بھی شائقین کا جم غفیر نظر آیا۔ اس لٹریچر فیسٹول میں شاعری کی دنیا کی کئی نامور شخصیات نے شرکت کی۔ فہمیدہ ریاض، مشہور نغمہ نگار گلزار، معروف مصنف اصغر و جاہت اور اوم تھانوی، گیان پرکاش، نیلے اپادھیائے جیسے لوگوں نے اس پروگرام میں شرکت کرکے گنگا جمنی تہذیب کا اعلیٰ نمونہ پیش کیا۔ اس پروگرام کی مقبولیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کئی لوگوں نے یہاں تک کہا کہ "یہ جئے پور لٹریری فیسٹول" کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنجیدہ ہے اور اکیڈیمک طورپر یہ خوش آئند مستقبل کا آغاز ہے"۔ بہار ایسے پروگرام کیلئے زرخیز جگہ ہے۔ آج "اردو کی گمک۔ گنگا جمنی ادب" دینک جاگرن کی پہل کا خاص سیشن تھا۔ وسیم بریلوی اور روزنامہ انقلاب کے ایڈیٹر شکیل حسن شمسی کی بات چیت نے لوگوں کا دل جیت لیا۔ اس موقع پر وسیم بریولی نے کہاکہ تہذیب بنائی نہیں جاتی، بن جاتی ہے۔ ہندوستان عجیب وراثتوں کا ملک ہے۔ ایسی زمین دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتی جہاں اتنی ویرائٹی، الگ الگ موسم، الگ الگ زبانیں اور مزاج ہوں۔ اردو کسی دوسری قوم کی زبان نہیں ہے۔ یہ ہندوستانی زبان ہے اور ہندوستان میں ہی پیدا ہوئی۔ انہوں نے ویدک، سنسکرت، پراکرت سے لے کر جدید ہندی تک زبانوں کے سفر ان کے مقام اور باہمی لسانی رشتوں کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہاکہ اردو زبان آدمیت کے رشتوں کو سلجھاتے اور اس سے ٹکراتے ہوئی پیدا ہوئی۔ ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی سے لے کر آج تک کے مشترکہ سفر کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا "انقلاب زندہ باد" یا" سرفروشی کی تمنا اب ہمارے دل میں ہے" جیسے جذبات اسی زبان میں پروان چڑھے۔ ہندوستان کی آنکھوں نے جو خواب بنے وہ انہیں دونوں زبانوں کے میل ملاب سے ہی ممکن ہوسکے۔ وسیم بریولی نے میڈیا پر طنز کرتے ہوئے کہاکہ سیاست، کھیل کے میدان اور فلمی دنیا کے علاوہ ادب بھی آپ کے وجود کا حصہ ہے۔ اگر اس چوتھے ستون کو آپ خود سے نہیں جوڑسکے تو ہندوستان کو سمجھ پانا مشکل ہوجائے گا۔ ادب میں دلتوں کی آواز کے حوالے سے اصغر وجاہت نے کہاکہ ادب میں خاص طور سے سبھی لوگوں کی آوازیں آنی چاہئیں۔ انہوں نے کہاکہ یہ صحیح ہے کہ ایسی خود نوشت آئی ہیں جو دوسروں یعنی غیر دلتوں کے ذریعہ نہیں لکھی جاسکتی تھیں لیکن ادب کو خود نوشت تک ہی محدود نہیں کیا جاسکتا۔ نظم ، کہانی، افسانہ وغیرہ جیسی اصناف کو بھی دیکھنا ہوگا۔ صرف خود نوشت کی بنیاد پر کوئی نتیجہ نہیں اخذ کیا جاسکتا ہے۔ "اردو ہے جس کا نام اور زبان کا مستقبل" کے حوالے سے منعقدہ سیشن میں فہمیدہ ریاض، عبدالصمد، فرحت شہزاد اور سوبودھ لال نے خطاب کیا۔ فہمیدہ ریاض نے کہاکہ ہندی والے ہی، میرو غالب" کے کسٹوڈین(رکھوالے) ہیں، چاہیں تو اس کو سنبھال کر رکھیں یا برباد کردیں۔ عبدالصمد نے کہاکہ آج جو کچھ اردو اور ہندی میں لکھا جارہا ہے اس میں فرق نہیں ہے۔ گاندھی جی نے اسے ہی ہندوستانی کہا تھا۔ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہے لیکن بلوچی یا پشتو کے مقابلے ہندی زیادہ قریب ہے۔ یہ بھی بات سامنے آئی کہ اردو کو کوئی سرکاری امداد نہیں چاہئے۔ زبان کا مسئلہ لوگوں کے جذبات سے جڑا ہوا ہے اگر لوگ چاہیں گے تو زبان زندہ رہے گی۔ فرحت شہزاد نے کہاکہ یہ واحد زبان ہے جس کا تعلق محبت سے ہے۔ یہ اپنے میں ہر رنگ سمو لیتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ جو لوگ اس زبان کو پڑھ سکتے ہیں وہ بھی اس کو سننا چاہتے ہیں۔ اردو۔ہندی الگ کرنے کی کوشش میں اٹھنا، بیٹھنا، کھانا، پینا، سونا سب مشکل ہوجائے گا، کیونکہ اردو اور ہندی الگ الگ زبان نہیں ہے۔

Two days "Patna Literature Festival"

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں