پاکستان کا مطلب کیا ؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-30

پاکستان کا مطلب کیا ؟

قارئینِ گرامی، اردو میں "یومِ تاسیسِ پاکستان"کہیے یا انگریزی میں "پاکستان ری پبلک ڈے"کہیے ، حقیقت یہی ہے کہ 23مارچ کا دن "تجدیدِ عہدِوفا" کا دن ہے، تمام پاکستانی ہر سال اس دن کو خوشی سے مناکر پاکستان کی سا لمیت، تحفّظ اور خوشحالی کے عہد کی تجدید کرتے ہیں۔
اس دن ہمارا فرض ہے کہ اپنی مصروف زندگی میں تھوڑا ٹہر کر تاسیسِ پاکستان کے پس منظر اور حقائق کا بغور مطالعہ کریں، سبق حاصل کریں، اور پاکستان کی خدمت کیلئے مستعد ہونے کا ارادہ مضبوط کریں۔

اسلامی جمہوریہ پاکستان کا قیام 14 اگست 1947ء کو عمل پذیر ہوا، لیکن حصولِ پاکستان دو صدیوں کی مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کا ثمر ہے،

جنگِ آزادی 1857ء کے بعد انگریزوں نے اسلامی تہذیب وتمدن اور مسلمانوں کے خلاف بڑھ چڑھ کر ریشہ دوانیاں شروع کردیں، انگریز اپنے راج کو مستقل بنانے میں مسلمانوں کو رکاوٹ گردانتے تھے، لہذا معاشیات، تعلیم، زبان اور ثقافت، ہر میدان میں مسلمانوں کی نسلوں کو تباہ کرنے کی منظم کوششیں کی گئیں، اس تحریک میں ھندؤں کو مسلمانوں پر عمومی ترجیح دیکر انگریزوں نے اپنے مقصد کی تکمیل کی بھرپور کوشش کی۔
1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کی تشکیل کے بعد انگریزوں نے کانگریس کے ہندو لیڈران کے ہاتھ مضبوط کرکے انہیں باقاعدہ شے دی، اور مسلم لیگ کو فعال بننے سے روکنے کی ہر ترکیب عمل میں لائی گئی۔

1919ء میں جلیانوالہ باغ، امرتسر میں جس بیباکی سے انگریز افواج نے نہتیّ مسلمانوں کا بے دریغ قتلِ عام کیا، اس کا مسلمانوں کے ذہن پر گہرا اور دُور رس اثر پڑا، یہ قتل وغارتگری مسلم لیگ کی مقبولیت کا سبب بنا۔

مسلم لیگ کے لیڈران اور کارکنان کی انتھک محنت کے باعث 1920ء تا 1930ء چند ہی برسوں میں ڈھاکہ سے پشاور اور دہلی سے کالی کٹ تک مسلمانانِ ہندمیں اسلامی تشخص اور اُمّتِ محمّدیہ ہونے کا شعور جڑیں پکڑتا گیا۔

1930ء میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں حکیم الامّت شاعرِ مشرق علّامہ اقبالؔ نے مسلمانانِ ہندکیلئے علیحدہ اسلامی ملک کا تصوّر پیش کیا جو "وقت کی آواز" ثابت ہوا، آناً فاناً ہندوستان کے کونے کونے میں مسلمان خوابِ خرگوش سے جاگ اٹھے، ان پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ انگریز اور ہندو مل کر مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہیں اور اس کا تدارک ضروری ہے!!
ؔاے طائر لا ہوتی ہے اُس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی!!

1935ء میں انگریز حکومت کا نافذ کردہ "گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ"، قراردادِ پاکستان کا ایک اور ٹھوس پس منظر ہے، اس قانون کی شقیں عام مسلمانوں سے پوشیدہ رکھ کر انگریز حکومت نے اس نئے قانونِ حکمرانی کے تحت 1937ء میں صوبائی الیکشن کروائے اور بالواسطہ ہندوستان کے چھ بڑے صوبوں میں گانگریس کو سیاسی برتری دلوائی گئی، "سادہ اکثریت" کا سہارا لیکر کانگریس نے ہندو نواز انگریز حکومت کی آڑ لے کر مسلمانوں کا ہر میدان میں کھلم کُھلّا استحصال شروع کردیا، مسلم لیگ نے "اصول ِ مـخلوط حکوُمت " کے تحت مل جُل کر حکومت بانٹنے کی سنجیدہ کوشش کی مگر اس حق کو کانگریس اور انگریز حکمرانوں نے جبراً ٹھکرادیا، حکومتی اداروں میں مسلمانوں کی ملازمتیں ختم کردی گئیں، تعمیری پروجیکٹس کا انعقاد اُن جغرافیائی علاقوں میں کیا جانے لگا جہاں ہندو اکثریت تھی۔

1937ء میں بدنامِ زمانہ "وردہ تعلیمی اِسکیم" رائج کی گئی اور بنیادی تعلیم کا ڈھکوسلہ دے کر ہندوستان بھر کے پرائمری اسکولوں میں اسلامی تعلیمات کے خلاف واضح تحریک شروع کی گئی ("Secularism" کے پردوں میں چُھپی یہ سازش آج تک بھارتی مسلمانوں کو کمزور سے کمزور تر کررہی ہے)۔ غرض 1937ء میں یہ حقیقت واضح ہوتی چلی گئی کہ انگریز اورہندو مل کر مسلمانوں کو پس ماندہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔

جناب آئن سٹیفن، انگریزی اخبار "Statesman" کے1930ء تا 1945ء ایڈیٹر ہوا کرتے تھے، غیر جانب دار صحافی کی حیثیت سے انہوں نے اپنے اخبار میں معتدد بار انکشافِ عام کیاکہ کانگریس کے جھنڈے تلے ہندو اکثریت مسلمان اقلیت کو زندگی کے ہر میدان میں "کھاجانے"کے درپے ہے۔

یہی وہ منفی حالات وناگُزیر واقعات تھے جن کے ارتقاء کے باعث "تصوّرِپاکستان" نے ہر مسلمان کے دل میں جگہ بنالی، 1940ء میں تاسیسِ پاکستان کی قرارداد ہر دل عزیز ہوئی، ہندوستان کے کونے کونے میں مسلمان علیحدہ مملکت ِخداداد پاکستان کے قائل ہوئے اور اس مقصد کو پانے کیلئے کفن سروں پر باندھ لیا۔

نگاہِ مردِ مؤمن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں
جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں

قراردادِ پاکستان کی رونمائی 23 مارچ 1940 ء کو منٹوپارک، لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قائدِ اعظم کے مبارک ہاتھوں انجام پائی، قائدِ اعظم نے اپنے تاریخی خطاب میں حصولِ پاکستان کے پس منظر اور مستقبل پر ہر زاویئے سے روشنی ڈالی اور ثابت کیا کہ قیامِ پاکستان ناگزیر ہے!!

شیرِ بنگال مولوی فضلُ الحق نے قرارداد پیش کی جسکی تائید سب سے پہلے چوھدری خلیق الزمان نے اور بعد میں مسلم لیگ کے تمام سینئر لیڈران نے دَرجہ بدَرجہ کی۔

تاریخ ساز قراردادِ پاکستان کے تحت ایک علیحدہ مسلم ریاست کی "باضابطہ مانگ" کی گئی، چنانچہ ہندوستان کی سیاست نے نئی کروٹ لی، دس کڑوڑ سے زائد مسلمانوں نے انگریز سامراج اورہندو نواز کانگریس کو برسرِ عام چیلنج کردیا، قرارداد کی منظوری کے بعد "متحدّہ ہندوستان" کے خواب ملیامیٹ ہوگئے اورہندو وَحدت پر ضربِ کاری لگی۔

جلد ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تحریک نے شدّت اختیار کرلی، ہندوستان بھر میں شہر شہر علمائ، استاد، نوجوان، خواتین، امرأ و غرباء ۔ "قائد اعظم کی رہبری " میں مسلم لیگ کے پرچم تلے متحدہ ہوگئے۔

ہم تو مٹ جائینگے اے ارضِ وطن لیکن تمکو
زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک!

تحریکِ پاکستان کی بڑھتی مقبولیت سے انگریز اورہندو خائف ہوگئے، مجبوراً انگریزحکومت کو 1945ء میں ہندوستان بھر میں عام ریفرنڈم کی اجازت دینی پڑی، اس سنہرے موقعے کا ہر مسلمان کو انتظار تھا، 1945ء کے عام ریفرنڈم نتیجہ خیز ثابت ہوئے، مسلم لیگ کے پاکستان کے مطالبے کو مرکز میں 100 فیصد اور صوبوں میں 80 فیصد ووٹ ملے، حق کا بول بالا ہوا۔

صدافسوس، اگر انگریز حکومت اور کانگریس دیوار پر لکھیّ تحریر پر 1945ء میں ہی عمل کرلیتی تو پاکستان کا قیام دو سال پہلے ہوجاتا اور ہندوستان بھر میں مسلمانوں کا شب خون بپانہ ہوتا!! یہ تلخ حقیقت فراموش نہیں کی جاسکتی کہ قیامِ پاکستان کو عملی صورت دینے میں 1945ء تا 1947ء ہجرت کے دوران 50 لاکھ مسلمانوں نے اپنی جانیں قربان کیں، ڈھائی لاکھ مسلم خواتین ہندوستان میں روپوش کردی گئیں جنکا کوئی پتہ نہ چلا!! اس عظیم قربانی کو آج ہم بھُلا بیٹھے ہیں!!

ہم یومِ پاکستان ہر سال نہایت آن بان سے مناتے ہیں اور اس عہد کی تجدید کرتے ہیںکہ ہم نظریۂ پاکستان کے تحفّظ اور ملک و قوم کی خوشحالی کے لئے کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کرینگے، مگر ان ایام کے گذرتے ہی ہم سب کچھ بُھول کر اپنی ذاتی اغراض کی ایسی بُھول بھلیّاں میں جابستے ہیں جہاں ماحول کیساتھ ہمارا ذہن ہی نہیں، آزادی کا نصب العین بھی بدل جاتا ہے۔

ہم آزادی کا خول اوڑھے کتنی ہی دھوُم دھام سے ہر سال یومِ آزادی اور یومِ پاکستان منائیں، آزادی نہ مانے گی!،، آزادی اپنی توہین کرنے والوں کو معاف نہیں کیا کرتی، کاش! قوم ساز مُحسنوںکی طرح ہم بھی آزادی اور قیامِ پاکستان کا مقصد اور مفہوم سمجھ جاتے۔

ہم نے آزادی اس لئے نہیں حاصل کی تھی کہ انگریزوں کی غُلامی اور سامراجی تسلطّ سے نکل کر اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کے غلام بن جائیں اور جھوٹ کو اپنی عادت، بدچلنی کو اپنا پیشہ، جہالت کو اپنا وطیرہ، رشوت کو اپنا حق، اور ریاکاری کو اپنی شناخت بنالیں؟!!

ہم نے آزادی اسلئے حاصل کی تھی کہ مملکتِ خداداد پاکستان کو ایک اسلامی اور فلاحی ریاست بناکر اہلِ دنیا کے سامنے ایک ایسی" مثالی مملکت" کا نمونہ پیش کریں گے جس میں عدل و انصاف، اخوت و مساوات، امانت و دیانت، خدا ترسی اور انسانی ہمدردی کا دور دورہ ہو۔

افسوس، آزادی کے حصول کے برسوں بعد بھی ہم نے ایسا کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا جو دنیا کی آزاد اقوام کی نظر میں قابلِ تحسین ہو، بلکہ ہم نے نِصف پاکستان کھوکر آزادی کو رسوا کیا ہے، آج علّامہ اقبال اور قائداعظم حیات ہوتے تو یقیناً صدمے سے دوچار ہوتے!
پاکستان کا مطلب کیا،
لا الہ الا اللہ
وقت آگیا ہے کہ یقین، اتحاّد، اور تنظیم پر سچّے دل سے عمل کرکے ساری پاکستانی قوم حصول پاکستان کے مقاصد کی تکمیل کرے، ہمیں ہر حال میں اپنے محسنوں اور شہیدوں کی لاج رکھنا پڑے گی۔

وطن کی مٹی مجھے ایڑیاں رگڑنے دے
مجھے یقین ھے چشمہ یہیں سے نکلے گا!!

روحیل خان
چیئرمین، اردو اکیڈمی اِنٹرنیشنل، واشنگٹن، ڈی ،سی، امریکہ۔
ای۔میل: rohailkhan00[@]gmail.com ، فیس بُک: Rohail00

روحیل خان

Pakistan Republic Day - Article: Rohail Khan

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں