اردو کو کھویا ہوا وقار دلانے کی ضرورت - جسٹس کاٹجو - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-30

اردو کو کھویا ہوا وقار دلانے کی ضرورت - جسٹس کاٹجو

اردو اکیڈیمی دہلی کے زیر اہتمام قمر رئیس سلور جوبلی آڈیٹوریم میں "صحافت کا عصری منظر نامہ " کے عنوان سے سہ روزہ قومی سمینار کا افتتاحی اجلاس شروع ہوا۔ خیرمقدمی کلمات ادا کرتے ہوئے اکیڈیمی کے وائس چیرمئین پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ ہم نے تین سال قبل اردو صحافت پر سمینار کا ایک خواب دیکھا تھا جو آج شرمندہ تعبیر ہورہا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اردو صحافت نے ہردور میں اپنے ملک کی تہذیب، کلچر، ثقافت کی نہ صرف حفاظت کی ہے بلکہ اسے روز افزوں ترقی دینے میں بھرپور مدد کی ہے۔ پروفیسر اختر الواسع نے کہاکہ ہمیں فخر ہے کہ ہم ایک ایسی وراثت کے امین ہیں جسے ہندوستان کی کسی بھی زبان کے ہم پلہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ میری مراد اردو صحافت سے ہے جس کے سب سے پہلے صحافی مولوی محمد باقر نے دہلی شہر میں اپنے خون کی سرخیکے ذریعہ اردو صحافت کو ایسی سرخروائی عطا کی جس سے اردو صحافت آج بھی لالہ زار ہے۔ پروفیسر اختر الواسع نے بتایاکہ آزادی کے بعد اردو پر وقت پڑا تو اردو صحافیوں نے آگے بڑھ کر صحافتی ذمہ داری ادا کی۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں اس بات پر بھی فخر ہے کہ اردو صحافت اوائل عمر سے ہی گنگا جمنی تہذیب کی نمائندگی کرتی رہی ہے اور آج وہ لوگ اردو کے لئے کام کررہے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے، اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اردو صحافت اب گھاٹے کا سودا نہیں رہا، اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو پتھر کے دور سے نکل کر جدید ٹکنالوجی کے سہارے انٹرنیٹ تک آپہنچی ہے۔ انہوں نے کہاکہ ایک جمہوری معاشرہ میں جہاں مقننہ اور عدلیہ اہم ستون ہیں، وہیں صحافت بھی چوتھا ستون ہے۔ پریس کونسل آف انڈیا کے چیرمین جسٹس مارکنڈے کاٹجو نے اپنے افتتاحی خطبہ میں کہاکہ اردو زبان سے ہماری محبت دائمی ہے۔ ہندوستان میں پہلے عید ملن میں ہندو اور ہولی ملن میں مسلمانوں کی شرکت عام بات تھی اور یہ ہماری تہذیب کا حصہ تھا۔ شاہان وقت کے زمانے میں بھی سیکولرازم کی خنک ہوا بہا کرتی تھی۔ ٹیپو سلطان 156 ہندو مندروں کو سالاہن گرانٹ دیا کرتے تھے۔ یہ نہایت افسوسناک حقیقت ہے کہ 1857ء کے بعد انگریزی پالیسی کے تحت ہندو مسلم فسادات رونما ہونے گلے جو ان کے پروگرام کا حصہ تھے۔ ہندو زبان ہندو کی اور اردو زبان مسلمانوں کی اسی پالیسی اور پروگرام کا حصہ تھی، لیکن اب جب ہم یہ سب سمجھ چکے ہیں تو اردو صحافت پر یہ ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ اس غلط فہمی کا دورہ کریں اور دیگر ہم وطنوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر ملک کی اس سب سے پیاری زبان کی ستم ظریفی کو ختم کریں اور اسے اس کا وہ کھویا ہوا وقار عطا کریں جس کی وہ مستحق ہے۔ جسٹس کاٹجو نے اردو اخبارات کے مدیران سے گذارش کی کہ وہ اپنے کل صفحات میں کچھ صفحات اردو سکھانے کیلئے بھی وقف کریں۔ سمینار کمیٹی کے کنویر پروفیسر عبدالحق نے کہاکہ یہ اکیڈیمی کیلئے نہیں بلکہ اردو کیلئے پہلا موقع ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں صحافی ملک گیر پیمانے پر یہاں موجود ہیں۔ انہوں نے یہ اطلاع فراہم کی کہ دہلی یونیورسٹی میں صحافت کی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے 1975 میں ہی صحافت کا جزو نصاب بنالیا تھالہذا صحافت کے اس سمینار کا دہلی میں خیرمقدم کرتے ہوئے مجھے بے انتہا خوشی ہورہی ہے۔ صدارتی خطبہ میں محمد وسیم الحق نے کہاکہ آج جس سمینار کا اغاز ہورہا ہے اس کا اصل رنگ تو کل اور پرسوں پڑے گا جب مقالات کے ذریعہ اردو صحافت کی پرتیں کھولی جائیں گی۔ انہوں نے کہاکہ اردو صحافت میں ہمیشہ محبت کی فراوانی رہی ہے جس طرح اردو شاعری میں رقیب سے پیار کی روایت قائم رہی ہے، اسی طرح اردو صحافت بھی ہمیشہ مثبت افکار کے ساتھ آگے بڑھی ہے۔ اردو اخبارات نے ہمیشہ بدلے سے پرہیز کیا ہے۔ اردو کے صحافی نفرت کی آگ کو اپنی شبنمی تحریروں سے ٹھنڈا کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ ہم اس سمینار میں خبروں کا حق ادا کرنے سے اور صحافت کی باریکیوں کو سمجھ کر اس کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لے کر ہم ان تمام مسائل کا حل ڈھونڈ سکتے ہیں جو صحافت کی ذمہ داری ہے۔ معصوم مراد آبادی نے نظامت کرتے ہوئے پورے پروگرام کو بحسن و خوبی انجام تک پہنچایا۔ اس موقع پر سکریٹری اردو اکیڈیمی انیس اعظمی، منورما دیوان، نسیم عارفی، راغب الدین موجود تھے۔ پروگرام کے دوران معصوم مرادآبادی کی تصنیف "اردو صحافت کا ارتقائ" کا اجراء بھی عمل میں آیا۔

--

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں