ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:9 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-30

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:9


خنجر شانتا کے بالکل قریب ایک سانپ کی طرح لہرانے لگا۔ ونود پر جیسے ایک سکتہ طاری ہوگیا تھا وہ چیخنا چاہتا تھا لیکن چیخ نہیں سکتا تھا۔ اس کو بس ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کے جسم کا سارا خون منجمد ہوگیا ہو۔ شانتا اس کے آنے سے بالکل بے خبر خیالوں کی دنیا میں کھوئی ہوئی بیٹھی تھی۔ صندوق کے قدیم لباس اور قدیم زیورات میں وہ صرف پہلی رات کی دلہن ہی نہیں معلوم ہورہی تھی بلکہ اس کے چہرے پر ایک ملکوتی حسن کا نور بھی پھیل گیا تھا۔ ونود ایک بت کی طرح شانتا کی طرف دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا کہ اس وقت شانتا جو اس کی بیوی ہے شاتو کیوں نظر آرہی ہے۔ شانتا اور شاتو۔ ناموں میں بھی تو کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ اور پھر جیسے اس کے ذہن میں ایک بالکل نیا خیال بجلی کے کوندے کی طرح لپکا۔ اس نے سوچا "یہ بھی تو ممکن ہے کہ دلہن بنی ہوئی یہ عورت شانتا نہ ہو، شاتو ہی ہو۔ شاتو۔ جس کا بت کنویں سے نکلا تھا۔ اور جس کو اس نے اپنی حویلی کے سامنے فوارے کے وسط میں نصب کرادیا تھا۔ ونود نے سوچا یقینا شاتو کا بت دوبارہ زندہ ہوگیا ہے، یقین صندوق سے برآمد ہونے والے کپڑے اور زیورات شاتو کے تھے۔ وہی دلہن بنی ہے۔ وہی اس وقت شانتا کے پلنگ پر بیٹھی ہے"۔ خنجر شاتو کے چاروں طرف اب بھی لہرا رہا تھا۔ لیکن سوال یہ تھا کہ یہ شاتو تھی یا شانتا۔۔۔ ایک سوال یہ بھی تھا کہ یہ خنجر فضاء میں شاتوکے چاروں طرف لہرا کیوں رہا تھا خنجر کا رقص کیوں جاری تھا۔ یہ خنجر شانتا یا شاتو کے بالکل قریب ہوتے ہوئے بھی اس پر وار کیوں نہیں کررہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر ونود نے پوری قوت کے ساتھ چیخنا چاہا لیکن اس کی چیخ اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی حالات نے اس کو ایک مردہ لاش بنادیا تھا۔ اچانک شاتو یا شانتا نے اپنی نگاہیں اوپر اٹھائیں۔ اف۔۔۔ ان نگاہوں میں کتنی پیاس تھی، ان نگاہوں میں تنمناؤں کی کنتی محرومی ھی، ان نگاہوں میں کتنی گہرائی تھی۔ ان نگاہوں میں کتنی سپردگی تھی۔۔ ونود ان نگاہوں کی طرف دیکھتا کا دیکھتا رہ گیا۔۔۔ یقینا یہ شانتا کی نگاہیں نہیں تھیں۔ ونود کی طرف اس وقت شانتا نہیں شاتو دیکھ رہی تھی۔ ان نگاہوں نے ایک بار ونود کی طرف دیکھا اور دوسری بار فضاء میں لہراتے ہوئے خنجر کی جانب۔۔۔ اور پھر جیسے یہ نگاہیں مسکرانے لگیں۔۔۔ نگاہوں کے ساتھ شاتو کے لب مسکرانے لگے۔۔۔ لبوں کے ساتھ شاتو کا سارا چہرہ مسکرانے لگا۔ شاتو اپنی جگہ سے اٹھی اس نے ہاتھ اونچا کرکے خنجر کو پکڑلیا اور بڑے ہی آہنی عزم کے ساتھ کہا "کنور جی۔۔۔ اب تم شاتو کو نہیں مارسکتے۔۔۔ کیونکہ آتما نہ قتل کرسکتی ہے اور قتل ہوسکتی ہے"۔ شاتو نے خنجر ہاتھ میں لے کر اس کو غور سے دیکھا اور ایک مرتبہ پھر مسکرائی لیکن اس مرتبہ اس کی مسکراہٹ میں زہر بھراہوا تھا۔ ونود سمجھتا تھا کہ شاتو یہ خنجر پھینک دے گی لیکن وہ خنجر کے دستے پر اپنی گرفت مضبوط کرچکی تھی وہ اب اسی زہریلی مسکراہٹ کے ساتھ اس خنجر کو دیکھ رہی تھی جیسے وہ خبر کو نہ دیکھ رہو اس میں خون کو دیکھ رہی ہو جو کبھی اس کے پھل پر لگا ہوگا۔ جیسے وہ خنجر کو نہ دیکھ رہی ہو اس ہاتھ کو دیکھ رہی جس نے اسی خنجر سے اس کے باپ کا قتل کیا تھا۔ چند لمحات اسی طرح گذر گئے۔ آخر۔۔۔شاتو نے دوبارہ ونود کی طرف دیکھا اور بڑی آہستہ آواز میںکہا "میں دلہن بن گئی ہوں، مجھے دلہن بننے کی بڑی تمنا تھی آج میری یہ تمنا پوری ہوگئی راج کمار۔۔۔" "لیکن میں راج کمار نہیں ہوں۔۔۔، اب ونود نے ہمت کرکے کہا۔ "تم کوئی بھی ہو۔۔۔ لیکن میر ے لئے میرے راج کمار ہی ہو۔ وہ راج کمار جس سے میں نے دنیا میں سب سے زیادہ محبت کی تھی اور جس کی خاطر میرے پتا کا قتل ہوا تھا"۔ شاتو اتنا کہہ کر خاموش ہوگئی اور دوبارہ خنجر کی طرف دیکھنے لگی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آنسو صاف کئے بغیر اس نے ونود سے مزید کہا "میں نے ابھی تمہیں اپنی ادھوری کہانی سنائی ہے۔۔۔ آج میریی سب سے بڑی تمنا پوری ہوگئی ہے اس لئے میں تمہیں اپنی پوری کہانی سنادوں گی کیونکہ میری بُت کی زندگی کا ایک مقصد یہ بھی ہے"۔ "لیکن ۔۔۔ میری شانتاکہاں ہے"۔ ونود اچانک چیخا۔"میں کسی شانتا کو نہیں جانتی راج کمار۔۔۔ اور نہ تمہیں کسی شانتا کو جاننا چاہئے"۔ شاتو نے بڑے محبت بھرے لہجے میں جواب دیا،۔ ہم دونوں صرف ایک دوسرے کیلئے زندہ تھے، اور آج بھی زندہ ہیں جب کہ ہم دونوں کی زندگی کو صدیاں گذر چکی ہیں"۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد شاتو نے مزید کہا "میں نے تمہارا بڑا انتظار کیا راج کمار۔۔۔" اتنا کہہ کر شاتو نے کچھ ان نظروں سے ونود کو طرف دیکھا کہ ونود پگھل کر رہ گیا۔ شاتو نے اپنی بات جاری رکھی اس نے کہا "میں تم سے بتاچکی ہوں کہ میں راج کمار دشونت سنگھ کی بیٹی ہوں۔ میرے باپ کا میرے چچا راجہ بلونت سنگھ نے قتل کردیا تھا۔ لیکن میں نے تمہیں یہ نہیں بتایاکہ تھا کہ بڑے بھائی نے چھوٹے بھائی کا قتل کیوں کیا؟ میں دراصل تم سے محبت کرتی تھی راج کمار۔۔۔ اور راجہ بلونت سنگھ نہیں چاہتے تھے کہ میں تم سے محبت کروں یا تم مجھ سے محبت کرو کیونکہ ان کی اولاد تھے، تم ان کی اولاد ہی نہیں اکلوتی اولاد ہونے کے ناطے ان کی ریاست کے وارث تھے اور وہ تمہاری شادی ریاست چاند پوری کی راج کماری سے کرکے اپنی ریاست کی حدوں کو بڑھانا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے بھائی کو منع کیا کہ وہ مجھے تم سے نہ ملنے دیں لیکن میرا باپ میری محبت کے تقدس کو جانتا تھا اس لئے وہ میری راہ میں حائل نہیں ہوا۔ جب میرے چچا نے یہ دیکھا کہ معاملات دن بدن ان کے خلاف ہی ہوتے جارہے ہیں تو انہوں نے ایک اور فیصلہ کیا۔۔۔ ایک بڑا بھیانک فیصلہ۔ انہوں نے یہ طئے کرلیا کہ وہ مجھے بھی مارڈالیں گے اور میرے باپ کو بھی۔ لیکن میرے باپ کو کسی طرح ان کے اس فیصلے کی خبر مل گئی۔ انہوں نے مجھے محل سے بھگادیا اور خود اسی تہہ خانے میں چھپ گئے جہاں تمہیں ان کی لاش ملی تھی۔ چند دن بعد راجہ بلونت سنگھ کو تہہ خانے کا پتہ چل گیا اور انہوں نے انہیں اسی جگہ قتل کردیا"۔ "لیکن ابھی میری کہانی ختم نہیں ہوئی ہے راج کمار۔۔۔" شاتو نے ایک لمبی سانس لینے کے بعد کہا "ابھی میری کہانی کا وہ حصہ باقی ہے جس نے مجھے بت میں تبدیل کیا۔ ابھی میری کہانی کا وہ حصہ باقی ہے جس کا تعلق تمہاری ذات سے ہے"۔ اب ونود اپنے اعصاب کی کشیدگی پر قابو پاچکا تھا۔ اب اس کا وہ خوف بھی دور ہوچکا تھا جو اس پر شاتو کو دلہن بنے دیکھ کر طاری ہوا تھا۔ وہ اب تک غور سے بت کی کہانی سن رہا تھا لیکن پھر اسے اچانک شانتا کی یاد آگئی۔ اس نے شاتو کی بات کاٹ دی۔ اور بڑی بے چینی سے پوچھا "تم مجھے سب سے پہلے شانتا کے بارے میں بتاؤ۔۔ مجھے بتاؤ کہ وہ کہاں ہے؟" "میں تم سے کہہ چکی ہوں کہ میں کسی شانتا کو نہیں جانتی"شاتو نے جواب دیا۔ "شانتا میری بیوی ہے۔ یہ کمرہ اسی کا ہے۔ اور یہ پلنگ بھی اسی کا ہے جس پر تم دلہن بنی بیٹھی ہو"۔ ونود نے لگ بھگ چیختے ہوئے کہا۔ شاتو نے ونود کے بدلے ہوئے لہجے کی کوئی پرواہ نہیں کی ۔ وہ کہتی رہی "اپنے باپ کے قتل کے بعد میں چند ماہ تک حویلی سے دور رہی۔ اسی اثناء میں میرے چچا راجہ بلونت سنگھ نے زبردستی تمہاری شادی اپنی مرضی سے کردی۔ تم نے بہت انکار کیا لیکن آخر کار تمہیں اپنے پتا کی بات ماننا ہی پڑی۔ تم نے شادی تو کرلی لیکن تم میرے یاد کو اپنے دماغ سے کھرچ نہ سکے۔ تم نے میرا ایک بت بناناشروع کردیا اور پھر ۔۔۔" شاتو یہں تک اپنی داستان سنانے پائی تھی کہ وہ اچانک چیخنے لگی۔۔۔۔ ماڈالو۔۔۔۔مارڈالو۔۔۔۔ ایک دن قبل بھی وہ اسی طرح چیخی تھی اور اسی طرح اس کی داستان ادھوری رہ گئی تھی کیونکہ آج بھی کل کی طرح "مار ڈالو۔۔۔۔ مارڈالو" کہتے کہتے آج بھی اس کا جسم فضاء میں تحلیل ہونے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے اس کا وجود کمرے سے غائب ہوگیا۔ اب ونود کی نگاہوں کے سامنے پلنگ پر شاتو کے بجائے وہ لباس اور وہ زیور بکھرا پڑا تھا جو ابھی چند لمحات قبل تک شاتو پہنے بیٹھی تھی۔ ونود ڈرے بغیر آگے بڑھا۔ پلنگ کے نزدیک آیا اور غور سے کپڑوں اور زیوروں کی طرف دیکھنے لگا۔ یقینا یہ وہی کپڑے اور وہی زیور تھے جو اسے تہہ خانے میں بند صندوق کے اندر سے ملے تھے۔ ونود کی حیرت کی کوئی حد و انتہا نہ رہی۔ کیونکہ وہ آج تک روح کو صرف روح سمجھتا رہا تھا لیکن آج وہ عمر میں پہلی مرتبہ روح کو ایک ٹھوس حقیقت سمجھ رہا تھا۔ ایک مرتبہ پھر ونود خوف کی وجہہ سے لرز گیا۔ اس کی آنکھیں خوف کی وجہہ سے پھٹنے لگیں اور وہ دیوانوں کی طرح کمرے سے باہر نکل آیا۔ اب وہ حویلی میں شانتا کو تلاش کرنے لگا تھا۔ لیکن شانتا کا حویلی میں کوئی پتہ نہ تھا۔ شانتا کو نہ پاکر ونود کی وحشت کی کوئی حد و انتہا نہ رہی۔ اس نے نوکروں کو آوازیں دیں۔ تمام نوکر جمع ہوگئے سب نے مل کر شانتا کی تلاش کی لیکن شانتا حویلی میں تھی ہی کب۔ جو وہ تلاش کرنے والوں کو مل جاتی۔ اچانک ونود کے ذہن میں تہہ خانے کا نقشہ ابھرا کیوں کہ اب حویلی میں صرف تہہ خانہ ہی باقی رہ گیا تھا۔ جہاں ونود نے شانتا کو تلاش نہیں کیا تھا۔ نوکروں کو بتائے بغیر وہ تہہ خانے میں داخل ہوگیا۔ تہہ خانے میں حسب معمول گہری تاریکی تھی اور زبردست سناٹا، لیکن ونود چونکہ اس ماحول کا عادی ہوچکا تھا اس لئے اسے اب ڈراؤنے ماحول سے کوئی ڈر و خوف محسوس نہ ہوا وہ پاگلوں کی طرح سیڑھیوں سے اتر کر تہہ خانے میں داخل ہوا اور چیخنے لگا۔ شانتا۔۔۔شانتا۔۔۔ شانتا تم کہاں ہو؟ اس کی آواز تہہ خانے کی وسعتوں میں دیر تک گونجتی رہی اور پھر گونج کر فضا میں تحلیل ہوگئی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ شانتا اس تہہ خانے میں بھی نہیں تھی۔ ونود کی وحشت اور بڑھ گئی اور اس نے ہمت نہیں ہاری۔ وہ تہہ خانے کا گوشہ گوشہ دیکھنے کیلئے آگے بڑھا اور پھر جیسے ہی اس چبوترے کے قریب پہنچا جہاں ہڈیوں کا پنجرا پڑا ہوا تھا اس کے قدیم اپنی جگہ جم کر رہ گئے۔ کیونکہ ۔۔۔۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:9

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں