ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:7 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-16

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:7


ونود شاتو کو دیکھ رہا تھا اور مسلسل سوچ رہا تھا کہ کیا یہ وہی عورت ہو سکتی ہے جس کا بت اس کے فوارے میں نصب ہے ، ڈر اور خوف نے اس کے تمام احساسات ختم کر دئیے تھے ۔ ونود اب خود ایک زندہ بت میں تبدیل ہو چکا تھا۔ شاتو پوری طرح اس کے اعصاب پر سوار ہو چکی تھی۔ چند لمحوں تک شاتو اس کی طرف سحر خیز نظروں سے دیکھتی رہی اور پھر اس نے کہا "میں اس حویلی میں رہتی تھی لیکن اس زمانے میں یہ حویلی نہیں تھی ایک محل تھا۔ ایسا محل جس میں سینکڑوں ملازم تھے اور جہاں عیش و عشرت کا سارا سامان مہیا تھا۔ "ہم بالکل آزاد تھے ہماری ریاست مغلوں کی پروردہ ریاستوں میں سے نہیں تھی۔ ہمارے راجہ کے دہلی کے تخت سے باعزت تعلقات تھے ۔ ہماری ریاست کے عوام بڑے سکون اور اطمینان کی زندگی بسر کر رہے تھے لیکن اچانک اس محل میں ایک طوفان سا آ گیا۔ راجہ بلونت سنگھ نے اپنے چھوٹے بھائی کو محل سے نکال دیا اور ...... شاتو اتنا کہہ کر خاموش ہو گئی جیسے کچھ سوچنے لگی یا جیسے کچھ غم زدہ ہو گئی پھر اس نے کہا "تم نے تہ خانے میں جو لاش دیکھی ہے جانتے ہو وہ کس کی ہے ؟ وہ راجہ بلونت سنگھ کے بھائی راج کمار شونت سنگھ کی ہے ۔ اور جانتے ہو میں کون ہوں ؟ میں اسی راج کی بیٹی کی ہوں "۔ شاتو نے اس کے بعد کچھ نہیں کہا، وہ خاموش ہو گئی اور خاموش ہی رہی۔ کمرے کی پراسرار خاموشی نے اس کی اس خاموش کو اور بھی زیادہ بھیانک بنادیا اور پھر...اچانک شاتو چیخنے لگی"مارڈالو...مارڈالو....مارڈالو" وہ بالکل دیوانوں کی طرح چیخ رہی تھی، اس کا چہرہ بھی اب بھیانک ہو گیا تھا خوبصورت بال چہرے اور بازو پر بکھر گئے تھے آنکھیں لال ہو گئی تھیں منہ سے کف جاری ہو گیا تھا۔ وہ چیخے جا رہی تھی۔ "مارڈالو...مارڈالو...! ونود کو دیکھتے ہی دیکھتے شاتو کا وجود فضا میں تحلیل ہو گیا۔ اور صرف کی چیخیں باقی رہ گئیں ۔ کمرے میں اب بھی اس کی چیخیں گونج رہی تھیں ۔ ونود پر جیسے سکتہ طاری ہو گیا۔ لیکن یہ سکتہ نہیں تھا اب وہ بے ہوش ہو چکا ھا۔ ونود کی آنکھ کھلی تو شانتا اس کے چہرے پر پانی کے چھینٹے ڈال رہی تھی اور بے حد پریشان نظر آ رہی تھی۔ پاس ہی کالکا اور دوسرے نوکر بھی کھڑے تھے ۔ "آپ کیسے بے ہوش ہو گئے تھے ؟ آپ اس کمرے میں کیوں آئے تھے ؟ شانتا نے ونود کو ہوش میں دیکھ کر بڑے محبت بھرے لہجے میں پوچھا۔ "مجھے نہیں معلوم... بس اتنا یاد ہے کہ چکر سا آ گیا تھا"۔ ونود نے جھوٹ بولا۔ "آپ مجھ سے کوئی بات چھپا رہے ہیں "۔ شانتا نے کہا "نہیں شانتا... ونود نے بڑے کمزور لہجے میں جواب دیا" میں تم سے کوئی بات نہیں چھپا رہا ہوں "۔ "آپ مجھ سے جھوٹ بھی بول سکتے ہیں ، یہ میں خواب میں بھی نہیں سوچ سکتی تھی"۔ شانتا نے کہا "آپ مجھے یہ بتائے کہ اس کمرے میں یہ صندوق کہاں سے آیا؟ آپ کے پاس یہ خنجر کیوں پڑا تھا؟" ونود نے اب سپر ڈال دی، وہ شانتا کو سب کچھ بتانے پر مجبور ہو گیا۔ لیکن اُس وقت اُس نے صرف اتنا کہا "میں تمہیں سب کچھ بتادوں گا"۔ دراصل وہ نوکروں کے سامنے کوئی بات نہیں بتانا چاہتا تھا۔ ایک گھنٹے کے اندر اس کی طبعیت بحال ہو گئی۔ پھر اس نے تنہائی میں شانتا کو اب تک کی کل داستان بتادی۔ داستان اتنی ہولناک اور لرزہ خیز تھی کہ شانتا لرز کر رہ گئی۔ اس کے چہرے کا رنگ سفید پڑگیا۔ ونود نے اپنی داستان ختم کرنے کے بعد کہا "میں نے تمہیں پریشانیوں سے بچانے کیلئے ہر بات چھپائی تھی۔ میں تمہیں یہ نہیں بتانا چاہتا تھا کہ اس حویلی میں ہم زندہ انسانوں کے علاوہ ایک بھوت بھی رہتا ہے اور خود ہم نے اس بھوت کو اس حویلی میں رہنے کی دعوت دی ہے ۔ کیونکہ ہمارے آنے سے پہلے تک یہ بھوت کنویں میں قید تھا"۔ ونود نے مزید کہا "لیکن تم اطمینان رکھو یہ بھوت ہمیں کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا۔ شاتو کی روح بُری روح نہیں ہے "۔ "وہ یقیناً بُری ہے "۔ شانتا نے کچھ سوچ کرکہا "وہ بری نہ ہوتی تو چینخے کیوں لگتی؟ مجھے سمجھاؤ کہ وہ کس کو مارڈالنے کے ئلے چینخ رہی تھی"۔ "شائد اس پر کوئی دورہ پڑا تھا"۔ ونود نے کہا۔ "میں نہیں مانتی"شانتا نے کہا" اور پھر وہ اپنی داستان مکمل کئے بغیر چلی کیوں گئی؟ میں سچ کہتی ہوں ونود.... ہم کسی بڑی زبردست مصیبت میں گرفتار ہو گئے ہیں ، بہتر یہی ہے کہ ہم یہ حویلی خالی کر دیں "۔ "نہیں شانتا...." ونود نے کہا "میں بزدل نہیں ہوں میں حویلی سے نہیں جاؤں گا میں یہیں رہوں گا۔ میں بت کے اسرار کو حل کر کے رہوں گا"۔ "تمہارا یہ فیصلہ غلط ہے ونود..." شانتا نے ایک لمبی سانس لینے کے بعد کہا"اور اس لئے غلط ہے جس طرح تم مجھ سے بت کی زندگی کی بات چھپار رہے تھے اسی طرح میں نے بھی تم سے ایک بات چھپائی تھی۔ "تم نے مجھ سے کیا چھپایا؟" ونود نے بے چین ہو کر پوچھا۔ "ایک بڑی اہم بات ونود..." شانتا نے بڑی مردہ آواز میں کہا "تم یہ شائد سن کر چیخ پڑو گے کہ اس حویلی میں صرف شاتو کا ہی بھوت نہیں ہے ایک آدمی کا بھی بھوت ہے ۔ ایک ایسے آدمی کا بھوت جو مجھے اپنی بیوی سمجھتا ہے !" "بیوی...!!!، ونود تقریباً چیخا۔ "ہاں بیوی..." شانتا نے کہا "میں نے ابھی تک اسے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے ، لیکن میں نے اس کی آواز سنی ہے ۔ وہ رات میرے بالکل قریب موجود رہتا ہے اور مجھ سے باتیں کرتا رہتا ہے ۔ ابھی کل رات وہ مجھ سے کہہ رہا تھا "مجھے میری بیوی مل گئی شانتا... تم ونود کی بیوی نہیں ہو، تم میری بیوی ہو، میں تمہیں لینے آیا ہوں ۔ میں تمہیں اپنے ساتھ ہی لے کر جاؤں گا، اب دنیا کی کوئی طاقت مجھے تم سے جدا نہیں کر سکتی"۔ شانتاکے یہ جملے سن کر ونود کانپ گیا۔ شانتا کے انکشاف نے اس کی رگوں کا دوڑتا ہوا خون سرد کر دیا اس نے پوچھا "یہ بھوت تم سے اور کیا کہتا ہے ؟" ’اور کچھ نہیں کہتا .بس یہ کہتا رہتا ہے "مجھے میری بیوی مل گئی"۔ شانتا نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔ "تم نے اسے بالکل نہیں دیکھا؟" "نہیں ... میں نے صرف اس کی آواز سنی..."شانتا نے جواب دیا۔ "یہ آواز تمہیں عموماً کس وقت سنائی دیتی ہے ...؟"ونود نے پوچھا۔ "رات کو"۔ لیکن میں تمہارے قریب ہوتا ہوں میں نے یہ آواز کیوں نہیں سنی ونود نے سوال کیا۔ "ہو سکتا ہے وہ صرف مجھ کو ہی اپنا آواز سنانا چاہتا ہو" شانتا نے کہا "اور ونود... میں نے تم کو یہ بھی نہیں بتایا ہے کہ میں شاتو کو بھی دیکھ چکی ہوں "۔ "تم نے شاتو کو کب دیکھا؟" "میں اسے بھی روز دیکھتی ہوں کیوں کہ وہ تمہیں دیکھتی رہتی ہے ۔ جب بھی تم گہری نیند سوجاتے ہو، وہ تمہارے قریب آ کر کھڑی ہو جاتی ہے "۔ شانتا نے اس کے بعد اور کچھ نہیں کہا۔ وہ خاموش ہو گئی۔ ونود نے کہا "میں آج تمام رات جاگتا رہوں گا، شانتا میں اپنے دوست کو بھی یہاں بلالوں گا۔ میں اس اسرار کا حل کر کے رہوں گا"۔ ونود نے شانتا کو تسکین دینے کیلئے یہ جملہ کہہ تو دیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ شانتا کی داستان سننے کے بعد وہ خود دل ہی دل میں لرز کر رہ گیا تھا، اس کی قوت فیصلہ جواب دے چکی تھی۔ چند منٹ تک وہ خاموش کھڑا کچھ سوچتا رہا پھر اُس نے شانتا سے کہا "اب تم ایک لمحہ کیلئے بھی اپنے کمرے میں تنہا نہ رہنا، میں نہ ہوں تو تم کالکا کو اپنے ساتھ رکھنا۔ اور اس وقت شہر جا رہا ہوں ۔ میں صندوق والی کتاب پروفیسر کو دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ پڑھ کر مجھے بتائے کہ سنسکرت میں لکھی ہوئی اس کتاب میں کیا لکھا ہے ۔ تم اطمینان رکھنا میں شام سے پہلے ہی واپس آ جاؤں گا"۔ اتنا کہہ کر ونود نے صندوق کھول کر کتاب نکالی اور کمرے کے باہر نکل گیا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک مرتبہ پھراس کے حوصلے جوان ہو گئے تھے ۔


Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:7

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں