ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:6 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-09

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:6


اچانک اس نے تہہ خانے کے ایک گوشے میں ایک چھوٹا سا صندوق رکھے دیکھا۔ اور دوسرے ہی لمحہ وہ اس صندوق کے نزدیک پہنچ گیا۔ صندوق مضبوط لکڑی کا بنا ہوا تھا۔ اس کی ساخت بھی قدیم طرزکی تھی۔ صندوق پر نقش و نگار بنے تھے کنڈے میں ایک بڑا سا تالا پڑا تھا۔
یہ بالکل ناممکن تھا کہ صندوق دیکھ کر ونود کو حیرت نہ ہوتی۔ وہ دیر تک اس صندوق کو دیکھتا رہا۔ اب اس کا دماغ یہ سوچ رہا تھا کہ اس صندوق میں کیا ہو سکتا ہے ؟ یقیناً اس صندوق پر جمی ہوئی گرد یہ ثابت کر رہی تھی کہ یہ زمانے کی دست بردے محفوظ رہا ہے ۔ اس نے فیصلہ کر لیا کہ وہ صندوق اٹھا کر باہر لے جائے گا۔
یہ ونود پہلے ہی دیکھ چکا تھا کہ صندوق زیادہ وزنی نہیں ہے ۔
تہہ خانے میں اس صندوق کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ اس لئے ونود نے یہ صندوق اٹھالیا اور صندوق اٹھاتے ہی اس نے ایسا محسوس کیا جیسے اس نے ایک بہت بڑی مہم سر کر لی۔ لیکن... یہ ونود کی خوش فہمی تھی۔ اور اس خوش فہمی کی وجہہ یہ تھی کہ ونود کو آنے والے واقعات کا کوئی علم نہیں تھا۔

یہ بالکل اتفاق تھا کہ جس وقت ونود صندوق لے کر اپنی حویلی میں داخل ہوا اس وقت کسی نوکر نے اس کو نہیں دیکھا ورنہ اسی وقت حویلی کے ملازم ایک نئی کہانی کو جنم دے دیتے اور یہ مشہور ہو جاتا کہ ونود کو قدیم خزانہ ملا ہے ۔
ونود جب اپنے کمرے میں پہنچا تو وہ پسینہ میں نہایا ہوا تھا۔ اُس نے سب سے پہلے اپنی جیب سے خنجر نکال کر اس کو میز کی دراز میں رکھا اور پھر صندوق کا تالا توڑنے کی کوشش کرنے لگا۔ تالا زنگ آلود تھا اور کمزور ہو چکا تھا اس لئے ہتھوڑے کی ایک ہی ضرب سے کھل گیا۔ کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس نے صندوق کا ڈھکنا اٹھایا تو جیسے اس کی آنکھیں فرط حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔

اندر صندوق میں زیورات بھرے تھے ۔ ایک عروسی لباس تھا اور ایک کتاب رکھی تھی۔ عروسی لباس بلاکل خستہ ہو چکا تھا۔ زیورات مرجھاے مرجھائے سے نظر آ رہے تھے لیکن کتاب بالکل اچھی حالت میں تھی۔ ونود نے سب سے پہلے کتاب ہی اٹھائی۔ اور پھر جیسے ہی اس نے اس کا ورق الٹا اس کا ہاتھ جیسے کانپ گیا۔
کانپنے کی بات ہی تھی کیونکہ کتاب کے پہلے ہی صفحہ پر ایک قلمی تصویر بنی تھی اور یہ تصویراسی عورت کی تھی جس کا بت اس کی حویلی کے فوارے میں نصب تھا۔ دونوں کے خدوخال اور لباس میں کوئی فرق نہیں تھا۔ اس تصویر کے لبوں پر بھی وہی مسکراہٹ تھی جو فوراہ کے بت کے لبوں پر جم کر رہ گئی تھی۔
بت کی مسکراہٹ کی طرح اس تصویر نے بھی ونود پر چند لمحات کیلئے ایک سحر سا کر دیا۔ یقیناً اس نے اپنی زندگی میں آج تک اتنی خوبصورت عورت کی تصویر نہیں دیکھی تھی۔ تصویر کے خدوخال میں اتنی ہم آہنگی تھی کہ ونود تصویر کی گہرائیوں میں جیسے ڈوب کر رہ گیا۔ اور پھر اچانک بالکل ایک نئی کہانی شروع ہو گئی۔

اچانک ونود نے محسوس کیا کہ جیسے اس کے کمرے کا دروازہ آواز کئے بغیر آہستہ آہستہ خود بخود بن دہو گیا۔ ونود نے پلٹ کر دروازے کی طرف دیکھا تو وہاں کوئی نہیں تھا۔ اس نے کتاب کو اسی جگہ رکھ کر دوڑکر دوازہ کھولنا چاہا لیکن دروازے میں جنبش تک نہیں ہوئی۔ اور اس نے آوازیں دیں ۔
"دروازہ کھولو۔ یہ دروازہ کس نے بند کیا ہے ۔ میں کہتا ہوں دروازہ کھولو، ارے کوئی ہے ... کالکا، کالکا"
لیکن اس کی آواز کمرے میں گونج گونج کر رہ گئی۔ کیونکہ اس اس کمرے کی تمام کھڑکیاں اور روشن دان بھی خود بخود بند ہو گئے تھے ۔ یہ کمرہ اب اس کیلئے قید خانے کی کوٹھری بن گیا تھا۔
صورتحال اتنی بھیانک ہو گئی تھی کہ ونود کی پیشانی پر ٹھنڈے پسینے کی بوندیں چمکنے لگیں ۔ اب اس کی آواز نے بھی اس کا ساتھ چھوڑدیا تھا۔ آواز اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئی تھی۔
ونود اب خود ایک زندہ بت میں تبدیل ہو چکا تھا۔
چند منٹ تک اس کی یہی کیفیت رہی لیکن پھر وہ چونک سا گیا کیونکہ اب کمرے میں ایک خوشبو سی پھیلی ہوئی تھی۔

ہر خوشبو کا ایک نام ہوتا ہے لیکن اس کمرے میں جس قسم کی خوشبو پھیلی ہوئی تھی اس کا کوئی نام نہیں تھا۔ یقیناً یہ خوشبو کسی عورت کے جسم کی تھی کیونکہ دنیا کی کوئی خوشبو اتنی لطیف اور اتنی حیات افزاء نہیں ہوتی جتنی عورت کے جسم سے نکلنے والی مہک ہوتی ہے ۔ یہ وہ عطر ہوتا ہے جو قدرت عورت کے جسم میں سمو دیتی ہے ۔ یہ خوشبو وہ خوشبو نہیں ہوتی تو پھولوں کے رس سے آتی ہے یا مٹی کے سوندھے پن سے یہ مہک مشک وغیرہ سے بھی نہیں آتی۔ یہ خوشبو صرف مسرت ہوتی ہے ۔ یہ مہک ہر خوشبو سے الگ ہوتی ہے ۔

کمرے میں یہ مہک بھی پھیلی اور ونود نے ایسا محسوس کیا جیسے اب اس کمرے میں اس کے علاوہ کوئی اور بھی موجود ہے ۔ ونود نے ٹھیک ہی محسوس کیا تھا کیونکہ آہستہ آہستہ اس کے بالکل قریب ایک دھواں سا پھیلا اور پھر یہ دھواں ایک انسانی وجود میں ڈھل گیا۔
اب ونود کے سامنے زندہ بت کھڑا تھا۔
وہی آنکھیں ، وہی مسکراہٹ، وہی خدوخال، وہی بالوں کی بل کھائی ہوئی لٹ، وہی تر و تازہ رخسار، وہی قد، وہی لباس، لبوں فرق تھا تو صرف یہ تھا کہ اس وقت اسے دیکھ کر ایسا معلوم ہورہا تھا جیسے وہ سوتے سوتے اچانک اٹھ کر یہاں آ گئی ہو۔ وہ کسی مصورکی بنائی ہوئی کی رنگین لیکن خوابیدہ تصویر کی طرح نظر آ رہی تھی۔
چند لمحات تک یہ زندہ بنت ونود کی طرف دیکھتا رہا اور پھر اب بت سے ایک آوازنکلی، آواز میں اتنی لپک تھی جیسے ایک مکمل جوانی آوازکے روپ میں ڈھل گئی ہو۔
بت نے کہا"مجھے دیکھ کر بالکل خوف زدہ نہ ہو ونود۔ میں کبھی بھی بری نہیں تھی۔ نہ اس زمانے میں جب کہ میں زندہ تھی اور نہ اس وقت جب کہ میں مرچکی ہوں "۔

ایک لمحہ کے توقف کے بعد بت نے مزید کہا "میرا نام شاتو ہے ، اور تہہ خانے یس لے کر یہاں تک جو کچھ ہوا ہے وہ میں نے ہی کیا ہے ۔ میں چاہتی تھی کہ تم تہہ خاین میں جاؤ اور وہاں سے یہ صندوق بھی اٹھا لاؤ اور وہ خنجر بھی ہے کیونکہ مجھے تمہارا ہی انتظار تھا۔ کیونکہ صرف تم ہی مجھے ایک قید سے نجات دلاسکتے تھے "۔
ونود بالکل بت بنا اس بت کی باتیں سنتا رہا۔
بت نے مزید کہا "تم میری یہ کتاب بالکل تنہائی میں پڑھنا تم کو میرے بارے میں سب کچھ معلوم ہو جائے گا لیکن یہ کتاب تمہیں یہ نہیں بتائے کہ میرے بت کا خالق کون تھا؟ میرا بت اندھیرے کنویں میں کیوں پڑا رہا؟ میرا بت روزانہ رات کے بارہ بجے زندہ کیوں ہو جاتا ہے ؟"
بت نے مزید کہا "میں جانتی ہوں کہ میرے بت کی لمحاتی زندگی نے تمہیں پریشان کر دیا تھا تم دیوانگی کی حد تک حیران ہو گئے تھے کہ میرا بت زندہ کیوں ہو جاتا ہے ۔ میں نے اسی لئے تم کو تہہ خانہ پہنچادیا۔ کیونکہ اب تم کو زیادہ پریشان کرنا نہیں چاہتی تھی۔ میں ابھی اور اسی جگہ تمہیں اپنی داستان سنادینا چاہتی ہوں ۔ میں تمہاری یہ الجھن دور کر دینا چاہتی ہوں کہ ایک زندہ عورت پتھر کے ایک خوبصورت بت میں کیسے تبدیل ہو گئی؟ اور یہ بت زندہ کیسے ہو گیا؟

اور پھر شاتو اپنی کہانی سنانے لگی۔



Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:6

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں