ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:5 - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-02

ناول - ایک بت - سلامت علی مہدی - قسط:5


انسانی پنجردیکھنے کے بعد ونود کا دماغ بالکل معطل ہو گیا۔
انتہائی ڈر اور خوف کے عالم میں اس نے آگے بڑھ کر پنجرکا جائزہ لینا چاہا لیکن جیسے اس کی ہمت جواب دے گئی۔ تہہ خانے کا ماحول اتنا پر اسرار تھا اورفضاء میں اتنی بدبو پھیلی ہوئی تھی کہ کسی ذی روح کیلئے وہاں ایک لمحہ بھی ٹھہرنا ناممکن تھا لیکن ونود چونکہ حالات کا مقابلہ کرنے کا فیصلہ کر چکا تھا اس لئے وہ وہاں رکا رہا۔
وہ لمبی لمبی سانسیں لیتا رہا اور اندھیرے میں چمکنے والی سفید ہڈیوں کو دیکھتا لیکن کوشش کے باوجود اس میں آگے بڑھنے کی ہمت پیدا نہیں ہوئی۔

اچانک تہہ خانے میں رہنے والی چند چمگاڈریں چیخنے لگیں اور ایک بڑی سی چمگاڈر نے اس کے چاروں طرف منڈلانا شروع کر دیا۔ چمگاڈریں اتنی بے چینی نظر آ رہی تھی جیسے انہیں ونود کی موجودگی ناگوار گزر رہی ہو۔ جیسے وہ تہہ خانے کے چوکیدار ہوں ۔ جیسے ہی کسی کے حکم پر ان ہڈیوں کی حفاظت کر رہی ہوں ۔
چمگادڑوں کی چیخوں اور اڑنے والی چمگادڑ کے پروں کی پھڑپھڑاہٹ نے ماحول کو اور بھی زیادہ بھیانک بنادیا۔ اب ونود کیلئے وہاں رکنا بالکل ناممکن ہو چکا تھا۔ دوسرے ہی لمحہ وہ وہاں سے بھاگ کھڑا ہوا۔
تہہ خانے میں لاش کا انکشاف اتنا سنسنی خیز تھا کہ ونود نے یہ فیصلہ کیا کہ اب وہ شانتا کو بھی اپنا ہم راز بنالے ۔ وہ اس ارادے سے شانتا کے کمرے میں بھی داخل ہوا لیکن جب اس نے شانتا کے معصوم اور پرسکون چہرے پر نظر ڈالی تو جیسے اس کی زبان پر تالا لگ گیا۔ اس نے سوچا کہ شانتا حالات کی نئی کروٹ کی داستان سن کر پریشان ہی نہیں انتہائی خوف زدہ بھی ہو جائے گی۔ اور پھر جیسے اس کو شانتا پر رچم آ گیا۔
شانتا نے اس سے پوچھا "کیا بات ہے ؟ صبح ہی صبح آپ کا چہرہ پریشان کیوں نظر آ رہا ہے "۔
ونود نے جواب دیا "کوئی بات نہیں ہے ۔ میں رات کو دیر تک جاگتا رہا تھا"۔
شانتا ونود کا جواب سن کر مسکرائی اس نے کہا "کیوں جاگتے رہے تھے "۔ "بت کے جاگنے کے انتظار میں "۔ ونود نے ہنس کر کہا۔ "تو کیا فوارہ کا بت جاگ جاتا ہے ۔ شانتا نے گھبرا کر پوچھا۔ کیا وہ عورت..."
لیکن ونود نے شانتا کی بات کاٹ دی اس نے کہا "میں تو مذاق کر رہا تھا شانتا تم تو ذرا ذرا سی بات پر عورتوں کی طرح پریشان ہو جاتی ہو"۔
شانتا نے اس کے بعد بت کے مسئلہ پر کوئی بات نہیں کی۔ وہ ونود سے ادھر ادھر کی باتیں کر رہی لیکن ونود نے اتنا ضرور محسوس کر لیا کہ شانتا کا دماغ بھی اس کی طرح کسی شدید الجھن سے دوچار ہے ۔ خود شانتا بھی اس سے کوئی بات چھپا رہی ہے ۔

ونود شانتا کو اس کے کمرے میں چھوڑکر باہر آیا تو اس کی نگاہ غیر ارادی طورپر فوارے کے بت پر پڑی۔ حسب معمول عورت کے لبوں پر ایک نہ نظر آنے والی مسکراہٹ پھیلی ہوئی تھی۔ وہ دیر تک بت کی شفاف آنکھوں کی طرف دیکھتا رہا اور پھر جیسے اس نے گھبرا کر اپنی نگاہیں جھکالیں ۔
اس نے ایسا محسوس کیا جیسے وہ بت سے نظریں ملانے کی ہمت کھوچکا ہے ۔
اب ونود اس طرح پر اٹل تھا کہ یہ بت جس عورت کا بھی ہو اس کی بے چین روح اس حویلی میں موجودہے ۔ تہہ خانے میں جس انسان کی ہڈیاں پڑی ہیں اس کا بھی اس روح سے تعلق ہے اور اس روح نے ہی ارادتاً اس کو تہہ خانہ تک پہنچنے کا راستہ دکھایا ہے ۔
لیکن سوال یہ تھا کہ یہ روح چاہتی کیا ہے ؟
وہ شانتا کے کمرے میں کیوں داخل ہوئی؟
وہ روزانہ رات کو 12بجے ہی کیوں نظر آتی ہے ؟
اس کا بت زندہ کیوں ہو جاتا ہے ؟

اپنے کمرے میں بیٹھ کر ونود نے ایک مرتبہ پھر نئے سرے سے حالات کا جائزہ لیا لیکن پہلے کی طرح اس نے خود کو اندھیرے میں ہی محسوس کیا۔ سوال یہ تھا کہ وہ خود کیا کرے ؟ کیا یہ حویلی چھوڑدے ؟ کیا یہاں سے شہر واپس ہو جائے اور یا حالات کا مقابلہ کرے ۔
ایک لمحے کیلئے ونود کے ذہن میں یہ بھی خیال آیا کہ کیوں نہ بت کو اکھاڑکر دوبارہ کنویں میں پھینک دے لیکن اس نے خود میں ایسا کرنے کی ہمت نہیں پائی۔ وہ ڈر سا گیا۔ اس نے سوچا کہیں اس کے اس اقدام سے روح ناراض نہ ہو جائے ۔ روح اس کی دشمن نہ ہو جائے

اور سوچتے سوچتے اچانک اس کومیری یاد آئی۔ اس نے جلدی جلدی میرے نام ایک خط لکھا اور فوری طورپر مجھے اگات پور طلب کر لیا۔
لیکن مجھے اس کا یہ خط دو دن بعد ملا تھا۔ ان دودن میں ونود اور شانتا پر جو کچھ گزری تھی اس نے ان دونوں کو برسوں کا بیمار بنادیا تھا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ان دو دنوں کی داستان سننے کے بعد خود میرے بدن کے رونگھٹے کھڑے ہو گئے تھے ۔

ونود نے مجھے خط لکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ وہ دوبارہ اس تہہ خانے میں داخل ہو گا۔ اور کسی کو بتائے بغیر تنہا داحل ہو گا۔ اپنے اس فیصلے پر عمل کرنے کیلئے اس نے ایک بڑی بیٹری لی، ایک پستول لیا اور شانتا کوبتائے بغیر دوبارہ تہہ خانے کی طرف روانہ ہو گیا۔ تہہ خانے کی طرف جانے سے قبل اس نے بت کی طرف دیکھا۔ بت بدستور مسکرا رہا تھا۔ پتہ نہیں کیوں ... اس مرتبہ بت کی یہ مسکراہٹ اس کے دل میں ایک تیر کی طرح پیوست ہو گئی۔ بت کی اس مسکراہٹ نے جو کو وہ سینکڑوں مرتبہ دیکھ چکا تھا اس مرتبہ اس پر ایک سحرطاری کر دیا۔ وہ مبہوت ہو کر اس بت کی طرف دیکھنے لگا۔

ونود پر یہ کیفیت صرف چند لمحات ہی طاری رہی۔ وہ فوراً ہوش میں آ گیا۔ اُس نے بت کی طرف سے اپنی نظریں پھیر لیں ۔ اور ایک نئے عزم کے ساتھ تہہ خانے کی طرف روانہ ہو گیا۔ ونود پر کیفیت صرف چندلمحات ہی طاری رہی۔ وہ فوراً ہوش میں آ گیا۔ اُس نے بت کی طرف سے اپنی نظریں پھیر لیں اور ایک نئے عزم کے ساتھ تہہ خانے کی طرف روانہ ہو گیا۔
ونود اب کسی قیمت پر اپنا فیصلہ بدلنے کیلئے تیار نہیں تھا۔ تہہ خانے میں داخل ہوتے ہی چمکاڈریں دوبارہ چیخنے لگیں ۔ لیکن اس مرتبہ ونود ان سے بالکل نہیں ڈرا۔ اس نے اڑنے والی چمکاڈر پر فائرکر دیا۔ چمکاڈر نے ایک بھیانک چیخ ماری اور اس کے جسم کے پرخچے اڑگئے ۔ دوسری چمکاڈر اس کے سر پر منڈلانے لگی تو اس نے اس کو بھی خاموش کر دیا۔ ونود بالکل مطمئن تھا کیونکہ ابھی اس کے پستول میں چار گولیاں باقی تھیں ۔ لیکن ونود کو تیسرا فائر کرنے کی نوبت نہیں آئی۔ تمام چمگادڑیں چیختی چلاتی تہہ خانے سے باہر نکل گئیں اور یوں خاموشی چھا گئی ۔

انتہائی مضبوط اور بے خوف قدموں کے ساتھ ونود لاش کے پنجر کے پاس پہنچ گیا۔ اب اس نے اپنی طاقت اور بیڑی بھی جلالی تھی روشنی کا دائرہ جیسے ہی لاش پر پڑا ونود کی نظروں نے پنجر کی چھاتی کے گھڑے میں ایک خنجر دیکھ لیا اور پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر خنجر اٹھالیا۔

خنجر کی موجودگی یہ ثابت کر رہی تھی کہ یہ پنجر کسی عورت یا مرد کا تھا جس کو اس خنجر سے قتل کیا گیا تھا۔ خنجر پرانی ساخت کا تھا اور خم دار تھا۔ اس کا دستہ منقش تھا اور اس پر کچھ لکھا بھی ہوا تھا۔ اس نے اس تحریر پر بھی روشنی ڈالی۔ خنجر کے دستے پر ہندی رسم الخط میں لکھا تھا "راجہ بلونت سنگھ" اور جیسے یہ نام پڑھتے ہی ونود کو ایک سہارا مل گیا۔ اسی جگہ کھڑے کھڑے اسے پروفیسر تارک ناتھ یادآ گئے ۔ اس نے سوچا کہ خنجر پر کندہ کیا ہوا یہ نام پروفیسر کی تحقیق کو یقینا آگے بڑھادے گا۔ اور پھر جیسے ونود کے لبوں پر از خود ایک مسکراہٹ پھیل گئی۔
لاش ایک سنگی چبوترے پر رکھی تھی۔ چبوترے پر پنجر کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں تھی۔ ونود نے چبوترے کے چاروں طرف ایک چکر لگایا۔ اور پھر اسی جگہ سے تہہ خانے کی چھت اور دیواروں پر روشنی پھینکی۔ اچانک اس نے تہہ خانے کے ایک گوشے میں ایک چھوٹا سا صندوق رکھے دیکھا۔



Novel "Aik Bot" by: Salamat Ali Mehdi - episode:5

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں