یو۔پی۔اے اور مسلمانوں کی ترقی؟ - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-02

یو۔پی۔اے اور مسلمانوں کی ترقی؟

ان الفاظ کے نذر قلم کئے جانے تک ہندوستانی پارلیمنٹ میں ریل بجٹ پیش کیا جا چکا ہے اور اس کی تجاویز کی روشنی میں بالعموم عوام اور بالخصوص عوام کے الگ الگ زمرے اس فکر میں مبتلا ہو چکے ہیں کہ آنے والے عام بجٹ میں ان کیلئے کوئی قابل ذکر تجویز ہو گی بھی یا نہیں ۔ اس ضمن میں یہ بات خصوصی طورپر غور طلب ہے کہ جب کہ ایک وزیر ریلوے نے ریل کرایوں میں مال بھاڑوں میں زبردست اضافے انجام دے کر بھی دن دہاڑے کرایوں اور بھاڑوں میں اضافوں کا مرتکب ہونے سے انکار کیا ہے اور یہ ڈھٹائی ایک ایسی شئے ہے جس پر میڈیا کے لوگ بھی توجہ دینے کیلئے خود کو مجبور پا رہے ہیں ۔ چونکہ یہ ریل بجٹ گذشتہ 17 برسوں میں پہلا ریل بجٹ ہے جسے کانگریس پارٹی کے یعنی یوپی اے کی سرکردہ پارٹی کے ایک رکن نے پیش کیا ہے ۔ لہذا اب یہ قیاس بھی کیا جانے لگاہے کہ کیا اس پارٹی کو عوام کے مفاد کا کوئی پاس یا عوام کی سوچ کی کوئی فکر ہے بھی یا نہیں ۔ نیز یہ سوال ایک ایسے سال میں اٹھ رہا ہے جب 9 ریاستوں میں اسمبلیوں کے الیکشن ہونے والے ہیں جن کے پورا ہوتے نہ ہوتے لوک سبھا کے عام انتخابات بھی سر پر ہوں گے ۔ بین الاقوامی ایجنسیاں جس طرح حکومت ہند پر "دلیرانہ فیصلوں " کیلئے دباؤ عائد کرتی آ رہی تھیں اس کا اثر اب صاف نظر آنے لگاہے ۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مختلف اشیاء اور خدمات کی قیمتوں ، کرایوں اور محصولوں وغیرہ میں اب آئے دن اضافے ہوتے رہیں گے اور ریل کرایوں اور بھاڑوں کے بارے میں ایک "آزادانہ" ریل ٹیرف ا تھاریٹی کے قیام کی تجویز پیش کر کے وزیر ریلوے نے بھی اشارہ دے دیا ہے کہ ان وصولیوں میں کبھی بھی اضافے انجام دئے جاسکیں گے اور اس کے لئے متعلقہ وزیر کو ریل بجٹ کے پیش کئے جانے کی تاریخ کا انتظار نہیں کرنا ہو گا۔ اس صورتحال میں معاشرہ کے وہ زمرے بالخصوص سوچ میں غرق ہوں گے جن کو رواں اصطلاح میں "کمزور طبقے " کہا جاتا رہا ہے اور ان میں فہرستی ذاتوں اور فہرستی قبیلوں کے علاوہ مذہبی اقلیتوں کا ایک بڑا حصہ بھی شامل ہے ۔ آج یہ بات پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے ہے کہ جس شئے کو نئی اقتصادی پالیسی کا نام دیا جاتا ہے اس کے آزادکاری، نجکاری اور عالم کاری کے فلسفے کے تحت مختلف اشیاء اور خدمات کی فراہمی زیادہ تر ان ہی زمروں کیلئے کی جا رہی ہے اور کی جائے گی جو اس حال میں ہیں کہ ان اشیاء اور خدمات کی قیمت ادا کر سکیں ۔ ظاہر ہے کہ فہرستی ذاتوں ، قبیلوں اور مذہبی اقلیتوں کا ایک بڑا حصہ اس حیثیت سے محروم ہے اس لئے اب یہ خدشہ لاحق ہے کہ پسماندگی کے شکار یہ زمرے کہیں پسماندہ بنے رہنے کیلئے معتوب ہو کر نہ رہ جائیں ۔ غربت زدہ آبادی میں کمی کے رجحان کے بعد گذشتہ کچھ برسوں میں جس طرح غربت زدہ آبادی میں دوبارہ اضافے دیکھنے کو ملے ہیں اس سے اس خدشے کو تقویت ہی حاصل ہوتی ہے ۔ مذہبی اقلیتوں کا سوال اس ضمن میں بالخصوص پریشان کن ہے جس کے ساتھ پسماندگی کی ایک تاریخ وابستہ رہی ہے ۔ یہاں ہم پہلے یہ بات واضح کرنا چاہیں گے کہ جب بھی ہم (لسانی اقلیتوں سے الگ) مذہبی اقلیتوں کی بات کرتے ہیں تواسی طورپر بھلے ہی اس زمرے میں سکھ، عیسائی، جین، بودھ اور پارسی بھی شامل ہیں لیکن جب پسماندگی( اقتصادی اور تعلیمی) کی بات آتی ہے تو مسائل زیادہ تر مسلم آبادی پر مرکوز ہو جاتے ہیں ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ سکھ، جین اور پارستی برادریوں کے لوگ کھاتے پیتے اور خوشحال لوگ ہیں اور سیاسی مصلحت کے تحت سرکاریں خواہ جو بھی اقدام کریں حقیقتاً ان لوگوں کو کسی سرکاری امداد کی ضرورت نہیں ہے ۔ رہا سوال ہندوستان میں عیسائی، اسلام اور بودھ مذہبوں کے ماننے والوں کا ان میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جن کے آباء و اجداد کبھی ہندو سماج کی پسماندہ ذاتوں سے وابستہ تھے اور جو ہندو سماج کی جان لیوا عدم مساوت سے دکھی ہو کر عیسائی، مسلم یا بودھ بن بیٹھے ۔ لیکن فرقہ پرست تنظیمیں خواہ کچھ بہی کہیں ، ہمارے معاشرہ کی تلخ حقیقت یہی ہے کہ مذہب کی تبدیلی کے باوجود ان لوگوں کی اقتصادی، تعلیمی اور دوسری حیثتیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی ہے اور سماجی علوم میں جس چیز کو مثبت تفریق Posititve Discrimination کہا جاتا ہے اس کی آج بھی ان کو اتنی ہی شدت سے ضرورت ہے جتنی کہ پہلے تھی۔ پسماندگی کی شکار ان جماعتوں میں سب سے بڑی جماعت مسلمانوں کی ہے اور اقلیتی جماعتوں کی کل آبادی میں مسلمانوں کا حصہ کوئی 73فیصدکے آس پاس ہے ۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ان کی کل مطلق تعداد 17.7 کروڑکے آس پاس ہے اور جسٹس سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق تعلیم، معاشی اور عوامی خدمات کی دستیابی، ان تینوں کے اعتبار سے یہ زمرہ باقی معاشرہ سے ، حتی کہ کچھ ایک معاملوں میں فہرستی ذاتوں اور قبیلوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہے ۔ مثال کیلئے مال سال 2010-11 میں وسائل کی جو مہر بندیاں کی گئی تھیں ان میں مسلمانوں کی فی کس حصص 797 روپئے سالانہ تھی جب کہ فہرستی ذاتوں اور قبیلوں کے معاملے میں یہ حصص بالترتیب 1228 اور 1521 روپے تھی۔ اسی طرح سچر کمیٹی کے تخمینہ کے مطابق مسلمانوں میں خواندگی کی مجموعی شرح 59فیصد تھی اور اس معاملے میں وہ بھلے ہی فہرستی ذاتوں اور قبیلوں سے آگے تھے لیکن آبادی کے دوسرے زمرے سے پورے 11فیصد پیچھے تھے ۔ اس طرح کبھی اسکول نہ جانے والے یا وقت سے پہلے تعلیم کے دائرہ سے باہر نکلنے والے مسلم بچوں کا تناسب دوسرے کمزور بچوں کے مقابلے میں کوئی 25فیصد زیادہ تھا۔ نیز جن علاقوں میں مسلم آبادی مرکوز ہے ان میں اچھے اسکولوں کا بھی فقدان ہے اور سچر کمیٹی کے مطابق مختلف حصوں میں مسلم آبادی کے ارتکاز والے کم سے کم 1000ایسے گاؤں ہیں جہاں پرائمری اسکول بھی موجود نہیں ہیں ۔ لڑکیوں کیلئے ہاسٹلوں کی کمی بھی ان کے تعلیمی فروغ کی راہ میں حائل ہے ۔ رہا سوال معاشی کا تو ہندوستان میں مسلمانوں کا ایک بڑا حصہ شہروں اور قصبوں میں مرکوز ہے جہاں وہ روایتی کاروبار میں لگا ہوا کسی طرح زندگی کی گاڑی کھینچ رہا ہے ۔ ان بستوں میں مسلم آبادی کا ایک بڑا حصہ اس زمرہ میں آتا ہے جسے اقتصادیات کی اصطلاح میں خود روزگاری کہا جاتا ہے اور اس زمرے کے بارے میں سرکار کی تمام تر کوششوں اور دعوؤں کے باوجود حقیقت یہ ہے کہ خود روزگار لوگوں کا ایک بڑا حصہ اتنی کمائی بھی نہیں کرپاتا کہ وہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دلاسکے یا اپنے کنبہ کو قدرے خوش حال زندگی دے سکے ۔ نیز یہ لفظ خود ہی فریب کن ہے اور اس میں دیہاتی علاقوں کے کسانوں سے لے کر شہروں اور قصبوں کے ٹھیلہ والوں ، خوانچہ والوں ، پھیری والوں اور دستکاروں تک کئی انواع کے لوگ سما جاتے ہیں ۔ اس ضمن میں دو حقیقتیں ہماری نظروں کے سامنے ہیں ۔ ایک مختلف دستکاریوں یا چھوٹی چھوٹی صنعتوں میں لگے ہوئے لوگوں کو ان کی محنت کا معاوضہ عموماً نہیں ملتا اور اگر ایک ٹی وی اشتہار میں جناب امیتابھ بچن صاحب یہ فرماتے ہیں کہ ایک ٹپولہ ساڑی کو تیار کرنے میں سات مہینے لگ جاتے ہیں تو سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کام میں سات مہینے لگانے والے کاریگر کو کیا اتنی رقم بھی ملتی ہے جو وہ ایک کھیت مزدور یا ایک کارخانہ مزدور کے روپ میں سات مہینوں میں حاصل کر سکتا ہے ؟ سچ بات تو یہ ہے کہ ان کاریگروں اور دستکاروں کی محنت کا ایک بڑا حصہ ان بچولیوں کی جیب میں چلا جاتا ہے جو اس پورے طبقے کے ساتھ ایک جونک کے روپ میں چپکے ہوئے ہیں ۔ خواتین کی ایک تنظیم نے دہلی میں 2009ء میں Home Based Workers کا جو سروے کرایا تھا اس سے گھروں پر رہ کر دوسروں کیلئے کام کرنے والی خواتین کی حالت زار کا بخوبی اندازہ لگ جاتا ہے اور اگر وہ خواتین پھر اس طرح کے کام میں لگی ہوئی ہیں تو اس کی وجہہ اتنی سی ہے کہ ان کے پاس کوئی اور متبادل راستہ ہے ہی نہیں ۔ دستکاریوں کے تباہ ہونے کی ایک وجہہ یہ بھی یہ ہے کہ سرکار ان دستکاریوں کو ملنے والے تحفظ میں بتدریج کمی کرتی جا رہی ہے ۔ مثال کیلئے پہلے رومالوں اور گمچھوں اور اسی طرح کی دوسری چیزوں کی پیداواری ہینڈلوموں کیلئے محفوظ تھی مگر اب بڑے کارخانے دار بھی یہ چیزیں بناسکتے ہیں ۔ بھاگل پور( بہار) میں ہینڈلوموں اور پاور لوموں کی صنعت تقریباً پوری طرح ختم ہو چکی ہے ۔ جب کہ کچے مالوں ، بجلی اور دوسری درآمدات (Inputs) کی بڑھتی قیمتوں کے سبب دوسرے کاریگر بھی اس کاروبار میں ٹکے رہنا مشکل پا رہے ہیں ۔ یہ صورتحال مسلم آبادی کی حاشیائی حیثیت کو مزید قوی کر رہی ہے ۔ رہا سوال بنیادی خدمات کی دستیابی کا تو اس بارے میں آبادی کے الگ الگ زمروں سے متعلق اعداد و شمار کا اکال ہے ، لیکن ہم اتنا ضرور دیکھتے ہیں کہ زمینی سطح پر صورت کوئی بہت خوش گوار نہیں ہے اور غرباء کی ایک بہت بڑی آبادی، جن میں مسلمانوں کی اچھی خاصی تعداد شامل ہے قاعدہ کے مکانوں ، بجلیٖ، پانی، صاف صفائی، علاج و معالجہ وغیرہ کی سہولتوں سے محروم ہے ۔ مسلم ارتکاز والے 40فیصد گاؤں میں پرائمری ہیلتھ سنٹر تک نہیں ہیں ۔ اس لئے جب وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ نے اقلیتوں کیلئے اپنے 15نکاتی پروگرام کا اعلان کیا تھا تب اس سے لوگوں کی امیدیں ضرور جاگی تھیں اور لوگوں نے اس کا خیرمقدم بھی کیا تھا لیکن محض کچھ ہی برسوں کے اندر اب وہ پروگرام بھی ایک مخول بن کر رہ گیا ہے ۔ اس اعلان میں بڑے طمطراق کے ساتھ یہ بات کہی گئی تھی کہ منصوبہ جاتی خرچ کا 15فیصد حصہ مذہبی اقلیتوں کیلئے مختص ہو گا لیکن جہاں ان اقلیتوں کی آبادی کل آبادی کے 19فیصد کے برابر ہیں کل منصوبہ جاتی حد بندی میں ان کی حصص محض 5فیصد سے ذرا سی ہی زیادہ ہے ۔ مالی 2010-11 میں وزارت برائے اقلیتی امور کو کل جمع 400کروڑروپئے مختص کئے گئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر یہ رقم 19 کروڑاقلیتی آبادی میں تقسیم کی جائے تو ہر ایک کے حصہ میں محض 137 روپئے آئے ۔ ظاہر سی بات ہے کہ اس رقم پر کسی بھی شخص کے فروغ و فلاح کی بنیاد نہیں رکھی جاسکتی۔ مذہبی اقلیتوں کے بارے میں وزیراعظم نے ملٹی سیکٹورل ڈیولپمنٹ پروگرام کے نام سے جس دوسری پیش قدمی کا اعلان کیا تھا وہ بھی حالات میں کوئی قابل ذکر تبدیلی یا بہتری لانے میں ناکام رہی ہے ۔ اس پروگرام کا مفصل جائزہ لیا جائے تو بھلے ہی اسے ایک جادوئی پروگرام کا نام دیا گیا ہو اس میں بہت ہی خامیاں دیکھی اور دکھائی گئی ہیں ۔ جن میں ایک اہم خامی یہ ہے کہ اس پروگرام کے نفاذ کی اکائی کنبہ ، گاؤں یا بلاک نہ ہو کر ضلع ہے ۔ جس کے سبب مختص کئے گئے وسائل کے فوائد مسلم آبادی تک نہیں پہنچ پا رہے ہیں ۔ تصور کیجئے کہ یہ پروگرام ایک ایسے ضلع میں نافذ کیا جا رہا ہے جس میں اقلیتوں کی آبادی کل آبادی کی 30فیصد ہے ۔ ہوتا ہے کہ مختص کی گئی رقومات میں زیادہ تر ضلع کی 70فیصد آبادی مستفید ہورہی ہے ۔ وہ 30فیصد آبادی مستفید نہیں ہورہی ہے جس کیلئے یہ پروگرام شروع کیا گیا تھا۔ جبکہ افسر شاہ بہ آسانی یہ کہہ سکتا ہے کہ اس ضلع کے لئے مختص کی گئی رقم کو اس نے اسی ضلع پر خرچ کیا ہے ۔ اب اس عمل میں مذہبی تعصب کا کوئی روڑا نہیں یہ کہہ پانا تو مشکل ہے پر اگر کسی رقم کو غریب مسلمانوں کیلئے معاش کے مواقع کی تخلیق اور ان میں مہارتوں کے فروغ پر خرچ نہ کر کے ، مثال کیلئے اسکولوں اور عمارتوں کی تعمیر پر خرچ کیا جائے گا تو ظاہر ہے کہ جو بچے اسکول نہیں جا رہے ہیں وہ یقیناً ا عمارتوں سے مستفید نہیں ہوں گے ۔ پروگرام کی نگرانی میں عوام کی شرکت کے میکانزم بھی MSDP میں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ دوسری طرف کچھ برسوں میں پنچ سالہ منصوبوں میں اقلیتوں کیلئے ایک ضمنی منصوبہ Sub Plan کا جو مطالبہ اٹھ رہا ہے ابھی تک محض زبانی جمع خرچ ہی کہا جاسکتا ہے ۔ آندھرا پردیش میں وزیراعلیٰ کرن کمار ریڈی نے پچھلے سال 2013ء کے بجٹ میں اگر ایک اقلیتی ضمنی منصوبہ شامل کرنے کا وعدہ کیا تھا تو ابھی حال ہی میں اس پر عمل آوری کو مزید ایک سال کیلئے ملتوی کر دیا ہے ۔ جبکہ ان کے وزیر خزانہ اقلیتوں کیلئے ایک الگ ضمنی منصوبہ کو ناممکن قرار دے رہے ہیں۔ رہا سوال حکومت ہند کا تو اس کا رخ آج بھی واضح نہیں ہے ۔ لہذا اب دیکھنے کی بات یہ ہے کہ بجٹ 2013-14 سے اقلیتوں کو اور بالخصوص مسلمانوں کو کچھ حاصل بھی ہوتا ہے یا نہیں یا وہ پھر مایوسی سے دوچار ہوتے ہیں ۔

A question mark on Muslims development under UPA govt.

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں