تختۂ دار پر بھی یہ سر نہیں جھکے گا - اکبر الدین اویسی - Taemeer News | A Social Cultural & Literary Urdu Portal | Taemeernews.com

2013-03-24

تختۂ دار پر بھی یہ سر نہیں جھکے گا - اکبر الدین اویسی

آندھراپردیش قانون ساز اسمبلی میں کل ہند مجلس اتحاد المسلمین کے قائد جناب اکبر الدین اویسی آج پھر ایک بار پورے جلال میں نظر آئے۔ مسلم مسائل پر اپنی بے باکی اور شدید لب و لہجے کیلئے مشہور جناب اکبر الدین اویسی نے دوٹوک انداز میں این کرن کمار ریڈی حکومت کے چہرہ سے سیکولرازم کے نقاب کو الٹتے ہوئے ریاست کے مختلف حصوں میں گذشتہ 2 سال کے دوران مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور حکومت کی مجرمانہ خاموشی کاپردہ فاش کیا۔ انہوں نے چیف منسٹر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ اگر انہیں مجلس سے دشمنی ہے اور مجلسی قیادت سے بیر ہے تو وہ خوشی سے کھل کر دشمنی کریں۔ جتنے چاہیں مقدمات اکبر الدین اویسی پر چلائیں وہ مقدمات سے ڈرنے اور گھبرانے والے نہیں ہیں۔ انہوں نے انتہائی جذباتی انداز میں کہاکہ "مجھے پھانسی پر لٹکائیں یا تختہ دار پر چڑھائیں یہ سر جھکنے والا نہیں ہے، جب تک زندہ ہوں آخری سانس تک مسلمانوں کے حق کیلئے لڑتا رہوں گا"۔ اس کے ساتھ ہی جناب اکبر الدین اویسی نے حکومت سے یہ مطالبہ بھی کیا کہ وہ مجلس کی دشمنی میں اندھی ہوکر مسلمانوں کے ساتھ ظالمانہ رویہ اختیار نہ کرے۔ جناب اکبر الدین اویسی نے اننت پور میں ایک مسلم لڑکی کے ساتھ دست درازی اور مومن پیٹ موضع رنگاریڈی میں پیش آئے واقعہ پر وزیر داخلہ پی سبیتا اندرا ریڈی کے ایوان میں دئیے گئے بیان پر مباحث کے دوران کرن کمار ریڈی حکومت کے سیکولر کردار پر شدید تنقید کرتے ہوئے مسلمانوں پر ہونے والے مظالم اور نا انصافیوں کا تفصیلی ذکر کیا اور یہ پیش قیاسی کی کہ یہ حکومت 2014ء میں اقتدار سے محروم ہوجائے گی۔ انہوں نے کہاکہ مسلم اقلیت کانگریس سے بیزار ہوچکی ہے اور اس حکومت کو سبق سکھانے کیلئے موقع کی منتظر ہے۔ انہوں نے ایوان میں یہ چونکا دینے والا انکشاف بھی کیا کہ ان کی بعض تقاریر کو قومی میڈیا اور سوشیل میڈیا میں توڑ مروڑ کر منفی انداز میں پیش کرنے اور پھیلانے کیلئے ممبئی کی ایک آئی ٹی کمپنی کو خطیر رقم دی گئی اور وہ دستاویزی ثبوت کے ساتھ اس کو ثابت کرنے کے موقف میں ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چیف منسٹر بھی اس سے واقف ہیں کہ کمپنی کونسی ہے اور اس کمپنی کو کس شخص کے ذریعہ رقم دی گئی۔ قائد مجلس نے کہاکہ اس سازش کے پیچھے درحقیقت مجلس کو کمزور کرنا اور ان کو نقصان پہنچانا تھا لیکن اس سے مجلس کو فائدہ پہنچا اور ان کی مقبولیت میں اور بھی اضافہ ہوا۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس حکومت کی تائید سے مجلس کی دستبرداری کے بعد اویسی برادران کے خلاف سیاسی انتقام کی مہم چلائی گئی۔ انہوں نے حکومت سے کہاکہ مجلس اس طرح کی انتقامی کارروائیوں کے سامنے جھکنے والی نہیں۔ جناب اکبر اویسی نے چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کو راست نشانہ بناتے ہوئے کہاکہ اویسی برادران جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ ساتھ ہی انہوں نے یہ پیش قیاسی کی کہ آنے والے دو سال میں "موجودہ دو طاقتور ریڈی برادران کرپشن کے الزامات کے تحت جیل میں ہوں گے۔ وہ ان کے نام بتانا نہیں چاہتے کیونکہ ہر کوئی ان ریڈی برادران سے اچھی طرح واقف ہے"۔ انہوں جیسے ان دو ریڈی برادران کا ذکر کیا، سرکاری پنچوں میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں اور کانگریس ارکان کی نگاہیں بے ساختہ چیف منسٹر کی طرف اٹھ گئیں جو اس وقت ایوان میں موجود تھے۔ قائد مجلس میں مدلل بحث اور شعلہ بیانی کے بعد چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کو مداخلت کرنی پڑی ایک مرحلہ پر چیف منسٹر نے کہا "معاف کیجئے میرے دوست میں ویسا نہیں ہوں جو آپ کہہ رہے ہیں"۔ دوسرے مرحلہ پر انہوں نے یہ بھی کہا "میں اویسی برادران کی عزت و احترام کرتا ہوں"۔ قبل ازیں مجلسی قائد نے اننت پور میں ایک مسلم لڑکی کے ساتھ دست درازی اور مومن پورہ ضلع رنگاریڈی میں پیش آئے واقعہ پر حکومت کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہاکہ آپ چاہئے کتنے ہی سنگین الزامات ہم پر لگالیں لیکن بے قصور اور عام مسلمانوں کو جھوٹے مقدمات سے دور رکھیں ان پر ظلم نہ کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ ایک طرف کرن کمار ریڈی حکومت سیکولر ہونے کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے اور دوسری طرف اس کا رویہ مسلمانوں کے ساتھ انتہائی غیر منصفانہ اور غیر ہمدردانہ ہے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں مسلمانوں کے ساتھ روارکھی جانے والی نا انصافیوں کے کئی واقعات کو ایوان کے سامنے رکھتے ہوئے بتایا کہ سنگاریڈی، ادونی، اننت پور اور کئی مقامات پر مسلمانوں کی جان و مال کو نقصان پہنچایا گیا۔ عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایاگیا، مسلمانوں کو ان کی عمر کا خیال کئے بغیر گرفتار کیا گیا اور ان کے خلاف مختلف سنگین دفعات کے خلاف مقدمات درج رجسٹر کئے گئے۔ جناب اکبر الدین اویسی نے کہاکہ مکہ مسجد بم دھماکے کے بعد بے قصور مسلم نوجوانوں کے خلاف جو مقدمات درج کئے گئے تھے۔ عدالت سے با عزت بری ہونے اور کیرکٹر سرٹیفکٹ عطا کرنے کے باوجود آج بھی انہیں مختلف عنوانات سے ہراساں کیا جارہا ہے اور مکہ مسجد واقعہ میں ہی جن مسلم نوجوانوں کو مفرور بتاکر ان کے خلاف مقدمات باقی رکھے گئے ہیں، ان سے ابھی تک دستبرداری اختیار نہیں کی گئی ہے۔ اسی طرح فسادات میں گرفتار مسلم نوجوانوں کے خلاف کھولی گئیں ہسٹری شیٹس اور روڈی شیٹس بھی ابھی تک بند نہیں کی گئیں جبکہ حکومت نے وعدہ کیا تھا کہ پہلی بار جن مسلم نوجوانوں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے ہیں ان کی روڈی شیٹس ہسٹری شیٹس بند کردی گئی جائیں گی۔ قائد مجلس نے کہاکہ مکہ مسجد بم دھماکہ کے بعد بے قصور مسلم نوجوانوں پر جو مقدمات درج کئے گئے تھے ان سے اب تک دستبرداری اختیار نہیں کی گئی۔ سنگاریڈی، ادونی اور ریاست کے دوسرے مقامات پر بھی مسلمانوں کے خلاف جھوٹے مقدمات درج کئے گئے۔ انہوں نے کہاکہ کانگریس ایک سیکولر جماعت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے؟ لیکن چیف منسٹر کرن کمار ریڈی کی زیر قیادت حکومت سیکولر نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے اس دعویٰ کی کئی دلیلیں پیش کیں۔ قائد مجلس کے سیکولرازم سے متعلق ریمارک پر جب کانگریس کے رکن مستان ولی نے وضاحت کی اور کہاکہ موجودہ حکومت اور کانگریس پارٹی سیکولر ہے۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں کی محافظ ہے ساتھ ہی انہوں نے اننت پور کے واقعہ پر حکومت کی مدافعت کی کوشش کی تو جناب اکبر الدین اویسی نے کہاکہ کانگریس کے یہ رکن ملک کی تاریخ سے واقف نہیں ہے۔ انہوںنے کہاکہ کیا اس بات کی تردید کی جاسکتی ہے کہ کانگریس نے گذشتہ 65 سال کے دوران ملک میں 50ہزار سے زائد فرقہ وارانہ فسادات دئیے۔ کیا یہ درست نہیں ہے کہ احمد آباد، جشمید پور، بھیونڈی، میرٹھ، ہاشم پورہ، ملیانہ، اجمیر، لکھنو اور ملک کے کئی مقامات پر ہوئے فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام ہوا؟ کیا یہ صحیح نہیں ہے کہ بابری مسجد کی شہادت کے وقت کانگریس کے ہی وزیراعظم تھے؟ جناب اکبر الدین اویسی نے اس رکن سے سوال کیا کہ جب کانگریس سیکولر ہے تو پھر ان تمام سوالات کا اس کے پاس کیا جواب ہے۔ انہوں نے اننت پور واقعہ پر جذباتی انداز میں کہاکہ وزیر داخلہ اے کعورت ہے اور کانگریس رکن جو حکومت کی مدافعت کررہے ہیں ان کو اس لڑکی کی بے بسی نظر نہیں آرہی ہے لیکن وہ اس متاثرہ لڑکی میں اپنی ماں، بیٹی اور بہن کی شکل دیکھتے ہیں۔ حکومت نے اس کے ساتھ اس لئے امتیاز کیا کیوں کہ وہ ایک مسلمان ہے۔ اکبر اویسی نے سوال کیا کہ کیا یہ لڑکی دلت ہوتی تو حکومت کا رویہ ایسا ہی ہوتا؟ قائد مجلس نے سوال کیا کہ دو سال تک لڑکی کی حرمت کو پامال کیا گیا اس کے باوجود حکومت کیوں خاموش رہی؟ انہوں نے مطالبہ کیا کہ خاطی پرنسپل کے خلاف وری کارروائی کی جائے۔ قائد مجلس نے کہاکہ مومن پیٹ میں پولیس نے ایک طرفہ کارروائی کرتے ہوئے تقریباً 50مسلمانوںکو گرفتار کیا جن میں ضعیف العمر مسجد کے مصلی بھی ہیں۔ اشرار نے نمازکے دوران زور دار آواز میں مندر میں بھجن لگایا جب نوجوانوں نے ان سے اواز کم کرنے کی التجا کی تو اس معاملہ کو طول دیتے ہوئے نوجوانوں کو زدوکوب کیا گیا اس کے بعد اشرار نے مسجد پر سنگباری کی۔ پولیس نے خاطیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے مظلوم مسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ سرکاری پنچوں کی جانب سے بجٹ میں اقلیتوں کیلئے مختص فنڈ میں اضافہ کے دعویٰ پر مجلسی قائد نے کہاکہ جہاں تک تناسب فیصد کا تعلق ہے تلگودیشم کی پچھلی حکومت اور کانگریس کی موجودہ حکومت میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ مکمل معلومات کے ساتھ کوئی بات کی جاتی ہے یا کوئی بحث ہوتی ہے تو یہ بات قابل فہم ہے لیکن کم علمی کے ذریعہ بحث مناسب نہیں۔ انہوں نے کہاکہ تلگودیشم دور حکومت میں اقلیتوں کیلئے جو فنڈس مختص کئے گئے اس وقت عام بجٹ کی ہیت کیا تھی اور عام بجٹ پر کتنی رقم مختص کی گئی اور اس کے مطابق کتنا اقلتیوں کیلئے رکھا گیا اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ تب اور اب میں اقلیتوں کیلئے کوئی خاص راحت نہیں دی گئی۔ تلگودیشم دور حکومت میں اقلیتوں کی مجموعی بجٹ کا 0.058 فیصد حصہ مختص کیا گیا تو اب کانگریس حکومت میں 0.63 مختص کیا گیا ہے۔ کانگریس اقلیتوں کیلئے بجٹ دو گنا کا جو دعویٰ کررہی ہے وہ مضحکہ خیز ہے۔ بجٹ کے اعداد و شمار بتاکر خود کو اقلیتوں کا چمپئن قرار دینا مناسب نہیں ہے۔ قائد مجلس نے کہا کہ اگر حکومت اکبر اویسی کو جواب دینا چاہتی ہے تو پھر سچر کمیٹی، رنگاناتھ مشرا کمیشن، گوپال سنگھ کمیشن کی سفارشات پر عمل کیا جائے۔ مسلمانوں کے ساتھ جو نا انصافی کی جارہی ہے اسے ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہاکہ زبانی جمع خرچ سے کام چلنے والا نہیں ہے۔ مسلمانوں کو ان کا حق دینے یکساں مواقع پیدا کئے جائیں۔ سڑک بند کے دوران گرفتار کئے گئے ٹی آرایس قائدین کے ساتھ ہمدردی ظاہر کرتے ہوئے مجلسی قائد نے کہاکہ ٹی آرایس علیحدہ تلنگانہ کیلئے جدوجہد کررہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ کانگریس اس مسئلہ پر فیصلہ لینے کی طاقت سے محروم ہوچکی ہے۔ انہوں نے تمام سیاسی جماعتوں بشمول تلگودیشم پارٹی سے کہاکہ مسئلہ تلنگانہ کے حل کیلئے وہ سب متحدہوکر ایک قراداداس ایوان میں پیش کرے جس کے ذریعہ مرکزی حکومت پر زور دیں کہ وہ اس مسئلہ کا کوئی قطعی حل نکالیں۔ تلنگانہ کی تشکیل کی جاتی ہے یا نہیں اس کا صاف صاف خلاصہ کرے۔ مرکز کی جانب سے کوئی فیصلہ نہ لئے جانے کی وجہہ سے یہ مسئلہ پچیدہ ہوتا جارہا ہے۔ جناب اکبر اویسی نے کہاکہ ٹی آرایس کے رکن ہریش راؤ نے یہ بات درست کہی کہ حکومت کی تائید سے دستبرداری اختیار کرنے پر کانگریس پارٹی سیاسی انتظام لے رہی ہے۔ ڈی ایم کے کے ساتھ یہی ہوا۔ تائید سے دستبرداری کے 24گھنٹے بعد ہی سی بی آئی نے ڈی ایم کے لیڈر کے مکان پر دھاوا کیا۔ مجلس نے جب تائید سے دستبرداری اختیار کرلی تو مجلسی قائدین کے خلاف مقدمات درج کرتے ہوئے انہیں جیل بھیج دیاگیا۔ وائی ایس آر کانگریس پارٹی کے قائد وائی ایس جگن موہن ریڈی جب کانگریس میں تھے تب ان کے خلاف کوئی بات نہیں ہوتی تھی لیکن وہ جب کانگریس کو چھوڑ چکے ان کے خلاف سی بی آئی کے مقدمات شروع کئے گئے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ٹی آرایس پارٹی نے حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی تو حکومت نے اس پارٹی کے قائدین کو جیل بھیج دیا۔ اس سے پہلے مجلسی قائد کی کھری کھری باتوں پر چیف منسٹر اپنی نشست سے اٹھ کھڑے ہوئے، انہوں نے اپنے سیکولر کردار کے بارے میں کہاکہ وہ بحیثیت چیف منسٹر سب کے ساتھ انصاف کا فریضہ ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے مجلسی قائد کی تقاریر کے حوالے سے کہاکہ قومی میڈیا، سوشیل میڈیا کے ذریعہ سارے ملک بلکہ دنیا بھر میں لوگوں نے اس کا مشاہدہ کیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ذات، پا، علاقہ واریت، طبقہ واریت کی سطحوں سے بلند ہوکر وہ چیف منسٹرکی حیثیت سے ذمہ داری نبھارہے ہیں۔ انہوںنے اس بات کی وضاحت کی کہ ان کی (اکبر الدین اویسی) گرفتاری میں حکومت کا کوئی رول نہیں ہے، ان کی تقاریر کے بارے میں عدالت فیصلہ کرے گی۔ اننت پور اور ضلع رنگاریڈی کے مومن پیٹ میں پیش آئے واقعات پر انہوں نے کہاکہ کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔ حکومت کسی بھید بھاؤ کے بغیر ان معاملات سے نمٹے گی۔ انہوں نے مجلسی قائد کی طرف متوجہ ہوکر کہا "میں اویسی برادران کی عزت کرتا ہوں"۔ جناب اکبر الدین اویسی نے چیف منسٹر کی مداخلت کے بعد کہاکہ ان کی تقریر کا معاملہ عدالت میں زیر دوراں ہیں۔ عدالت ہی یہ فیصلہ کرے گی کہ انہوں نے کیا درست کہا ہے کیا نہیں؟ سوشیل میڈیا اور قومی میڈیا میں ان کی تقاریر کو پھیلائے جانے کے معاملہ پر انہوں نے کہاکہ اس خصوص میں ممبئی کی ایک آئی ٹی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئی وہ سمجھتے ہیں کہ چیف منسٹر بھی اس بات سے واقف ہوں گے کہ ان کی تقریر کو کس نے پھیلایا ہے۔ انہوں نے چیف منسٹر پر انتقامی سیاست کا الزام لگایا۔ کہاکہ سنگاریڈی کے واقعہ جو 8سال پرانا ہے بیرسٹر اسد الدین اویسی کو اس پرانے مقدمہ میں جیل بھیجا جاتا ہے ، کیا یہ سیاسی انتقام نہیں ہے؟ تلنگانہ راشٹرا سمیتی کے قائدین کے ساتھ بھی اب ایسی کارروائی کی جارہی ہے ۔ انہوںنے سڑک بند کے دوران گرفتار کئے گئے ٹی آرایس کے تمام قائدین کو رہا کرنے اور ان کے خلاف مقدمات کو ہٹانے کامطالبہ کیا۔ انہوں نے کہاکہ وقار آباد میں 50 سے زائد مسلمانوں کو گرفتار کیا گیاہے، ان گرفتارشدگان کی فوری رہائی کی انہوں نے مانگ کی۔ جناب اکبر الدین اویسی نے چیف منسٹر سے کہاکہ 2014ء زیادہ دور نہیں ہے، آج آپ حکومت میں ہے کل آپ حکومت میں نہیںرہیں گے، حالات بدل جائیں گے۔ ریاست کے مسلمان کانگریس کو سبق سکھانے کیلئے ایک موقع کے منتظر ہیں۔ انہوں نے 2014ء میں ریاست میں ایک سیکولر حکومت بننے کی امید کا اظہار کیا اور کہاکہ مجلس اس کا ساتھ دے گی تاکہ اقلیتوں کے ساتھ انصاف ہوسکے۔ وزیر داخلہ سبتیا اندرا ریڈی نے سڑک بند احتجاج کے دوران گرفتاریوں کے بارے میں وضاحت کی۔ انہوں نے مجلسی قائد جناب اکبر الدین اویسی کے اٹھائے گئے اننت پور واقعہ میں کہاکہ حکومت خاطیوں کے خلاف کارروائی کررہی ہے۔ انہوں نے اس واقعہ کے خلاف احتجاج کرنے والے افراد کے خلاف مقدمات پر نظر ثانی کا بھی وعدہ کیا۔ مومن پیٹ ضلع رنگاریڈی کے واقعہ پر انہوں نے کہاکہ اس سلسلہ میں دونوں طبقات سے گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ ضلع ایس پی کو جائے واقعہ پر پہنچ کر صورتحال کا جائزہ لینے کی ہدایت دی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ امن کمیٹی کا اجلاس طلب کیا جارہا ہے، اس علاقہ میں پیدا شدہ تنازعہ کی یکسوئی کا انہوں نے یقین ظاہر کیا۔

Akbaruddin Owaisi assembly speech - covering current scenario of A.P muslims

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں